شی آن شہر میں ہمارے لیے کشش کا سبب نہ تو اس کی چھے ہزار سال پرانی تاریخ تھی، نہ سیکڑوں سال تک کم و بیش تیرہ سلطنتوں کا پایۂ تخت رہنا۔ ایک بات تو کہنی پڑے گی کہ ٹیرا کوٹا میوزیم کو شی آن ہی کا نہیں، چِین کا بھی مقامی نشان کہا جا سکتا ہے۔ ویسے تو ابھی گریٹ سٹی وال، وائلڈ گوز پگوڈا،بیل ٹاور اور معلّق گرم چشمے جیسی خُوب صُورت، قابلِ دید جگہیں دیکھنا باقی تھیں، لیکن ہمارا دل تو بس ’’شی آن مسلم کوارٹر‘‘ جانے کے لیے بےتاب تھا کہ وہاں جا کے مسجدمیں سجدہ ریز ہونا تھا، وہاں کی مسلم خواتین سے کچھ دل کی باتیں کرنی تھیں۔
گوکہ زبان کا مسئلہ آڑے آتا، لیکن جب نیتوں میں خلوص ہو، تو راستے خود ہی نکل آتے ہیں۔ ’’سنکیانگ جانا تو شاید نصیب نہ ہو‘‘ ہم نے سوچا۔ ٹیکسی فرّاٹے بھرتی منزل کی جانب رواں دواں تھی اور ہم باہر کے نظارے کرنے، صاف سُتھرا شہر دیکھنے میں محو تھے۔ ہماری نظر بار بار فُٹ پاتھ کے پہلوئوں میں کھڑے درختوں پر جا رہی تھی کہ شاید ان کے ارد گرد کوئی پتّا گرا نظر آجائے، پر ہماری یہ حسرت پوری نہ ہو سکی۔ ’’اللہ جانےدرخت اتنے باشعور ہیں کہ یہ خود کو شوریدہ سر ہوائوں سے سنبھال کر رکھتے ہیں یا پھر صفائی کرنے والے اتنے مستعد ہیں کہ گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ کہیں کوئی پتّا گرے اور اسے دبوچا جائے۔‘‘ ہم منہ ہی منہ میں بڑبڑائے۔
ایک وسیع و عریض میدان کے وسط میں مستطیل نما عمارت کے گلیارے سے اس قلعۂ شہر میں داخل ہوئے، جس کے اُوپر سہ منزلہ رنگیلا سجیلا جھلکیاں مارتا پگوڈا( بدھ مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہ، مخروطی شکل کا مندر) تھا ۔ ’’ارے، شاہ راہِ ریشم یہیں سے تو شروع ہوتی تھی۔ پُرانے وقتوں کے لوگ بھی تجارت، تعلیم اور میل ملاپ کی ضرورت اور اہمیت سے آگاہ تھے۔‘‘ایسا لگا جیسے شاہ راہِ ریشم خود ہم سے مخاطب ہے۔ ’’پرشیا (موجودہ ایران)، عرب ممالک اور وسط ایشیا کے لوگ اپنے بچّوں کو حصولِ علم کے لیے اسی شہر بھیجتے تھے، بالکل ویسے ہی جیسے آج کل کے لوگ اپنے بچّوں کو یورپ بھیجتے ہیں۔‘‘ اس نے بتایا۔’’تم مجھے یہ سب کیوں بتا رہی ہو، تمہیں کیا لگتا ہے کہ مَیں تمہاری (شاہ راہِ ریشم کی) اہمیت سے آگاہ نہیں؟ ارے مجھ سے زیادہ کون اس کے عشق میں مبتلا ہوگا اور ہاں تمہاری تالیفِ قلب کے لیے عرض ہے کہ اب ہمارے بچّے بھی چِین آنے لگے ہیں۔ یہی نہیں، ہمارے تو نبی کریمؐ کا فرمانِ عالی شان ہے کہ ’’علم حاصل کرو، خواہ تمہیں چِین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔‘‘
