• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی نے کہا تھا ۔’’کاسٹ آف لِونگ جب کاسٹ آف ڈیتھ سے بڑھ جائے تو ہر نرم ہاتھ اور گلابی چہرے والا مجرم لگتا ہے۔ انارکی تب پھیلتی ہے جب غریب کی انارکلی (روٹی) کو دیوار میں چُن دیا جائے‘‘۔اللہ نہ کرے پاکستان پر کوئی ایسا وقت آئے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں ہے جہاں امیر ، امیر ہوئے ہیں اور غریب ، غریب تر ۔چند سال پہلے عالمی مالیاتی ادارے نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں2020-2021 میں غربت 78.4 فیصد تھی اور 2021-2022میں یہ 78.3 فیصد پر کھڑی ہوگی اور اس کی شرح کم ہونے کا امکان ہے۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ شرح بڑھتی جارہی ہے۔

دو ہزار اٹھارہ میں حکومت چین کی دعوت پر میں چند احباب کے ساتھ چین گیا تھا جہاں انہوں نے ہمیں پاکستان اور چین کےمختلف معاملات پر پریزنٹیشن دی تھیں۔ سی پیک کی اہمیت کا احساس دلایا تھا۔ اسی دوران یہ بھی بتایا گیا تھا کہ چین میں صرف چند کروڑ لوگ رہ گئے ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور چینی حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اگلے چند سال میں ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 3ارب سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔اس وقت پاکستان میں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والوں کی شرح تقریباًپچیس فیصد ہے یعنی پانچ چھ کروڑ کی زندگیاں انتہائی تکلیف دہ حالت میں گزر رہی ہیں ۔ تقریباً دو کروڑ کے قریب بچے اسکولوں سے باہر ہیں ۔میں جب بھی پاکستان کی معاشی صورتحال کے متعلق سوچتا ہوں تو میری آنکھوں میں وہی لوگ گھومنے لگتے ہیں جو زندہ ہوتے ہوئے مردوں کی طرح رہ رہے ہیں ۔آج جب میں نے سپر ٹیکس کی خبر سنی تو پھر میرا دھیان انہی کی طرف گیا ۔اس وقت سپر ٹیکس کو میں انہی کی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کررہا ہوں کہ اس معاشی بدحالی میں بہتری کےلیےسپر ٹیکس ان کےلئے کتنا نقصان دہ ہوگا۔بے شک بجٹ کے بعد بجٹ کی آمد پریشان کن بھی ہے اور حیران کن بھی۔ لیکن موجودہ مالی بدحالی سے نکلنے کیلئے یقیناً کسی سپر قسم کی طاقت کی ہمیں فوری ضرورت ہے۔ کوئی سپر طاقت نہ سہی سپر ٹیکس ہی ۔ سپر ٹیکس لگانے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے اس میں اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ یہ سپر ٹیکس کسی ایسی چیز پر نہ لگایا جائے ،جس سے غریب زندہ ہیں ۔خاص طور پر کھانے پینے کی اشیا سپر ٹیکس سے مبرا ہونی چاہئیں ۔ اس وقت جن سیکٹرز میں سپر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ درج ذیل ہے۔سیمنٹ، اسٹیل، شوگر انڈسٹری، آئل اینڈ گیس، فرٹیلائزر، بینکنگ انڈسٹری، ٹیکسٹائل، آٹو موبل انڈسٹری، کیمیکل، بیوریجز، ایئر لائن، ایل این جی ٹرمینل اور سگریٹ مینو فیکچرنگ انڈسٹری سپر ٹیکس۔سیمنٹ انڈسٹری کا جہاں تک تعلق ہے تو غریب عوام کو اس کے مہنگا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اسٹیل انڈسٹری کا معاملہ اسی طرح کا ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے پاکستانی مکانوں کی تعمیر کے چکر میں نہیں ہوتے۔ انہیں سر چھپانے کےلیے جھونپڑیوں کی تلاش ہوتی ہے۔ مگر شوگر انڈسٹری پر لگایا جانے والا سپر ٹیکس غریب کو میٹھی چیزیں کھانے سے محروم کر سکتا ہے۔ احسن اقبال نے پچھلے دنوں چائے نہ پینے کا مشورہ دیا تھا۔ میرا خیال ہے اب ان کی طرف سے میٹھی چیزیں نہ کھانے مشورہ بھی آنا چاہیےکہ شوگر کھانے سے شوگر یعنی ذیابیطس ہو جاتی ہے۔ آئل اینڈ گیس پر سپر ٹیکس بھی تکلیف دہ ہے۔ کیونکہ آئل اینڈ گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں زندگی کے ہر شعبے پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ کھاد بھی اسی ضمن میں آتی ہے۔ اس پر ٹیکس لگانے سے کھانے پینے کی اشیا خود بخود مہنگی ہوتی چلی جاتی ہیں۔ جہاں تک بینکنگ انڈسٹری کی بات ہے، تو اس پرٹیکس لگانے سے غریب عوام زیادہ پریشان نہیں ہوسکتے کیونکہ پاکستان کےستر اسی فیصد لوگ کبھی بینکوں کی عمارات میں داخل ہی نہیں ہوئے۔ کپڑا مہنگا ہونا بھی مناسب بات نہیں لیکن وہ غریب عوام جو مانگے تانگے کا پہنتےہیں ان کو اس سے کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ جہاں تک آٹو موبائل انڈسٹری پر سپر ٹیکس کا تعلق ہے تو یہ بھی غریبوں کا نہیں، امیروں اور متوسط طبقے کے لوگوں کا مسئلہ ہے۔ کیمیکل انڈسٹری پر لگنے والاسپر ٹیکس بھی براہ راست غریبوں سے متعلق نہیں ۔ ہوائی سفر کا کرایہ کم ہو یا زیادہ اس سے بھی غریبوں کا کوئی خاص تعلق واسطہ نہیں ہے ۔ سگریٹ پر سپر ٹیکس ،یہ سپر ڈپر ٹیکس ہونا چاہئے۔ اگرچہ میں خود ایک اسموکر ہوں لیکن یہ سمجھتا ہوں سگریٹ بری چیز ہے۔ انسانی صحت کیلئےانتہائی نقصان دہ ہے۔ اس پر جتنا بھی ٹیکس لگایا جائے کم ہے۔ اچھے سگریٹ کا ایک پیکٹ اس مہنگائی کے عالم میں بھی پاکستان میں دو سو روپے کا ہے، جب کہ برطانیہ میں دو ہزار روپے کا ہے۔ پاکستان میں سستے سگریٹ بھی ملتے ہیں جو بہت سستے ہیں مگربرطانیہ میں سستے اور مہنگے سگریٹوں کے درمیان فرق نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں پچھلے کئی سال سے مہنگائی میں اضافہ تیرہ چودہ فیصد ہورہا تھا ۔ جو نا قابل برداشت لگتا تھا مگر اس سال اس کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

اس سپر ٹیکس سے البتہ ایک خطرہ ضرور ہے کہ پاکستان میں پہلے جوپانچ چھ کروڑ لوگ غربت کے لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ کہیں ان کی تعداد میں اضافہ نہ ہو جائے۔ انکےلئے حکومت کوکسی خاص پیکیج کا اعلان کرنا چاہیے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین