• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2 ہزار ایکڑ پر محیط، کراچی کی عظیم الشان مویشی منڈی

سپرہائی وے،کراچی پر کئی دہائیوں سے مسلسل لگنے والی سہراب گوٹھ، مویشی منڈی پورے مُلک میں اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد اہمیت کی حامل ہے، جہاں بیوپاری اور خریدار جدید سہولتوں اور بھرپور سیکیوریٹی میں اطمینان و سکون سے بلا خوف و خطر جانوروں کی خرید و فروخت میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہاں لاکھوں کی تعداد میں مُلک کے دُوردراز علاقوں سے گائیں، بیلوں، بھینسوں، بکروں اور دنبوں سمیت سیکڑوں کی تعداد میں اونٹ بھی قربانی کی غرض سے لائے جاتے ہیں۔ 

سہراب گوٹھ میں قائم کی جانے والی یہ عظیم الشان مویشی منڈی ہر سال وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آغاز میں چھے سات سو ایکڑ پر لگنے والی منڈی اب 2ہزار ایکڑ تک جاپہنچی ہے۔ اس برس21مئی سے لگنے والی مویشی منڈی 24 بلاکس پر محیط ہے، جس میں 4 وی وی آئی پی، 6 وی آئی پی، 8 جنرل اور 7بلاکس چھوٹے جانوروں کی فروخت کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ 

وی آئی پی بلاکس اور اُن سے ملحقہ پٹّیوں کے علاوہ بیوپاریوں کو مفت جگہ بھی فراہم کی گئی ہے۔ سال ہائے گزشتہ کی طرح امسال بھی اس وسیع و عریض مویشی منڈی میں صفائی ستھرائی، جنریٹر سے بجلی کی سپلائی، مویشیوں کے علاج معالجے کی سہولت، کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم اور ہیلپ لائن کے علاوہ دُوردراز شہروں سے لائے گئے مویشیوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کا بھی مکمل بندوبست کیا گیا ہے۔ 

مرکزی گیٹ کے قریب میڈیا سینٹر بھی موجود ہے، جب کہ بیوپاریوں کے بہ آسانی رقم جمع کروانے کے لیے نجی بینکس کی برانچز بھی کھولی گئی ہیں۔ خریداروں کی آسانی کے لیے اے ٹی ایم مشینیں، موبائل فون کمپنیز کے ٹاورز اور تین سو سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔ پھر مویشی منڈی میں پچاس سے زائد عارضی مساجد کے علاوہ یہاں آنے والوں کی سہولت کے لیے عارضی بیت الخلا بنائے گئے ہیں۔ نیز، سیکڑوں سرچ لائٹس اور ہزاروں ٹیوب لائٹس کے باعث مویشی منڈی رات میں بھی دن کا منظر پیش کررہی ہے۔ حسبِ روایت اس برس بھی ہم نے اس مویشی منڈی کا تفصیلی دورہ کیا، جس کی رُوداد نذرِقارئین ہے۔

سہراب گوٹھ، مویشی منڈی کے گیٹ نمبر 8سے داخل ہوکر ہم کچھ آگے گیٹ نمبر 7پر پہنچے، تو سامنے ہی قائم مارشل ایریا میں ٹرکس سے خُوب صورت گائے، بیل اتارے جارہے تھے۔ جانوروں کے ریمپ سے اترنے کا منظر دیکھنے کے لیے اِردگرد بیوپاریوں اورگاہکوں کا ہجوم اکٹھا تھا۔ ہم نے قریب کھڑے ایک بیوپاری سے پوچھا، ’’قربانی کے یہ جانور کس شہر سے آئے ہیں؟‘‘ اس نے ہماری طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا، تو ہم نے اپنا تعارف کروایا۔ 

جواباً اُس نے بتایا ’’سائیں! یہ جانور پنجاب کے شہر، ساہیوال سے آئے ہیں، ساہیوال کے جانور اپنی خُوب صورتی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں اور یہ خُوب صورت ہونے کے ساتھ انتہائی شریف بھی ہوتے ہیں، مالکوں کو تنگ نہیں کرتے، بس اپنی دُھن میں مگن رہتے ہیں، خاموشی سے چارا کھاتے ہیں۔ آپ بھی بہت دیر سے ان جانوروں کو دیکھ رہے ہو، کیا کسی جانور نے ٹرک سے اُترتے وقت کوئی اڑی بازی کی؟‘‘ ہم نے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے فوراً پوچھا ’’آپ کا کیا نام ہے، کہاں سے آئے ہیں اور کتنے جانور لائے ہیں؟‘‘ 