ہم نے ذرا تلخ لہجے میں جواب دیا۔ ’’غصّہ کیوں کررہی ہو، آج کے لوگ میرے بارے میں کچھ نہیں جانتے کہ صدیوں پہلے مَیں نے کیسے مشرقِ وسطیٰ اور وسط ایشیا کے ذریعے مشرق اور مغرب کو ملایا ہوا تھا اور ہاں، کیا تم اس انسان کے بارے میں نہیں جاننا چاہو گی، جس نے مجھے بنایا، جس کا مَیںخیال تھی۔ ارے بھئی، چند لمحوں کے لیے انہیں بھی یاد کرلو، جنہوں نے انسانی فلاح کے لیے اتنا بڑا کام کیا۔‘‘ ’’ضرور،ضرور …مَیں منتظر ہوں۔‘‘ ہم نے جواب دیا۔ ’’اس کام کا سہرا دو خاندانوں کے سر ہے۔
پہلا ہان خاندان، جس نے صدیوں پہلے یعنی قریباً اکیس سو سال قبلِ مسیح اپنا ایک ایلچی وسط ایشیا میں دو بار امن، دوستی اور تجارت کے مشن پر بھیجا۔ دوسرا، بادشاہ ژانگ چھیان کے سر، جو شاید 138قبلِ مسیح میں حکم ران تھا۔ بڑا ہی دلیر اور کچھ کر گزرنے کے جذبے سے لیس، وسط ایشیا کے لوگوں سے میل جول اور تجارتی تعلقات بڑھانے کا شدید خواہش مند تھا۔ ایسا جیالا کہ کسی وزیر، مشیر، سفیر یا ایلچی کو بھیجنے کی بجائے خود ہی کوسوں میل کا سفر طے کرکے ایک بڑے قبیلے کے پاس جاپہنچا، جس نے اُسے دشمن سمجھ کر کئی سال قید میں رکھنے کے بعد آزاد کیا۔
جب بادشاہ واپس اپنے مُلک لَوٹاتو اُس نے اپنے درباریوں کو عرب کے قصّے سُنائے، وہاں کے خوب صُورت گھوڑوں کا ذکر کیا، جنہیں وہ ر شک سے دیکھتا تھا۔ عرب شہہ سواروں اور اُن کی دلیری و وجاہت کے قصّوں نے درباریوں کو بھی اُکسایا کہ وہ اُن سے میل جول شروع کریں،گھوڑے خریدیں۔ نیز، اس شاہ راہ کے لیے قازقستان کے کردار سے بھی چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔
الماتے(قازقستان کا شہر) تو عین شاہ راہ ہی پر واقع ہے اور جانتی ہو الماتے کا چِین کی جنگِ آزادی کے میں کتنا بڑا کردار ہے؟1941 ء میں جب چِین حبّ الوطنی کی عظیم جنگ لڑرہا تھا، تو غربت، بے روزگاری اور جنگ کا ستایا ہوا ایک مشہور چینی موسیقار، شیان شینگ حائی، الماتے پہنچ گیا۔ جس کی ملاقات مشہور قازق موسیقار، بخت شان بے کراحوف سے ہوئی، جو اُسے اپنے گھر لے گیا۔اس کی مہمان نوازی کی، خیال رکھا اور موسیقی کی دنیا میں کام کرنے کا موقع دیا۔ الماتے میں اُس نے مشہور ’’شہ پارے قوم کی آزادی‘‘، ’’مقدّس جنگ‘‘ اور ’’پورا دریا سُرخ ہو‘‘ جیسے نغموں کی دُھنیں بنائیں، اِن نغمات نے لوگوں کو فاشزم کے خلاف مل کر جدّوجہد کرنے پر اُکسایا، ایک اُمنگ اور حوصلہ دیا۔آج چِین جس مقام پر ہے، اس میں شینگ حائی کے ساتھ قازقستان کا بھی بڑاحصّہ ہے۔‘‘ اس نے تاریخ پر روشنی ڈالی۔
شفّاف سڑکیں، اُن پر چلتی سُرخ بیر بوٹی کے رنگ کی ڈبل ڈیکر بسز، نئی گاڑیاں، ٹیکسیز، پُرشکوہ بلند وبالا عمارتیں، جو چیخ چیخ کر چِین کے دُنیا پر چھا جانے کی خبر دیتی تھیں۔ نکھرے سُتھرے تکونی آنکھوں والے مرد و زن، نوجوان لڑکے،لڑکیاں سب گویا ایک سیلِ رواں میں بہتے چلے جا رہے تھے۔ دوپہر کا ایک بج رہا تھا اور دُھوپ کے بانکپن پر اب بھی وہی شوخی اور تیزی تھی، سارا ماحول میٹھے سے سُرور میں ڈوبا لگتا تھا۔
