اس اجنبی سرزمین پر چمکتا سورج تیز ہواؤں سے جس انداز میں دھینگا مشتی کر رہا تھا، اس سے ہمیں ہوا اور سورج کی لڑائی والی کہانی یاد آگئی۔ دوسری جانب، یہاں عمران کی چینی زبان کی ساری سوجھ بوجھ ناکارہ ثابت ہورہی تھی کہ بھئی، ہیرا پھیریوں میں ان چینیوں کا بھی جواب نہیں۔ تکونی آنکھوں، چپٹی ناکوں والوں نے ہمیں گم راہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، تو بالآخر عمران نے جُھنجلا کر کہا’’ گولی مارو سب کو، ٹیکسی میں میوزیم چلتے ہیں۔‘‘’’اُف خدایا! عُمر کے کس حصّے میں تُو نے یہ عنایتیں میرے اوپر نازل کی ہیں۔‘‘راستے میں میری زبان سے یونہی نکل گیا، تو عمران نے فوراً دل جوئی کرتے ہوئے کہا،’’گھبرایے نہیں، اندر وہیل چیئر کا انتظام ضرور ہوگا، آپ کے لیے بھی ایک لےلیں گے۔‘‘
راستے میں ہمیں خیال آیا کہ یہاں تو گھومنے پھرنے، کھانے پینے کی چیزوں کا انبار لگا ہے، ظاہر ہے داماد جی خرچہ کرنے میں کوئی کمی تو نہیں رکھیں گے، اس طرح تو انہیں یہ ٹرپ بڑا منہگا پڑجائے گا۔’’ہائے بے چارے میرے داماد جی، ساس کو گھمانے پھرانے، کھلانے پلانے کے چکّر ہی میں مارے جائیں گے۔‘‘ ہم نے سوچا اور افسوس کیا، انہی سوچوں میں گُم کب میوزیم پہنچے پتا ہی نہیں چلا۔
پھر ٹیکسی نے جب پارکنگ ایریا میں اُتارا تو پتا چلا کہ لو بھئی، اب منیر نیازی کو تو یاد کرنا بہت ضروری ہوگیا ہے کہ ابھی تو کوئی میل بھر اور چلنا ہے، تب منزل آئے گی۔ لیکن شُکر اللہ کا کہ گالف کارٹ( Golf Cart)نے ہماری مشکل آسان کردی، جس میں ہم پانچ لوگ(تین ہم اور ایک بھارتی جوڑا) بیٹھے اور سفر شروع ہوا۔ ’’آپ کا نام کیا ہے اور کہاں سے تعلق ہے؟‘‘ ہماری باتونی طبیعت نے سوال پوچھنے پر اُکسایا۔’’ہم بھارت سے ہیں، میرا نام اوشا ہے اور یہ میرے پتی(شوہر) پران۔‘‘ لڑکی نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا۔
دونوں نے بتایا کہ وہ کاروباری لوگ ہیں اور یہاں سیر سپاٹے کے لیے آئے ہیں۔گو ابھی سیّاحت کاموسم نہیں تھا، مگر لوگوں کے پُرے جوش و جذبے سے بیگ کاندھوں پر ڈالے بھاگتے چلے جارہے تھے۔ دوسری جانب، سرسبز لان کا وسیع و عریض سلسلہ تھا، جہاں کہیں کہیں مُسکراتے پھول، جو ابھی پوری طرح کِھلے بھی نہیں تھے، دکھائی دے رہے تھے، تو دائیں، بائیں شان دار عمارتوں کے سلسلے بھی قابلِ دید تھے۔ گویا جنگل میں منگل کا سماں تھا۔