اس نےجواب دیا، ’’صاحب! میرا نام ساجد ہے، ہم اوباڑو سے 20بچھڑے لے کر آئے ہیں، مگرجنرل بلاک میں بڑی مشکلوں سے جگہ ملی ہے۔‘‘ وسیع و عریض راہ داری کے دائیں بائیں جنرل بلاکس میں بے شمار جانور چارا کھاتے، پانی پیتے اور جگالی کرتے نظر آرہے تھے۔ گرچہ پچھلے دو برسوں سے کورونا وبا کی غیر یقینی صورتِ حال کے باعث مویشی منڈی میں روایتی جوش و خروش کا فقدان رہا تھا۔ تاہم، اس سال صورتِ حال کچھ بہتر ہی نظر آئی۔ 

یوں تو ہر سال کمشنر کراچی کی اجازت سے شہر کے آٹھ مقامات پر مویشی منڈیاں قائم کی جاتی ہیں، لیکن سپرہائی وے، سہراب گوٹھ کے قریب روایتی انداز اور پوری آب و تاب سے سجنے والی یہ منڈی اپنی وسعت کے اعتبار سے پورے ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی تصوّر کی جاتی ہے، جہاں لاکھوں جانوروں کی خرید و فروخت کے دوران اربوں روپے کے لین دین کے سبب ہزاروں لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی میسّر آتے ہیں۔ 

یہاں مُلک بھر سے لاکھوں کی تعداد میں چھوٹے، بڑے جانور فروخت کے لیے لائے جاتے ہیں، جن میں زیادہ تر بڑے جانور گائے، بیل وغیرہ پنجاب، بکرے، دنبے پنجاب، بلوچستان اور اندرونِ سندھ کے علاوہ ملک کے مختلف شہروں اور دُور دراز مقامات سے لائے جاتے ہیں، جب کہ زیادہ تر اونٹ چولستان اور صحرائے تھر سےآتے ہیں۔ امسال اونٹوں کے لیے گیٹ نمبر 5کے قریب بلاک مختص کیا گیا ہے، جہاں لاڑی، گہنا، لاٹی، ساکرا، ڈاٹی اور تھری جیسی اعلیٰ نسلوں کے اونٹ فروخت کے لیے رکھے گئے ہیں۔

مویشی منڈی کے منتظم، مظفّر حسن نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی: اسرائیل انصاری)
مویشی منڈی کے منتظم، مظفّر حسن نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی: اسرائیل انصاری)

رواں برس بھی کنٹونمنٹ بورڈ، ملیر نے سہراب گوٹھ پر مویشی منڈی کے قیام کے لیے ٹینڈر جاری کیا اور مطلوبہ معیار پر پورا اُترنے پہ اس کا ٹھیکا ’’حسن برادرزاینڈ کمپنی‘‘ کو دیا۔ کمپنی کے رُوحِ رواں اور مویشی منڈی کے منتظم، مظفّر حسن سے ملاقات کے لیے ہم گیٹ نمبر 8 سے آگے بڑھے، تو کچھ ہی فاصلے پر میڈیا سیل کے انچارج، آصف حسین سیّد نے ہمارا خیر مقدم کیا۔ 

دفتر کے باہر بیوپاریوں اور مختلف افراد کا بے پناہ رش تھا۔ اس موقعے پرمویشی منڈی کے ٹھیکے دار منتظم، مظفّر حسن نے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’الحمدللہ، ہمیں تیسری بار اس منڈی کا ٹھیکا ملا ہے۔ اس سے قبل ہم2017ء پھر 2020ء میں بھی یہاں کا نظم و نسق بہترین انداز میں چلاکر سُرخ رُو ہوچکے ہیں۔ اس برس بھی ہم نے ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے ہیں۔ 

