• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قانتہ رابعہ، گوجرہ

شخصیت پرنام کا اثر ہونے کا مقولہ اگرسچ ہے، تو عقیلہ کلثوم اس پر سو فی صد پورا اُترتی تھی۔ ہر ایک کے لیے معاملہ فہم ،دانا ، سمجھ دار،سیانی اور اپنے نام کی طرح عقل مند۔ جس کسی کو بھی مدد کی ضرورت ہوتی، وہ عقیلہ کو طلب کرتا اور عقیلہ بھی بوتل کے جن کی طرح حاضر ہو جاتی، بڑے سے بڑے مسئلے کا اتنا سہل حل بتاتی کہ سب حیران رہ جاتے۔ یہی نہیں، خاندان میں کسی دُور پرے رشتے دار کے ہاں شادی ہوتی، تو دلہن کی منہدی وہی لگاتی، کوئی بیمار ہوتا تو رات رات بھر جاگ کر صرف تیمارداری ہی نہ کرتی، یخنی، دلیہ،کھچڑی اور سوپ جیسے پرہیزی کھانے بھی اس قدر مزے دار بناتی کہ مریض کی طبیعت خوش ہوجاتی۔ اس کے سگھڑاپے اور صلاحیتوں کا پورا خاندان معترف تھا۔

عقیلہ ،تین بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ ہر کام میں ماہر، ہر کسی کے کام آنے والی،لیکن اس کا بس ایک ہی خواب تھا، ’’اللہ کے گھر کی زیارت‘‘۔ ذوالحج کا مہینہ شروع ہوتے ہی اس کی تمام تر توجّہ بس ایک طرف مرکوز ہوجاتی ،ایک ہی چیز کے خواب دیکھتی، ایک ہی حسرت میں آہیں بَھر بَھر کے سارے گھر والوں کو سلگاتی اور خود بھی سلگتی رہتی، اسے تو بس اللہ کے گھر جانا تھا۔ اس ماہ اسے دنیا کا کوئی اورکام یاد نہیں رہتا۔ ہاں، بس یہی سوچتی رہتی کہ کون حج پر جا رہا ہے، کتنے پیسے خرچ ہو رہے ہیں، کتنے دن قیام کرے گا۔ اُٹھتے بیٹھے، صبح شام بس ایک ہی دُھن سوار رہتی کہ مَیں کب حرم شریف میں سجدہ ریز ہوں گی، کس گھڑی روضۂ رسولؐ پرجانا نصیب ہوگا۔

جہاں ریڈیو ، ٹی وی پر حج کے بارے میں کوئی دستاویزی فلم آتی، اس کی آنکھوں سے ساون بھادوں کی جَھڑی برسنے لگتی اور جہاں کوئی دل کے تار ہلانے والی نعت سُنتی رونے کے ساتھ ہچکیاں بندھ جاتیں، بے تابی سمٹنے میں نہ آتی،کئی مرتبہ تو نظریں آسمان کی طرف اُٹھ جاتیں اور دل سے بس ایک ہی دُعا نکلتی کہ ’’یااللہ! کب سے منتظر ہوں، بس ایک بار، صرف ایک بار اپنی اس گناہ گار بندی کو اپنے گھر کی زیارت کا شرف بخش دے، حج و عمرے کی سعادت نصیب فرمادے۔‘‘ 

جو بھی حج یا عُمرے سے واپس آتا، عقیلہ اشک بار آنکھوں سے دیکھتی، دل میں ہزاروں شکوے، تو احساسِ ندامت بھی ہوتی کہ ’’جانے اللہ کو میری کون سی بات بُری لگ گئی ہے، جو مجھے بلاوا نہیں بھیج رہا۔ ‘‘لیکن اسے پوری اُمید ہی نہیں، یقین تھا کہ وہ ضرور بلائی جائے گی،اسے بھی حاضری نصیب ہوگی۔ ’’ملتزم،مقامِ ابراہیمؑ کہاں ہے،حطیم کے اندر ساری جگہ خالی ہےیا کچھ پر بیل بوٹے بنے ہیں، صفا و مروہ پر سعی کرتے ہوئے کیا مرد ہی سبز بتیوں پر دَوڑتے ہیں یا عورتیں بھی، مدینے کے سفر میں وہ نم دیدہ نم دیدہ ہی رہے گی یا شوقِ سفر میں پاؤں بھی شل ہوں گے…کیا پتا مسجدِ نبویؐ میں،جنّت البقیع کے نیچے برآمدے میں یا بابِ جبریلؑ سے گزرتے ہوئے میرا پاؤں وہاں پڑجائے، جہاں سے نبی کریمؐ گزرے ہوں۔‘‘ یہ تمام باتیں سوچتے سوچتے اس کے سارے وجود پر کپکپاہٹ طاری ہو جاتی، ایک سنسناہٹ سی محسوس ہوتی، پھر اس کے بعد اسے اس فانی،ظالم، دھوکے باز، دنیا کی کوئی خبر نہ رہتی، وہ گھنٹوں درود و سلام پڑھتی رہتی۔

