• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اچھی صورت بھی کیا بُری شے ہے...ڈاکٹرخالد جاوید جان

کسی شاعر نے کہا تھا کہ
اچھی صورت بھی کیا بُری شے ہے
جس نے ڈالی نظر بُری ڈالی
یہ بات کسی اور کے بارے میں ہو یا نہ ہو البتہ پاکستان کے معاملے میں سو فیصد ٹھیک ہے کہ پاکستان کے اکثر مسائل کی وجہ اس کی خوبصورتی یا دنیا میں اس کے اہم ترین جیو پولیٹیکل محلِ وقوع کا ہونا ہے۔ سابق سوویت یونین اور روس، چین ،بھارت، وسطِ ایشیا اور خلیجی ریاستوں کے سنگم پر واقع یہ ملک اپنی ابتدا ہی سے اندرونی اور بیرونی طاقتوں کی سازشوں کا شکار ہوگیا تھا۔ اس کے محلِ وقوع کی وجہ سے عالمی طاقتوں کے مفادات نے اسے ہمیشہ ریشہ دوانیوں کا شکار بنائے رکھا اور ایک منصوبے کے تحت اسے عدم استحکام کا شکار رکھا تاکہ کوئی انہیں اپنی من مانی کارروائیوں سے نہ روک سکے۔ اس سلسلے میں ابتدائی طور پر دو کام کئے گئے ایک اس کے بنیادی نظریئے کو مضبوط معاشی ٹھوس زمینی اور قومی مفادات کے بجائے پر ابہام مذہبی نظریات پر استوار کر کے ایک پنڈورابکس کھول دیا گیا۔ دوسرا کام، سیاست میں فوجی مداخلت تھی جس کا پہلا کُھلا اظہار1953میں ایک فرقے کیخلاف فسادات کے دوران لاہور میں پاکستان کی تاریخ کے پہلے جزوی ماشل لا کے نفاذ کی صورت میں ہوا ۔یہ 1958کے مارشل لا کا ٹریلر تھا۔مذہبی عناصر ہر آمرانہ حکومت کا ہر اول دستہ بنے رہے ہیں یحییٰ خان اور جنرل ضیاء کا تو ذکر ہی کیا روشن خیال جنرل پرویز کو بھی ایم ایم اے نے سترھویں ترمیم کے ذریعے لامحدود اختیارات فراہم کئے اور بدلے میں بلوچستان اور کے پی کے میں حکومتیں حاصل کر لیں جو بقول ریٹائرڈ جنرل احتشام ضمیر سابق ڈپٹی ڈی جی آئی ایس آئی 2002 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے قائم کی گئیں۔ تقسیم کے وقت پاکستان اپنے چھوٹے مگر جامع اور اہم ترین جغرافیے ، قدرتی وسائل، مذہب کلچر اور زبانوں کے کم تضادات کی وجہ، بھارت کے مقابلے میں زیادہ اور تیز رفتار ترقی کرنے کے صلاحیت رکھتا تھا لیکن سامراجی آقائوں نے اپنے مقامی ایجنٹوں کی مدد سے ہمیں ایک قوم بننے ہی نہیں دیا اور اس سرزمین کو اپنے مفادات کے حصول کیلئے اڈہ بنا لیا۔ عجیب بات ہے کہ پاکستان نے اپنے ہمسائے میں واقع اس وقت کی سپرپاور سوویت یونین کے بجائے خود کو امریکہ کا اتحادی بنا کر اپنی سرحدوں پر بھارت کے ساتھ سوویت یونین کو بھی دشمن بنا لیا۔ اب اس حقیقت میں کسی کو انکار نہیں کہ پاکستان میں ہر ڈکٹیٹر شپ کو امریکہ کی اشیرباد حاصل رہی ہے حالانکہ سوویت یونین کی دوستی ہمارے قومی مفادات کیلئے زیادہ اہم تھی۔ سابق سیکریٹری داخلہ ایم اے کے چوہدری اپنی کتاب ’’مارشل لا کا سیاسی انداز‘‘ میں لکھتے ہیں ’’پچاس کے عشرے میں جبکہ پاک امریکی تعلقات تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ روس نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ کھوڑو صاحب کی قیادت میں ایک وفد روس گیا اور واضح طور پر یہ تاثر لے کر لوٹا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہونے کی صورت میں روس کشمیر کے تنازع میں اپنا موقف تبدیل کرلے گا اور سابقہ ہندوستان نواز پالیسی ترک کردے گا۔ کشمیر کے تنازع کے حل کیلئے یہ ایک بہت اہم اور سنہری موقع تھا لیکن افسوس کہ ہم نے امریکہ کی قربت کے نشے میں یہ موقع دانستہ طور پر کھودیا‘‘۔ ریاستی امور میں مذہب اور فوج کی مداخلت عالمی سامراج کے ایک سوچے سمجھے پلان کی حصّہ تھی جس کا واضح مقصد نئی ریاست کو جو انتہائی اہم محلِ وقوع کی حامل تھی عدم استحکام سے دوچار رکھنا اور ایک قوم بننے سے روکنا تھا تاکہ ایک مضبوط قوم جمہوریت کی بدولت سیاسی اور معاشی استحکام حاصل نہ کر سکے اور سامراج اس خطّے میں بآسانی اپنے مفادات کاکھیل کھیل سکے۔ جنرل ایوب کے مارشل لا نے مغربی اور مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی بنیادوں کو گہرا کردیا جبکہ جنرل یحییٰ کے دور میں علیحدگی کی سازش پایۂ تکمیل کو پہنچ گئی لیکن اصل کہانی یہ ہے کہ مغربی پاکستان کی جو جغرافیائی اہمیت تھی وہ مشرقی پاکستان کی نہیں تھی لہٰذا سامراجی طاقتوں نے بہت پہلے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ دونوں حصّوں کا بوجھ بیک وقت اٹھانے کے بجائے اُن سے علیحدہ علیحدہ ڈیل کی جائے۔ اس کے لئے مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی ناگزیر تھی جس کے لئے زمین پہلے سے ہموار کی جاچکی تھی چنانچہ مشرقی پاکستان میں جنگ کے دوران سوویت یونین اور بھارت نے تو اعلانیہ علیحدگی پسندوں کی مدد کی کیونکہ ہم انہیں اعلانیہ اپنا دشمن قرار دے چکے تھے لیکن امریکہ نے بھی درپردہ ان کی مدد کی اور خاموش تماشائی بن کر اپنے ’’جگری دوست‘‘ پاکستان کی تباہی کا منظر دیکھتا رہا اور خلیج بنگال میں اس کا ساتواں بحری بیڑہ غیر ملکی مداخلت روکنے کے بجائے مچھلیاں پکڑ کر واپس چلا گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں امریکہ کے پُراسرار کردار کے بارے میں سابق ڈائریکٹر انٹیلی جنس رائو رشید اپنی کتاب ’’جو میں نے دیکھا‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’جب شیخ مجیب انتخابات سے پہلے 1970ء میں لندن آئے تو آخری دوچار دن لندن سے ایک اور جگہ سائوتھ میں ساحل کے کنارے چلے گئے۔ وہاں وہ اپنے ساتھ کسی کو نہیں لے کر گئے۔ وہاں سے مجھے رپورٹیں ملیں کہ وہاں ان کی ملاقات امریکیوں سے رہی‘‘ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد جب جناب ذوالفقار علی بھٹو کی ولولہ انگیز قیادت میں نئے پاکستان نے اپنا جمہوری سفر شروع کیا اور 25سال کے بعد پہلا متفقہ آئین بنا لیا تو یوں لگا کہ شاید اب ہم ایک قوم بننے کی طرف سفر شروع کردیں گے لیکن چند ہی سال کے بعد مذہبی عناصر اور فوج کے ذریعے ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں موت کے گھاٹ اتا دیا گیا‘‘۔ مسڑ بھٹو نے28اپریل 1977 کو پارلیمنٹ میں کھلے عام امریکہ کو ان کی حکومت کے خلاف سازش میں ملّوث قراد دیا تھا۔ جنرل ضیاء نے’’جہادِ افغانستان‘‘ کے نام پر امریکی مفادات کی جنگ میں ہمیں اس طرح ملّوث کیا کہ ہم آج تک اس سے باہر نہیں نکل سکے۔ رہی سہی کسر جنرل پرویز مشرف نے پوری کردی۔ سوویت یونین کا ٹوٹنا اور امریکہ کا دنیا کی واحد سپر پاور بننا بیسویں صدی کا سب سے بڑا سانحہ ہے۔ جس نے مسلم ممالک اور تیسری دنیا کے اکثر ملکوں کو امریکی نیو ورلڈ آرڈر کے تحت بے یارو مددگار کردیا ہے اور ان کے سیاسی، معاشی حالات یہاں تک کہ ان جغرافیے کو بھی تبدیل کرنا شروع کریا ہے۔ پاکستان میں ریاست کے خلاف ہونے والی دہشت گردی اسی زمرے میں آتی ہے کیونکہ موجودہ پاکستان میں بھی بین الاقوامی اہمیت کے لحاظ سے کے پی کے ، بلوچستان اور کراچی انتہائی اہم علاقے ہیں۔ جہاں دہشت گردوں نے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ پاکستان کو قومی سطح کی لیڈر شپ اور سیاسی پارٹی کے اثرو رسوخ سے محروم کردیا جائے تاکہ سامراجی مقاصد کیلئے اس کی نئی تقسیم کے عمل میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔ ہماری بین الاقوامی اہمیت یا خوبصورتی کی وجہ سے ہماری سلامتی کے خلاف ہونے والا یہ کھیل کب تک جاری رہتا ہے اور کس انجام کو پہنچتا ہے اس کا تعیّن آنے والا وقت ہی کرے گا جو بہت دور نہیں۔
تازہ ترین