بلاشبہ، اس مویشی منڈی کی رونق شہر کے لوگوں ہی سے ہے کہ شہر کی مرکزی مویشی منڈی ہونے کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعدادیہاں کا رُخ کرتی ہے۔ پھر شہریوں کی سہولت کے لیے قائم کی جانے والی فوڈ اسٹریٹ، ہوٹلز، صفائی ستھرائی کے انتظام اور برقی قمقموں سے مزیّن رنگ برنگے خُوب صُورت وی آئی پی بلاکس میں سجے سجائے مختلف اقسام کے جانوروں کی وجہ سے یہاں رات بھر میلے کا سا سماں رہتا ہے۔‘‘ 

انھوں نے مزید کہا ’’ہم دراصل یہاں ایک چھوٹا سا شہر آباد کرتے ہیں، جس میں ہر طرح کی سہولتیں مہیّا کی جاتی ہیں اور یہ شہر پوری ٹیم کی اَن تھک محنت ہی سے آباد ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید وسعت آتی جارہی ہے۔ شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ مویشیوں کی تعداد میں بھی اضافے کے باعث منڈی کے رقبے میں اضافہ ناگزیر ہوگیا تھا۔ دراصل جہاں کھپت ہوتی ہے، مال کی آمد بھی وہیں ہوتی ہے۔

یہاں پورے پاکستان سے بیوپاری اپنے مال مویشی لے کر آتے ہیں اور انھیں خاصا منافع بھی ہوتا ہے۔ منڈی میں خریداروں کی آمد و رفت کے لیے آٹھ مرکزی واک تھرو گیٹ لگائے گئے ہیں، جہاں انتظامیہ کے علاوہ ہمہ وقت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوان بھی موجود رہتے ہیں۔ گیٹ نمبر 7صرف جانوروں کے داخلے کے لیے مختص ہے، جو مارشلنگ یارڈ کہلاتا ہے۔ یہاں ٹرکس اور ٹرالرز میں آنے والے جانوروں کو اتارا جاتا ہے۔ 

مارشلنگ یارڈ میں بڑے جانوروں کے لیے 1800اور چھوٹے جانوروں کے لیے 11سوروپے اینٹری فیس رکھی گئی ہے۔ الحمدللہ، وی آئی پی بلاکس اس پوری منڈی کی رونق ہیں، جہاں بے شمار لوگ آکر بیٹھتے ہیں۔ دراصل یہاں صحت مند، تن درست اور قیمتی جانوروں کی نمائش کی جاتی ہے۔ اس بارمنڈی میں تقریباً چھے لاکھ چھوٹے، بڑے جانوروں کی گنجائش رکھی گئی ہے، جب کہ بیوپاریوں اور خریداروں کی سہولت کے لیے کھانے پینے کے اسٹالز، پارکنگ اور اے ٹی ایم کی خصوصی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔ تمام تر بیوپاریوں کو مکمل نظم و ضبط کی ساتھ ’’پہلے آئیے، پہلے پائیے‘‘ کی بنیاد پر جگہ فراہم کی جاتی ہے اور تمام بلاکس میں فی جانور 16لیٹر مفت پانی کی فراہمی کا انتظام ہے۔ 

ہاں، اگر کسی بیوپاری کو اس سے زیادہ درکار ہوتا ہے، تو وہ خریدکر استعمال کرتا ہے۔ جہاں تک گاڑیوں اور موٹر سائیکلز کی پارکنگ کا تعلق ہے، تو اس سال فی گاڑی (کار) چھے ہزار، جب کہ موٹر سائیکل کے لیے ساڑھے تین ہزار کے پاسز جاری کیے گئے ہیں، جو منڈی کے اختتام تک کارآمد ہوں گے، جب کہ عام پارکنگ ایریا کے لیے فی گاڑی سو روپے اور موٹرسائیکل کے لیے تیس روپے فیس مقرر کی گئی ہے۔‘‘ منتظم، مظفر حسن نے پچھلے دو برس کورونا وبا کے دوران لگنے والی منڈی کا اس سال سے موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’’کورونا وبا کی وجہ سے اگرچہ زیادہ فرق نہیں پڑا، لیکن کچھ بیوپاریوں کو بھاری خسارے کا بھی سامنا رہا۔ لیکن الحمدللہ، اس سال صورتِ حال بہت بہتر ہے، تو بہترین کاروبار کی امید ہے۔‘‘