خیر، دن گزرے، کورونا وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، مگر انہی دنوں عقیلہ کا رشتہ بھی آگیا۔ لڑکا سعودی عرب میں کسی چھوٹی موٹی کمپنی میں لفٹ آپریٹر تھا، قد کاٹھ میں دبلا، سانولی رنگت والا۔ گھر والے سوچ بچار میں ڈوب گئے کہ اپنی اتنی پیاری، سیانی بیٹی کو اس کے ساتھ بیاہیں یا نہیں، لیکن عقیلہ کو ایک ہی دُھن سوار تھی کہ یہ رشتہ ہوجائے۔ ’’پوری دنیا کورونا کے ڈر سے گھروں میں بند ہے۔ اب توحج و عُمرے پر بھی پابندی ہے، تو تمہیں اس رشتے میں کیا دکھائی دے رہا ہے، جو اتنی اتاؤلی ہوئے جا رہی ہو؟‘‘عقیلہ کی آنکھوں میں اترتے جگنوؤں کے قافلے دیکھ کر اس کی بھابھی نے پوچھا۔

’’جب رشتہ قبول کرنے کی نیت ہی اُس کے دَر کی حاضری ہے، تو کیسے ممکن ہے کہ کوئی پابندی مجھے عُمرہ کرنے سے روک سکے۔‘‘وہ شرمائی، نہ مُسکرائی، بلکہ پورے یقین سے بولی، تو بھابھی نے بھی ایک اچھی پیغام رساں ہونے کا حق ادا کیا اور ماں باپ کو ان کی لاڈلی کی خواہش بتا دی۔ یوں عقیلہ اور وحید کا رشتہ پکّا ہوگیا۔ یہ اور بات کہ رشتہ منظور ہونے سے نکاح تک کا سفر پورے گیارہ مہینے میں طے ہوا۔ اور پھر سب نے دیکھا اور حیران رہ گئے کہ جس دن عقیلہ اور وحیدکی شادی تھی، اسی دن پابندیوں کے ساتھ حج و عمرے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہونے کی خبر بھی آگئی۔ 

شادی کے اگلے ہی دن عقیلہ نے شوہر سے اللہ اور اس کے محبوبؐ کا دَر دکھانے کی فرمائش کرڈالی ۔ بیگم کی بےتابی دیکھ کر ولیمے کی اگلی صبح وہ اسے اپنے ساتھ پاسپورٹ آفس لے گیا، جہاں وہ بخوشی دو گھنٹے قطار میں کھڑی رہی۔ میاں کے واپس جانے سے قبل ہی نیا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی بن گیا۔ ان دنوں حج کے لیے درخواستیں طلب کی جارہی تھیں، تو عقیلہ نے میاں سے کہا کہ ہم بھی درخواست جمع کروا دیتے ہیں۔ لیکن اللہ کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ اس کی درخواست منظور نہ ہوئی۔ وہ بہت روئی، گناہوں کی معافی مانگی، لیکن پھر یہ سوچ کر چُپ ہوگئی کہ ’’شاید ابھی قسمت میں حاضری نہیں ۔ ‘‘

شوہر نے کہا، ’’تم پریشان نہیں ہو، ہم اگلے برس پھر درخواست جمع کروادیں گے۔‘‘ شوہر کی باتیں سُن کر عقیلہ چُپ رہی کہ وہ تو بس یہی سوچ رہی تھی کہ ’’جب ربّ ہی نے بلاوا نہیں بھیجا، تو اس کی مخلوق سے کیسا شکوہ …‘‘ پھر کچھ دن بعد وحید سعودی عرب چلا گیا اور جاتے ہی اس نے عُمرہ کیا۔ عُمرے پر جانے سے لے کر حرم میں پہنچنے تک کا تمام سفر اس نے عقیلہ کو ویڈیو کال کے ذریعے دکھایا تاکہ اس کا اداس دل کچھ سکون پا سکے، اس کے دید کی پیاس کم ہو سکے۔ 