یقین جانیے، ان مناظر سے لطف اندوز ہوتے کب میوزیم کے داخلی دروازے تک جا پہنچے، پتا ہی نہ چلا۔ گالف کارٹ نے ہمیں عین داخلی دروازے کے سامنے اُتارا، تو اوشا اور پران ٹکٹ لینے چلے گئے، جب کہ ہمارے ٹکٹس پہلے ہی سے بُک تھے۔ ویسے ایک بات تو ہے کہ زبان کی ہم نوائی بھی کِسی نعمت سے کم نہیں ہوتی، پلک جھپکتے اجنبیت سے پُر ماحول میں مانوسیت اور اپنائیت کی خُوش بُو بکھر جاتی ہے، ایسا ہی کچھ ہمارے اور بھارتی جوڑے کے ساتھ بھی ہوا۔
ذرا سی دیر میں اُن سے اس قدر اُنسیت ہوگئی تھی، جیسے برسوں کا ساتھ ہو۔ خیر، ہنستے مُسکراتے دونوں کو الوداع کہا اور پھر عمران نے اندر داخل ہونے سے قبل وہیل چیئر لینے کے حوالے سے رائے مانگی، تو اس وقت مَیں نیلے چمکتے طلائی کرنوں کی بارش کرتے آکاش تلے کھڑی گردوپیش کا جائزہ لے رہی تھی، جب کہ میرے اردگرد سے ہنستی مُسکراتی،ہٹّی کٹّی بڑی بوڑھیاں ، خوش گپیوں میں مصروف گزر رہی تھیں۔ ’’یا اللہ! کیا مَیں اتنی گئی گزری ہوں کہ ان کی طرح چل پھر بھی نہیں سکتی۔‘‘مَیں نے دل میں سوچا اور پھر خود پر یہ کہتے ہوئے لعنت بھیجی کہ ’’ڈوب مر، ان کو دیکھ عُمر میں یقیناً تجھ سے بڑی ہی ہوں گی، مگر ہمّت اور توانائی میں جوانوں کو پیچھے چھوڑ دیں۔پھرتیری تو صحت اچھی اور کاٹھی مضبوط ہے، تو تُجھے کیوں دَورے پڑ رہے ہیں۔‘‘پھر عمران کو دیکھتے ہوئے ہنسی اور کہا، ’’بھئی ابھی تو چاہت کا آغاز ہی ہوا ہے، دیکھیں تو سہی اس دل کے ولولے کتنا ساتھ نبھاتے ہیں۔‘‘
سچّی بات ہے، مَیں نواسوں کے توسّط سے میوزیم سے آشنا تو ضرور ہوگئی تھی، مگر یہ تو گمان کےکسی حصّے میں بھی نہ تھا کہ اندر داخل ہوتے ہی حیرتوں کے جیسے برقی جھٹکوں سے منہ کے بَل ہی گر پڑوں گی۔ واقعی، اگر بیٹی اور داماد ساتھ نہ ہوتے تو منہ کے بل گرنا تو طے ہی تھا۔ وسیع و عریض ہال کی وسعتوں کی تو کیا ہی بات کروں کہ نظریں شرمندہ ہورہی تھیں۔ داخلہ پِٹ (ایک طرح کی سرنگ) نمبر ایک سے ہوا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ متاثر کُن ہے۔اسے حیرت زدہ کہوں یا سحر زدہ کہ بس اتنا یاد ہے کہ ایک پُر فسوں سا ماحول تھا، جس میں بندہ سانس لیتے ہوئے ڈرتا ہے۔
حالاں کہ یہ یقین تو تھا کہ منظر نامہ حقیقی تو ہے، مگر اب صرف محفوظ ہے۔ مگر اب بوڑھے دل کو کون سمجھائے…لوگ جیسے دھیرے دھیرے چلتے تھے۔اطراف میں بنے اُن کشادہ رستوں پر جن پر پلوں کی صورت کا گمان پڑتا تھا۔جہاں چینیوں کی کثرت تھی، تو غیر ملکی بھی بہتیرے تھے۔ تعمیر ی ڈھانچے کی بلندیوں سے اطراف کی جانب پھوٹتی روشنیوں میں زمینی گڑھوں میں اِستادہ فوجی جیسے لام پر جانے کے لیے صف بستہ ہوں۔ کہیں تین،کہیں چار کی قطاروں میں چاق و چوبند،جنگی لباس پہنے، تو کہیں اُن پر سجے نشان، جو یقیناً تمغوں ہی کے ہوں گے۔
برانز ہتھیار تھامے، اپنے آگے کھڑے چھے فٹ سے کہیں زیادہ نکلتی قامت کے جرنیل جیسے حکم کے منتظر ہوں۔سچ تو یہ ہے کہ دیکھنے سے قبل احساسات کچھ عجیب سے تھے، مگر جب دیکھا تو فرطِ حُسن سے نہیں فرطِ حیرت سے انگلیاں کاٹنے والی بات تھی۔ دنیا کا بےحد چونکا دینے والا حد درجہ متاثر کُن، حیرت انگیز عجوبہ تھا۔ مٹی گارے کے تراشیدہ مجسّموں کا تو اُن پر گمان ہی نہ ہوتا تھا۔ وہ جگہ اس قدر سحر زدہ تھی کہ جسے دیکھ کر انسان کو سوائے ان (مجسمّوں )کے جو اپنے چہروں پر مختلف تاثرات لیے سامنے کھڑے ہیں،کچھ یاد ہی نہ رہے۔ اُس اذن کے منتظر کہ جیسے ابھی لام پر جانے کے لیے طبلِ جنگ بجے گا اور وہ ’’کوئیک مارچ، کوئیک مارچ‘‘ کرتے نکل کھڑے ہوں گے۔
چلتے چلتے کسی کسی لمحےکچھ یوں بھی محسوس ہوا، جیسے ابھی ان کا جرنیل اشارہ کرے گا اور وہ بس دشمن پر ٹوٹ پڑیں گے۔گو اس وقت دشمن تو ہم سیاح ہی تھے۔آنکھوں کے ساتھ ساتھ ذہن بھی مصروفِ کار اور سوال کرتا تھا کہ ’’کیا اِن بادشاہوں کو اور کوئی کام نہیں تھا، یہ اتنے ویلے (فارغ) تھے کہ بس موت سامنے دیکھتے ہی سارے خزانے، مال دولت دفن کروادیتے تھے۔‘‘ سچّی بات ہے، قبلِ مسیح کے بادشاہوں کے کتابچے کھولو یا بعدِ مسیح کی تاریخیں پڑھ لو، سب ایک ہی تھالی کے چٹّے بٹّے تھے۔ لیکن کیا گزرتے وقت، تعلیم اور تہذیب نے انسانی سوچ بدلی یااُن کی فکر پر کوئی مثبت اثر ڈالا…؟؟ ہر گز نہیں کہ آج بھی یہی سوچ و فکر مختلف شکلوں میں ہمارے ساتھ چمٹی ہوئی ہے۔ اور ہاں، ایک اور ستم ظریفی بھی ملاحظہ کریں کہ شہنشاہ کن شی ہوانگ(چین کے پہلے بادشاہ) نے ہراس بندے کو ماردیا تھا، جو کسی نہ کسی انداز میں اس کے کام آیایا جس نےاس کا ساتھ دیا ، یہاں تک کہ کچھ کو تو زندہ ہی دفن کر ڈالا تھا۔
یعنی کوئی ایک آدمی بھی زندہ نہیں چھوڑا، جو یہ بتاتا کہ 8لاکھ لوگوں کی فوج اور کانسی کی رتھیں کہاں دفن ہیں۔ ویسے ایسا تو کم و بیش ہر عہد کے طاقت وروں نے کیا ہے۔ چِین کے بادشاہ نے تو جو کیا وہ کیا، لیکن صدیوں بعد کی نسلوں کو ’’آٹھویں عجوبے کا تحفہ اور کمائی کا ذریعہ‘‘ دے گیا۔ اس شاہ کار کی دریافت کیسے ہوئی، یہ کہانی بھی بڑی دل چسپ ہے، تو ہوا کچھ یوں کہ 1974ء کا موسمِ بہار تھا۔ تباہ کُن سردی اور برچھی کی کاٹ جیسی ہوائیں اپنے سینوں پر جھیلنے کے بعد رُت بدلی تھی، درختوں پر پتوں نے پھوٹ کر نئے موسم کی خوش خبری سُنائی تھی۔