’’منہگائی کے باوجود، جانور بِک ہی جائیں گے‘‘ بیوپاری کہتے ہیں

سروے کےدوران مختلف بیوپاریوں سے بات چیت ہوئی تو زیادہ تر کا کہنا تھا کہ چارا، کَھلی، گھاس اور بھوسے کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے۔ جانوروں کو مویشی منڈی تک لانے کا کرایہ، جگہ کا کرایہ، بجلی، پانی کے اخراجات سب بڑھ گئے ہیں، پھر پچھلے برسوں میں کورونا اور اس سال لمپی اسکن وائرس کی وجہ سے بھی فارمر کو بہت نقصان ہورہا ہے، تو ایسے میں جانوروں کی قیمتیں آسمان ہی سے باتیں کریں گی۔ میلسی، پنجاب سے آنے والے بیوپاری، عبدالرحمٰن عرصہ دس سال سے اپنے جانور یہاں لاکر فروخت کرتے ہیں۔ 

پچھلے سال کورونا کی وجہ سے نہیں آسکے تھے۔ تاہم، اس سے قبل وہ اسی طرح کے 25لحیم شحیم بچھڑے لائے تھے اور سب عیدالاضحی سے چار روز قبل ہی فروخت ہوگئے تھے۔ اس بار وہ پانچ مَن سے لے کرتیس مَن تک کے اٹھارہ بیل، گائیں لے کر آئے ہیں، جن کے لیے وی آئی پی پٹّی پرتین لاکھ روپے میں ایک پلاٹ حاصل کیا ہے۔ انھوں نے پچیس مَن کے بچھڑے کی قیمت بیس لاکھ اور پانچ من کے بچھڑے کی قیمت دس لاکھ روپے مقرر کر رکھی ہے، جو 17اور 8لاکھ روپے تک میں فروخت کردیں گے۔ 

عبدالرحمٰن نے شکوہ کیا کہ ’’ہم اپنے جانوروں کو دودھ، دہی، گھی اور مکھن وغیرہ کھلا کر چار سال میں تیار کرتے ہیں، لیکن جب منڈی میں فروخت کے لیے لاتے ہیں، تو لوگ دس لاکھ روپے کے بچھڑے کی قیمت پانچ لاکھ تک لگاتے ہیں۔‘‘ مدنی کیٹل فارم، فیصل آباد سے 22لحیم شحیم بچھڑے لے کر پہلی بار کراچی آنے والے عبدالحنان نے چالیس مَن وزنی بچھڑے کی قیمت ساٹھ لاکھ روپے بتائی، جس کا ایک روپیا بھی کم کرنے کو تیار نہیں۔ 

اُن کا کہنا تھا کہ ’’کراچی کے لوگوں کو بڑے جانوروں کی قربانی کا شوق تو بہت ہے، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مال مفت میں تیار ہوتا ہے۔ ہم اپنے جانوروں کو سردیوں میں گھی اور مکھن کھلاتے ہیں، روزانہ پانچ کلو دودھ اور سرسوں کے تیل کے ساتھ لسّی بھی پلاتے ہیں، تب اس طرح کا فربہ جانور تیار ہوتا ہے، لیکن یہاں لوگ دس بارہ لاکھ کا بچھڑا چار پانچ لاکھ میں خریدنا چاہتے ہیں، اس وجہ سے مال بیچنے کا مزہ نہیں آرہا۔ 

ہم نے ایک پلاٹ تین لاکھ کا لیا ہے، ٹینٹ اور پانی کا خرچہ الگ ہے، انتظامیہ کہتی ہے کہ ہم فی جانور سولہ لیٹر پانی مفت فراہم کررہے ہیں، لیکن ہمیں تو ایک بوند پانی مفت نہیں ملا، جانوروں کو پلانے اور نہلانے کے لیے بھی پانی خریدنا پڑتا ہے۔‘‘ لجپال کیٹل فارم، حیدر آباد سے بیوپاری، محمد احسن بھی 16فربہ جانور لے کر آئے ہیں، اُن کے پاس سب سے بھاری بچھیا بیس سے بائیس مَن اور کم سے کم نو مَن کی ہے۔ خان پور سے تعلق رکھنے والے بیوپاری، محمّد اسلم بھی سہراب گوٹھ منڈی میں گزشتہ آٹھ برس سے اپنے جانور فروخت کے لیے لاتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’’یوں تو انتظامیہ کے لوگ تعاون کرتے ہیں، لیکن یہاں سب سے بڑا مسئلہ پانی کی کم یابی کا ہے۔ پچھلے سال کورونا وبا کے باوجود ہمارے 45جانوروں میں سے 43 فروخت ہوگئے تھے۔‘‘ سیّد مصطفیٰ حسین شاہ کا سولنگی اسٹاپ، سپرہائی وے، کراچی میں کیٹل فارم ہے، جہاں سے وہ ایک سو بیس بڑے مویشی لائے ہیں اور اُنھیں رکھنے کے لیے وی آئی پی بلاک میں 90X45 گز کےچار پلاٹس کے 12لاکھ روپے ادا کیے ہیں۔

