• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مہینے میں پیٹرول 85 روپے لیٹر مہنگا ہوجانے کے بعد ایک بار پھر یہ بحث تازہ ہوگئی ہے کہ حکومت روس سے سستا تیل خرید کر عوام کو ریلیف کیوں نہیں دیتی؟ اس حوالے سے بھارت کی مثال دی جاتی ہے جہاں روس سے سستا تیل خرید کر پیٹرول کے نرخ کم کئے جا رہے ہیں ۔

کیا عمران خان کا یہ دعویٰ درست ہے کہ روس سے 30فیصد کم قیمت پر تیل خریدنے کےلئے بات ہوگئی تھی ؟ کیا اب بھی روس سے سستا تیل خریدا جا سکتا ہے؟آج کے کالم میں ہم یہی گتھی سلجھانے کی کوشش کریں گے ۔بھارت امریکہ اور چین کے بعد تیل کا سب سے بڑا صارف ہے ،جو اپنی ضرورت کا 85فیصد تیل درآمد کرتا ہے۔

 سب سے زیادہ آئل عراق اور پھر سعودی عرب سے امپورٹ کیا جاتا ہے، آئل کی درآمدات میں روسی خام تیل کا حصہ محض ایک یا دو فیصد تھا لیکن یوکرین پر روسی حملے کے بعد صورتحال بدل گئی ۔

 پابندیوں کے باعث روس کو تیل کی فروخت کےلئے نئی منڈیاں تلاش کرنا پڑیں تو سستے نرخوں پر تیل فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی۔

بھارت نے صورتحال سے فائدہ اُٹھایا اور عالمی منڈی کی نسبت فی بیرل 40 ڈالر کم قیمت پر روسی خام تیل درآمد کرنا شروع کردیا۔اپریل میں بھارت یومیہ 2 لاکھ 77ہزار بیرل خام آئل روس سے منگوارہا تھا جبکہ اب روزانہ 8 لاکھ 19ہزار بیرل روسی تیل آرہا ہے۔

اگر ماہانہ درآمد کی بات کریں تو مارچ میں بھارت نے روس سے 3 ملین بیرل تیل خریدا، اپریل میں 7.2 ملین بیرل تیل درآمد کیا، مئی میں 24 ملین بیرل روسی خام تیل حاصل کیا گیا جبکہ جون میں 28 ملین بیرل روسی تیل کی بھارت آمد متوقع ہے۔ 24 فروری 2022ء کو یوکرین پر حملے کے بعد بھارت روس سے 34 ملین بیرل خام تیل خرید چکا ہے۔

بھارت اپنی آئل کی امپورٹس میں سے 18 فیصد تیل روس سے خرید رہا ہے یوں روس عراق کے بعد بھارت کو تیل مہیا کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے جبکہ سعودی عرب تیسرے نمبر پر چلاگیا ہے۔

عمران خان دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں روس کی طرف سے 30فیصد کم قیمت پر تیل اور گندم خریدنے کی پیشکش کی گئی تھی۔جب موجودہ حکومت نے اس دعوے کو جھٹلانا شروع کیا تو حماد اظہر نے ایک خط شیئر کیاجو حکومت ختم ہونے سے 9دن پہلے روسی وزیر کو لکھا گیا .

اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان روسی تیل خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ معاملہ خط سے آگے نہیں بڑھا اور روس نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔پاکستان میں روسی سفیر واضح کر چکے ہیں کہ کوئی حتمی بات چیت نہیں ہوئی تھی ۔