انہی دنوں شی آن کے ضلعے، لِن ٹانگ کاؤنٹی (Lintong County)کے نزدیک دو کسان بھائیوں نے اپنی فصلوں کو پانی دینے کے لیے ایک کنواں کھودنے کا ارادہ کیا، تو جب انہوں نے منتخب کردہ زمین پر ہتھوڑے چلانے شروع کیے تو پھاوڑے چلاتے چلاتے ایک نے رُک کر دوسرے سے کہا ’’کاش !زیادہ گہرا نہ کھودنا پڑے۔ پانی میٹھا بھی ہو اور چاندی جیسا اُجلا بھی۔‘‘ اتنے میں دوسرے بھائی کو کچھ برتنوں کے ٹکڑے نظر آئے، تو وہ حیرت سے اُن کی طر ف لپکا۔ ان میں سے کچھ انسانی صورتیں اور کچھ جانور دِکھتے تھے۔ بات پھیلی تو گائوں اکٹھا ہوگیا۔
پھر اردگرد کے گائوں کے لوگ بھی آنے لگے اور شدہ شدہ بات آثارِ قدیمہ کے ماہرین تک جا پہنچی اور جب انہوں نے آکر کُھدائی، تحقیق کی، تو نیچے سے ٹیراکوٹا آرمی کا ایک جہاں اُبل پڑا۔ دریافت کا سلسلہ 1974ء سے 78 ء کے لگ بھگ جاری رہا۔ صدہزار بار آفرین ہے چینی حکومت پر جس نے یہاں ایک دُنیا آباد کردی۔ تاریخ کا روشن باب جو کُھل گیا تھا۔جنگل میں منگل کا سا سماں پیدا ہوگیا ۔صرف پچیس برسوں میں چینی قوم نے اِس قدر شان دار میوزیم بنایا اور دنیا کو اپنا قابلِ فخر وَرثہ دیکھنے پر مجبور کردیا کہ وہ مانیں کہ یہ دُنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے۔
دوسری جانب ہم لوگ ہیں، جنہیں کئی تاریخی و ثقافتی شہر ملے،مگر ہم نے تباہ و برباد کردئیے۔ یہاں قابلِ توجّہ پہلو یہ ہے کہ صدیوں پرانے لوگوں کو بھی سائنس سے آشنائی تھی۔ قبلِ مسیح سے بھی سیکڑوں سال پہلے لوگ جانتے تھے کہ انہیں چیزیں کیسے محفوظ کرنی ہیں۔ برانز کے ہتھیاروں کی چمک دمک آج تک قائم ہے، اُن کے بلیڈز کی تیز دھار، چند اوزاروں پر کرومیئیم ((Chromium کی موجودگی سے پتا چل رہا تھا وہ چیزیں محفوظ کرنے کے فن سے آگاہ تھے۔ فطرت آج فیاض ہے تو صدیوں پہلے بھی ایسی ہی تھی۔
کتابچے میں تحریر تھا کہ تینوں پِٹس کا اگر تفصیلی اور تنقیدی جائزہ لیا جائے تو ایک جیسی صورتوں کا نظر آنا ،اگر ناممکن نہیں، تو مشکل ضرور ہے۔ والٹ نمبر ایک میں عام سپاہ تھی، جس کا ہر فوجی اپنے خدّوخال،بالوں، رنگ، ہیئر اسٹائل، قد و قامت کے حساب سے سبھوں میں مختلف تھے۔اب بھئی ان کے دعووں کی تردید تو مجھے کرنی نہیں تھی کہ میرا ذاتی مشاہدہ گڈمڈ ہوا پڑا تھا۔ شاذ و نادر ہی کوئی صورت قطعی طور پر دوسرے کے بر عکس نظر آتی تھی۔