وہ گزشتہ دس برس سے یہاں آرہے ہیں، پچھلے سال کورونا کے باوجود ان کے ایک سو دس جانور عیدالاضحی سے چند روز قبل ہی فروخت ہوگئے تھے۔ اس سال بھی لمپی اسکن وائرس اور ہوش رُبا منہگائی کے باوجود انھیں یقین ہے کہ ان کے تمام جانور فروخت ہوجائیں گے۔ انھوں نے ساڑھے چار مَن کے جانور کی قیمت دو لاکھ اور ساڑھے سات من وزنی جانور کی قیمت بارہ لاکھ روپے مقرر کی ہے، جس میں بھائو تائو کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔

’’حد سے زیادہ منہگے جانوروں کے سبب سنّتِ ابراہیمی ؑ کی پیروی کسی امتحان سے کم نہیں‘‘خریداروں کے تاثرات

مویشی منڈی میں صبح ہی سے گاہکوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا، جو رات گئے تک جاری رہا۔ جمعے، ہفتے اور اتوار کو رش زیادہ دیکھا گیا، جس میں قیمتیں معلوم کرنے اور تفریحاً گھومنے پھرنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔ بہادر آباد سے اپنے بچّوں کے ساتھ بیل کی خریداری کے لیے آنے والے محمد خالد نے بتایا کہ ’’ہم ہر سال یہاں آتے ہیں، بڑی منڈی ہونے کی وجہ سے آپشن زیادہ ہوتے ہیں، لیکن پچھلے سال کی نسبت اس سال ریٹ بہت زیادہ ہے، تین ساڑھے تین مَن کی گائے کی قیمت چار لاکھ روپے بتارہے ہیں۔ ابھی بات چیت جاری ہے، دیکھیں کتنے میں سودا ہوتا ہے۔ 

ہماری تو کوشش ہے کہ انھیں بھی کچھ منافع ہوجائے اور ہمارا بھی کام بن جائے۔‘‘ کنیز فاطمہ سوسائٹی سے اپنی بیٹیوں اور بیٹے کے ساتھ آنے والی یاسمین خاتون کا کہنا تھا کہ ’’ابھی تو میں صرف اپنے بچّوں کے ساتھ جائزہ لینے آئی ہوں، بعد میں شوہر کے ساتھ آکر کوئی جانور خریدیں گے۔ اس سال لمپی وائرس کے خطرے کی وجہ سے پریشان ہیں اور پھر جانوروں کی قیمتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ سُن کر ہی ہوش اُڑ جاتے ہیں۔‘‘ 

خریدار، رحمٰن سعید نے بتایا کہ ’’یہاں جانور تو ماشاء اللہ بہت اچھے ہیں، لیکن جس جانور کو ہاتھ لگاتے ہیں، بیوپاری اس کی ڈبل سے بھی زیادہ قیمت بتاتا ہے۔ بہرحال، منہگائی کے باوجود اللہ تعالیٰ توفیق دے دیتا ہے، صورتِ حال دیکھ کر لگتا ہے کہ لوگوں کی قوتِ خرید نہ ہونے کی وجہ سے اس سال قربانی کم ہوگی۔ پچھلے برس ہمیں دو بکرے مناسب قیمتوں میں مل گئے تھے، لیکن اس بار لگتا ہے کہ ایک ہی پر گزارہ کرنا پڑے گا۔ 

گزشتہ سال جو بکرا تیس پینتیس ہزار میں مل رہا تھا، اس برس اُس کے پچاس ہزار روپے سے زیادہ مانگ رہے ہیں۔‘‘ گارڈن ایسٹ سے آئے ہوئے ایک نجی کمپنی کے ملازم، محمّد امجد ایک گائے کے سودے میں مصروف تھے، ہمیں دیکھتے ہی پھٹ پڑے، ’’بھائی جان! بہت منہگا مال ہے، ریٹ سُن کر حواس باختہ ہوگئے ہیں، بہت ہی ہائی ریٹ ہے، سمجھ سے باہر ہے کہ کیا خریدیں، پچھلے سال میں نے اسی منڈی سے جو جانور تین لاکھ میں خریدا تھا، اب اُسی وزن کے جانور کے چھے لاکھ روپے بتارہے ہیں۔‘‘

وی آئی پی بلاکس..... وی آئی پی جانور

رنگ برنگے شامیانوں، برقی قمقموں اور جھالروں سےتیار کردہ وی آئی پی بلاکس، واقعتاً وی آئی پی ہی معلوم ہورہے تھے، جہاں زیادہ تر شہر کے معروف کیٹل فارمر اپنے فربہ، تگڑے اور بیش بہا قیمتی مویشیوں کو سجا سنوار کر بیٹھے تھے۔ وی وی آئی پی بلاک میں30x120گز کے ایک پلاٹ کا کرایہ تین لاکھ روپے، جب کہ اس کے عقب کی پٹّی میں ایک پلاٹ کا کرایہ دو لاکھ پچیس ہزار روپے مقرر ہے۔

اسی طرح صرف وی آئی پی فرنٹ کے پلاٹ کا کرایہ ایک لاکھ اسّی ہزار روپے، تو عقب کی پٹّی کا کرایہ ڈیڑھ لاکھ روپے ہے۔ اکانومی کلاس میں ایک پلاٹ کا پچاس ہزار روپے اور جنرل پٹّی کا کرایہ چالیس ہزار روپے ہے۔ نیز، بکرا سیکشن میں وی وی آئی پی بلاک کے 30x60پلاٹ کا کرایہ ڈیڑھ لاکھ روپے اور وی آئی پی پٹّی کا کرایہ پچاسی ہزار روپے بتایا گیا۔

27انچ کی بچھیا..... 10لاکھ روپے میں

وی آئی پی بلاک میں موجود بیوپاری، محمد اقبال اپنے کیٹل فارم کے پلے ہوئے 60 تگڑے بیلوں کے ساتھ چولستانی نسل کی ایک 27انچ قد کی گہنی بچھیا بھی لائے، جو لوگوں کی خاص توجّہ کا مرکز بنی دکھائی دی۔ انھوں نے بچھیا کی قیمت دس لاکھ روپے مقرر کر رکھی تھی۔ تاہم، تادمِ تحریر اُس کا سودا نہیں ہوسکا تھا۔

ویٹرینری میڈیکل کیمپ.....

کانگو وائرس کے بعد جانوروں میں تیزی سے پھیلے والی بیماری، لمپی اسکن کی روک تھام کے لیے بھی منڈی انتظامیہ نے خصوصی اقدامات کر رکھے ہیں۔ اس حوالے سے منڈی میں موجود، ویٹرینری ڈاکٹر، عُمر آغا اور ان کی ٹیم نے پہلے ہی روز سے مویشی منڈی میں آنے والے جانوروں کی اسکیننگ کا عمل شروع کردیا تھا۔ ان کے علاوہ مزید 30 ویٹرینری ڈاکٹرز بھی یہاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 

ڈاکٹر عُمرآغا نے بتایا کہ ’’مویشی منڈی کے ہر بلاک میں جراثیم کُش ادویہ کے اسپرے کے علاوہ مارشلنگ ایریا میں اندرونِ ملک سے آنے والے قربانی کے جانوروں کا مکمل چیک اَپ کیا جارہا ہے۔ چوں کہ کچھ جانور ایسے بھی ہیں، جن میں لمپی اسکن کی بیماری یہاں آنے کے بعد بھی ظاہر ہونے کا امکان تھا، لہٰذا جانوروں کے منڈی میں داخلے کے بعد بھی انہیں مکمل طور پر چیک کیا جارہا ہے۔‘‘

ہوش رُبا منہگائی، بیوپاریوں، خریداروں کے لیے آزمائش!!.....