دوسری جانب عقیلہ نے سُسرال والوں کا دل جیتنے اور ان کی خدمت گزاری میں کوئی کمی نہیں رکھی۔ وہ جی جان سے ساس، سُسر کی خدمت کرتی اور ان سے کہتی کہ ’’میرے لیے دُعا کریں کہ اللہ پاک میرے دل کی مراد پوری کردے، مجھے اپنے گھر کی زیارت نصیب فرمادے۔‘‘

حج کے دن آئے اور اسے پتا چلا کہ اس کے محلّے کے دو گھروں کے افراد حج پر جا رہے ہیں، تو وہ اپنی ساس کے ساتھ ان کے ہاں کھانا پکا کر لے کر گئی اور ان سے بھی دُعا کرنے کے لیے کہا۔ یہاں تک کہ جس روز ان کی فلائٹ تھی، تو وہ بھی صبح سویرے اُٹھ گئی اور محلّے والوں کو الوداع کہنے ان کے دروازے تک گئی۔ حج کے روز عقیلہ نے صبح ہی سے عرب ٹی وی لگا لیا تھا کہ حج کے لائیو مناظر دیکھ سکے، اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور زبان ’’لبّیک ، اللّھم لبّیک ‘‘ کے ورد سے تر تھی۔ 

اگلے دن رات میں عقیلہ کے پاس اس کی خالہ زاد بہن، نازیہ کی کال آئی، جو حج پر گئی ہوئی تھی، ’’کہاں ٹھہری ہو؟‘‘ نازیہ نےچہکتے ہوئے پوچھا۔ ’’کیا مطلب …؟؟ مَیں کہاں ٹھہروں گی، مَیں تو پیر محل، اپنے سسرال میں ہوں۔اور تم نے وہاں سے مجھے کیسے کال کرلی؟ میری بہن، تمہیں حج کی ڈھیروں مبارک باد، اللہ پاک تمہارا حج قبول فرمائے‘‘ عقیلہ نے حیران ہوتے ہوئے جواب دیا۔’’ک…ک…کیامطلب ؟ تم نے بھی تو اس بار حج کی درخواست جمع کروائی تھی، حج پہ جانے والی تھیں ناں تم…‘‘نازیہ نے پوچھا۔’’ہاں، جانا تو تھا، لیکن درخواست قبول نہیں ہوئی۔ 

مَیں اس برس بھی محروم رہ گئی۔ لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ میرا اللہ مجھے مایوس نہیں کرے گا۔ اِن شاءاللہ !ہم لوگ اگلے سال دوبارہ حج پر جانے کی کوشش کریں گے۔‘‘عقیلہ نے مطمئن لہجے میں جواب دیا۔ ’’عقیلہ یار!مذاق مت کرو۔ مَیں نے خود کل تمہیں مقامِ ابراہیمؑ پرنفل پڑھتے دیکھا ہے ،مَیں جتنی دیر میں تم تک پہنچی، تم نظروں سے اوجھل ہو چُکی تھیں۔ پھر جب خطبۂ حج ہورہا تھا، تب بھی تم اور وحید بھائی مجھے نظر آئے، مَیں نے سوچا دُعا کے بعد تم سے ملاقات کروں گی، لیکن رش میں کہاں ممکن تھا۔

اچھا مجھے ایک بات بتاؤ، تم نےناک میں لونگ کی جگہ بالی پہنی ہوئی ہےناں؟‘‘ نازیہ کی باتیں سُن کر عقیلہ کے تو جیسے سارے وجود میں سنسناہٹ سی اُتر آئی کہ اس نے ابھی تین دن قبل ہی تو لونگ اتار کر بالی پہنی تھی اور اس دوران نازیہ سے ملاقات تو دُور کی بات، اس کا اپنے میکے تک جانا نہیں ہوا تھا۔ ’’بولو عقیلہ، کہاں ٹھہری ہو تم؟ اب تو مت چھپاؤ…‘‘ نازیہ نے پھر کہا، لیکن عقیلہ کچھ کہنے کی حالت میں کہاں تھی کہ اس کی زبان تواپنے ربّ کا شکر ادا کرنے میں مصروف تھی۔ اس کا دل سمجھ چُکا تھا کہ جو عرضی اس نے اپنے ربّ کے پاس بھیجی تھی، وہ کب کی منظور ہوگئی۔ وہ زیرِ لب بہتے آنسوؤں کے ساتھ ’’لبّیک، اللّھمَ لبّیک ‘‘کا ورد کرنے لگی ۔