گو مَیں نے سارے پِٹس ضرور دیکھے، مگر مختصر سے وقت میں باریک بینی، تنقیدی نگاہ سے انہیں دیکھنا ممکن نہ تھا۔ہاں، مگر سب سے بڑے پِٹ میں اگر ہزاروں مجسمّوں کو سرسری نگاہ سے دیکھا جائے، تو ایک جیسے ہی لگ رہے تھے۔لیکن یادداشتوں کو آواز دوں، دماغ پر زور ڈالوں تو کہیں فرق کی جھلکیوں کے لشکارے بھی تھے۔ پِٹ نمبر دو اور تین علی الترتیب چھوٹے تھے۔سچ تو یہ ہے کہ پِٹ نمبر دو بہت متاثر کُن تھا کہ وہاں ایسی خُوب صُورت رتھیں تھیں کہ ہر ایک کے تعاقب میں تین تین، بے حد خُوب صُورت رتھیں اور گھوڑے رکھے تھے کہ بے اختیار چھلانگ مار کر ان میں بیٹھنے کو جی چاہ رہا تھا۔ تین قطاروں میں منقسم ہر گھوڑے کے سامنے کھڑے سپاہی کے ایک ہاتھ میں لگام،تو دوسرے میں کمان تھی۔
اتنی دل کش مجسمہ سازی کہ کیا بتاؤں۔بس یہی کہ بندہ عَش عَش کر اُٹھے۔ البتہ، کچھ مجسموں پر سورج کی کرنوں اور ہوا نے منفی اثرات چھوڑے تھے۔ اب صدیوں بعد کچھ تو نقصان ہونا ہی تھا۔ پِٹ نمبر تین، پٹ ایک کے عقب میں تھا، جب کہ نمبردو ذرا ہٹ کر تھا۔ گو نمبر تین کو ایک طرح سے ہیڈکوارٹر کی سی حیثیت حاصل تھی۔ اس کا شمالی ’’وِنگ رُوم‘‘ فتح کی دُعا مانگنے کے لیے اور جنوبی ’’وِنگ رُوم‘‘ فوجی مشاورت کے لیے مختص تھا۔سچّی بات ہے، اس فوج کے اتنے بڑے کھلار اور پسار کو سمیٹنا میری ٹانگوں کے بس کی بات تھی، نہ آنکھوں کے بس کی۔
مَیں تو بُری طرح ہلکان ہو گئی تھی، جب ہی تو پِٹ نمبردو اور تین دیکھنے کے لیے ہرگز تیار نہ تھی، لیکن اللہ میری بیٹی اور داماد کو زندگی اور سلامتی دے، جنہوں نےجانے کب وہیل چیئر کا بندوبست کرلیا، جس کی بدولت مَیں بآسانی وہ دونوں پِٹس بھی دیکھ سکی۔ پھرجب ہم صدیوں پرانے مُردوں کی دُنیا سے نکل کر زندگی میں واپس آئے، انسانوں کی چہل پہل، ہنستے مُسکراتے چہرے دیکھے تو رنگا رنگ میلے کا سا احساس ہوا۔
وہاں بازار سجے تھے، خریداریوں کے سلسلےجاری تھے، ایک طرف آوازیں لگاتے دُکان دار تھے، تو دوسری جانب خریداری کرتے لوگ۔ ایسی کون سی چیز تھی، جو وہاں نہیں تھی، مگر قیمتیں آسمان سے باتی کرتیں ، توعمران نے شی آن کے ڈائون ٹاؤن سے خریداری کرنے کا مشورہ دیا۔ پس ہم نے بازار گھوما، ’’وِنڈو شاپنگ‘‘ کی اور اس شہرِ سپاہ کو اللہ حافظ کہہ کر آگے بڑھ گئے۔ (جاری ہے)