ہمیں تو جیسے اس ماحول نے اپنے سحر میں جکڑ سا لیا تھاکہ ہماری ٹیکسی وسیع و عریض پختہ، خُوب صُورت اور جابجا سنگی بینچوں سے سجے میدان کے سامنے رُکی اور ہم مسلم کوارٹر پہنچ چُکے تھے۔ چند لمحوں کے لیے وہیں ایک بینچ پر بیٹھ کر ہواؤں کی خنکی و تیزی ، اردگردبکھرے سبزے کی دل کشی، گردوپیش کے ماحول کو لُطف و انبساط سے دیکھنے کے ساتھ اللہ کی پاکیزگی بھی بیان کی۔ بیل ٹاور بھی سامنے نظر آرہا تھا، سر تا پا رنگوں میں ڈوبا ہوا،شی آن کی مرکزی جگہ کا لینڈ مارک، جیسے فیصل آباد کا گھنٹا گھر ہو۔ اس کے پاس ہی بس ایک چھلانگ پرے ڈرم ٹاور بھی تھا۔
دونوں کی تاریخ بے حد دل چسپ ہے۔ بنے تو دونوں ہی منگ سلطنت کے زمانوں میں ہیں، پر دونوں کا کام بالکل الگ کہ ہمارے ہاں مُرغوں کی طرح صبح سویرے لوگوں کو جگانے کا کام بیل ٹاور سے لیا جاتا اور رات ہونے پر ڈرم پیٹا جاتا کہ’’ اچھے چینی بچّو! چلو، اب سو جائو کہ سویرے تڑکے اُٹھنا ہے۔‘‘ ہمارا ہوٹل اس جگہ سے قریب ہی تھا۔ پہنچے تو بھوک کچھ زیادہ نہ تھی کہ راستے بھر کچھ نہ کچھ کھاتے پیتے آئے تھے، مگر پیٹ میں جب تک نان، اناج نہ جائے ہم دیسیوں کو سکون کہاں آتا ہے۔ مگر اس سے بھی پہلے مسجدجاکر نماز پڑھنی تھی،جو ہمارے لیے روٹی سے بھی زیادہ اہم تھا۔ پس’’Huimin Jie in Pingyin‘‘ میں جو مسلم کوارٹر کا دوسرا بڑا معروف نام ہے، دَوڑتے بھاگتے داخل ہوئے۔دو رویہ سجا بازار بڑا رنگیلا سا تھا ۔ویسے ایک بات تو ہے کہ بازار خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے خُوب رنگین ہوتے ہیں۔بس کہیں ماڈرن اِزم، تو کہیں سادگی نمایاں نظر آتی ہے۔ سچی بات ہے، یہ ایسی رنگ رنگیلی دُنیا تھی کہ جہاں کان پڑی آواز سُنائی نہ دے۔ دُکان داروں کی زور دار آوازیں اور کھینچا تانی کی سر گرم کوششیں اپنے عروج پر تھیں۔
دو پھینی لڑکیوں نے روکا کہ اُن کی دُکان میں آکر خریداری کریں، تو انہیں ہاتھ کانوں تک لے جاکر نماز کا تمثیلی اشارہ دیا کہ فارغ ہو کر آتے ہیں، تو ہونٹوں کی براچھیں گالوں تک پھاڑ کر، تکونی آنکھوں میں ہنسی بکھیر کر انہوں نے فوراً ہاتھوں سے گلی کے موڑ کی طرف اشارہ کیا۔ ’’غالباً یہی بنیامین اسٹریٹ ہے۔‘‘ہم نے سوچا۔ اب رُک کر پوچھنے کا وقت نہیں تھا، تو چلو چھوڑو یہ نہ ہوگی تو کوئی اگلی پچھلی ہوگی ۔کتابچے میں جب یہ نام پڑھا تھا، تو بڑی پرانی شناسائی نے آواز دی تھی۔