مُلک بھر میں ہوش رُبا منہگائی کی لہر اور قوت ِ خرید کم ہونے کی وجہ سے ایم عمومی تجزیہ ہے کہ اس سال بہت سے لوگ سنّتِ ابراہیمی ؑکی ادائی سے محروم رہ جائیں گے۔ کچھ اسی قسم کے تاثرات منڈی کے سروے کے دوران بھی سامنے آئے۔ بیوپاری شکایت کرتے دکھائی دیئے کہ منہگائی کی وجہ سے جانوربہت منہگا پڑا ہے، تو ہم نے قیمتیں بھی زیادہ رکھی ہیں۔ 

ساڑھے تین چار مَن کے جانور کی قیمت دس، بارہ لاکھ ہے، جسے عام آدمی سُن کر چکرا جاتا ہے، گرچہ یہاں ایک لاکھ سے دو ڈھائی لاکھ روپے مالیت کے جانور بھی موجود ہیں، مگر وہ نسبتاً کم زور ہیں۔ جب کہ عام لوگوں کا کہنا تھاکہ جانور بہت منہگے ہیں، اس لیے زیادہ تر لوگ اجتماعی قربانی کی طرف جارہے ہیں، بکروں کی قیمتیں بھی بہت زیادہ ہیں۔ سہراب گوٹھ، مویشی منڈی آنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ورائٹی بہت ہے،لیکن یہاں بھی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ ہر طرف گھوم پھر کر مناسب قیمت کے جانور کی تلاش جاری ہے۔

سولہ سنگھار کے70اسٹالز!!.....

وی وی آئی پی بلاک سے متصل قریشی پٹی پر سجاوٹ کے تقریباً 70اسٹالز لگے دکھائی دیئے، جہاں تمام تر مویشیوں کے لیے ہر طرح کی سجاوٹی اشیاء دست یاب تھیں۔ لوگ اپنی پسند کا جانور خریدنے کے بعد اُسے یہاں تزئین و آرائش کے لیے لارہے تھے، جب کہ کچھ لوگ مَن پسند آرائشی اشیاء خرید کرخود بھی اپنے جانوروں کو سجاتے سنوارتے ہیں۔ اکثر بیوپاریوں نے بھی خریداروں کو لبھانے اور توجّہ مرکوز کروانے کے لیے اپنے جانوروں کو خُوب صُورت انداز میں سجا رکھا تھا۔ ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے حیات خان، عرصہ پندرہ برس سے یہاں اپنا اسٹال لگارہے ہیں۔ 

اُن کا کہنا تھا کہ ’’جانوروں کے بنائو سنگھار کے لیے ہمارے پاس سندھ، پنجاب، خیبر پختون خوا میں تیار ہونے والے مہرے، پٹّیاں، جھانجھریں، چھابے، کلنگیاں، پائلیں، موتیوں کے ہار اور دیگر آرائشی اشیاء موجود ہیں۔ نیز، افغانی موتیوں کے ہار بھی ہیں۔‘‘ قریب ہی کھڑے ایک دکان دار، خائستہ رحمان نے شکوہ کیا کہ ’’بڑھتی ہوئی منہگائی کی وجہ سے ہمارے کاروبار پر بہت بُرا اثر پڑا ہے، جو چیز پہلے پچاس روپے کی تھی، اب اس کی قیمت سو روپے سے بھی بڑھ گئی ہے۔‘‘ 

ایک اور دکان دار، حیات خان نے بتایا کہ ’’ہمارے پاس جانوروں کی سجاوٹ کے لیے ہر قسم کا سامان موجود ہے۔ مہرے 600روپے سے 12ہزار روپے، رسّی والا مہرہ 100روپے سے 300روپے، چمڑے کامہرہ 800روپے سے 3000روپے، نیواڑ والا مہرہ 150روپے سے لے کر 450روپے، جب کہ جانوروں کی سجاوٹ کا پورا سیٹ 5000 سے 30000 روپے میں دست یاب ہے۔ ویسے ہم گاہکوں کی پسند کے مطابق ایک جانور کو بارہ سو روپے سے پچاس ہزار روپے تک میں بھی سجاتے ہیں۔‘‘