کراچی میں روسی قونصل جنرل سے اس حوالے سے سوال کیا گیا تو وہ بھی قہقہہ لگائے بغیر نہ رہ پائے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ گزشتہ دورِ حکومت میں رو س سے سستا تیل خریدنے کا معاہدہ بیشک نہ ہوا ہو مگر اب بھی روس سے تیل خریدنے کا فیصلہ کرلیا جائے تو بھارت کی طرح پاکستان کو کم قیمت پر خام تیل مل سکتا ہے ۔لیکن یہ فیصلہ کرنے سے پہلے چند بنیادی نوعیت کے سوالات پر غورکرنا ضروری ہے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی ریفائنریز روسی خام تیل پراسیس کر سکتی ہیں ؟ عالمی پابندیوں کے سبب پاکستان کے لئے روسی تیل خریدنا ممکن ہوگا؟کہاں کہاں سے دبائو آسکتا ہے؟اگر اس دبائو کو نظر انداز کردیا جائے تو کیا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے؟کیا روسی خام تیل کی درآمد کے بعد پیٹرول سستا ہو جائے گا؟ پہلے سوال کا جواب تو ہاں میں ہے،مگر دیگر سوالات پیچیدہ ہیں ۔پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان تیل کہا ں سے درآمد کرتا ہے۔پاکستان متحدہ عرب امارات ،سعودی عرب ،کویت اورعمان سے تیل امپورٹ کرتا ہے۔

اب اگر ہم سعودی عرب سے اُدھار تیل لیتے ہیں ،متحدہ عرب امارات اورسعودی عرب نے معیشت کو سہارا دینے کے لئے ڈالر بھی ہمارے اکائونٹ میں رکھے ہوئے ہیں تو کیا وہ اس بات کی اجازت دیں گے کہ ہم اُدھار تیل اور ادھار ڈالر ان سے لیں مگر نقد تیل روس سے خریدیں ؟ہماری ایکسپورٹس کا حجم 30بلین ڈالر ہے .

ان میں سے 8بلین یورپ اور 7بلین ڈالر امریکہ سے آتے ہیں ۔ہماری آئل امپورٹس 25بلین ڈالر ہیں ہوسکتاہے ،روس سے سستا تیل خریدنے کے بعد ہم سالانہ ایک ارب ڈالر بچالیں لیکن کیا اس کے لئے ہم 15ارب ڈالر کی ایکسپورٹس سے ہاتھ دھونا پسند کریں گے؟

فیٹف گرے لسٹ میں ہونے کی وجہ سے پاکستان کو بے پناہ معاشی نقصان اُٹھانا پڑ ا۔ خاصی تگ و دو کے بعد پاکستان گرے لسٹ سے باہر آرہا ہے۔لیکن سوچئے،اگریورپ پاکستان سے GPS Plusاسٹیٹس واپس لے لے تو کیا ہوگا؟ IMF سے2ارب ڈالرلینے کے لئےپاکستان کو ناک رگڑنا پڑ رہی ہے .

اگر عالمی دبائو نظر انداز کرکے روس سے تیل لینے کا فیصلہ کرلیا جائے اور امریکی دبائو پرIMF پاکستان کو بیل آئوٹ پیکیج دینے سے انکار کردے توملک دیوالیہ ہوجائے گا،کیا اتنی بڑی قیمت ادا کی جاسکتی ہے؟اگر عالمی دبائو نظر انداز کرکے روسی تیل خریدنا اتنا ہی آسان ہوتا تو PTIکی حکومت پاکستان ،بھارت ،ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرکے سستی گیس نہ خرید لیتی؟

پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں خام تیل حکومت درآمد نہیں کرتی بلکہ آئل ریفائنریز امپورٹ کرتی ہیں ۔اگر انہیں کہیں سے سستا تیل میسر آئے گا تو وہ خریدنے میں دیر نہیں لگائیں گی۔

 اگر روسی خام تیل پاکستان آنا شروع ہوجاتا ہے تو اس کے نتیجے میں آئل ریفائنریز کے مالکان کو تو فائدہ ہوگا لیکن عوام کو ریلیف ملے گا ،یہ بات وثوق سے نہیں کی جاسکتی کیونکہ پاکستان میں پیٹرول کی قیمتوں کے تعین کا طریقہ کار ہی ایسا ہے۔

دنیا بھر میں آئل پروڈکٹس کی قیمتوں کے حساب سے ’اوگرا‘15دن بعد قیمتوں میں کمی یا اضافے کی سفارش کرتی ہے ،اگر حکومت اسے منظور نہ کرے تو پھر آئل کمپنیوں کو سرکاری خزانے سے ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ روسی خام تیل آنے کے بعد بھی کم قیمت کا فائدہ آئل کمپنیوں اور آئل ریفائنریز کو ہوگا۔عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔

تازہ ترین