حضرت یوسفؑ کا پیارا بھائی ’’بنیامین‘‘ معصوم سا، جس پر چوری کا الزام لگا کر شاہِ مصر نے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔مولوی غلام رسول کی یوسف، زلیخا کے طویل پنجابی کلام کا یہ حصّہ جسے ہماری امّاں بڑے ترنّم سے پڑھا کرتی تھیں۔ چلتے ہوئےبچپن کی پڑھی ہوئی چیزیں یاد آنے لگی تھیں۔ شہر بھر میںلگ بھگ دس مساجد تھیں،ماشاء اللہ، جان کر دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔یہ علاقہ مختلف بیرکوں پر مشتمل تھا، جہاں قریباً دو ہزار لوگ آباد ہیں اور ریاست کی چھپّر چھاؤں میں سانس لیتے اور اپنی پور پور میں روایتی، مذہبی نشانیوں اور علامتوں کے ساتھ جیتے ہیں۔
خیر… ہم بلند و بالا محرابی دروازے سے مسجد کے احاطے میں داخل ہوئے۔دائیں ہاتھ پھیلے دُکانوں کے سلسلے اور بائیں طرف سبز ڈھائی تین فٹ اونچی باڑوں میں گِھری جگہ، چھوٹے چھوٹے باغات اور راہ داریوں میں بٹی ہوئی تھی۔کسی دوسرے مُلک کی مسجد میں سجدہ کرنے میں ہمیشہ ہماری جذباتیت جیسے عروج پر ہوتی ہے۔ سو، اس وقت بھی یہی حال تھا اور ہونٹوں پر ربّ کی وحدانیت کا ورد، حمد و ثنا اور شکریہ تھا، جب کہ آنکھیں آوارہ گرد لڑکوں کی طرح ادھر اُدھر گھومتی پھرتی تھیں۔
دوسرے صحن کی داخلی عمارت کی پیشانی کلمۂ طیّبہ سے چمک رہی تھی۔ تیسرے صحن کی گزرگاہ شاہ کارِ تعمیر کے زمرے میں آتی تھی۔ چینی فنِ تعمیر کا حُسن اس کے پگوڈا اسٹائل شیڈز، دائیں بائیں جھانکتا سبزہ اور چھدرے درخت…یہیں ایک جانب اپنے نوکیلے پر پھیلائے قدامت اور پُراسراریت کا حُسن لیے تین منزلہ پگوڈا بھی تھا۔ جس کی دل کشی نے ہمیں اندر جانے پر مجبور کیا، سو گئے، اُسے دیکھا، سراہا اور باہر نکل آئے۔ چوتھے صحن میں وسیع و عریض مسجد تھی، جس میں مینار نہیں تھا۔
اب ہم ایک ایسی قدیم ترین عبادت گاہ میں داخل ہونے جا رہے تھے، جس کی تعمیر میں عرب اور چینی ثقافتوں کا آمیزہ گندھا تھا، جو باہر سے ایک چینی ٹیمپل کا منظر پیش کرتی ہے، مگر اندر سے اسلامی خدّوخال کی عکاس ہے۔ 6000مربع میٹر پر پھیلی چار صحنوں پر مشتمل مسجد، جس کا ہر صحن اور اس میں قائم مختصر عمارات اپنے اندر ایک انفرادیت اور حُسن سموئے ہوئے تھیں۔ جنہیں دیکھتے اور سراہتے ہوئے ہم یہاں تک پہنچے تھے۔ باہر کرسی پر بیٹھے، سفید ٹوپی لگائے ایک مولوی نظر آنے والے بندے نے اپنی خدمات پیش کرنے کی خواہش کی، مگر ہمیں کسی کی ضرورت نہیں تھی۔جائے وضو تلاش کرنے سے پہلے نماز ہال دیکھنا اور اس کے اندر بسی زمانوں کی خُوش بو سونگھنا ضروری تھا۔
اس کی چوبی دیواروں پر قرآنی آیات کی خطاطی سے بھرے مَن موہنے سے مناظر، چوبی خانوں میں بٹی چھت، سبز چوبی ستون، جن پر عمودی صورت میں اسمائے حُسنیٰ لکھے تھے، سبز مخملی جائے نماز اور محراب کے سامنے بچھے خُوب صُورت مدھم رنگوں کے قالین…سارا ماحول بڑا ہی مسحور کُن تھا۔ اور لُطف کی بات تو یہ تھی کہ ہمیں اُن میں بلتستان کی مسجدِ چقچن اور شگر کی مسجد والی جھلک محسوس ہورہی تھی۔ اس وقت ہماری آنکھیں… (جاری ہے)