• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند دنوںقبل دو واقعات ایسےپیش آئےجن کے بعد یہ بات سمجھ آئی کہ پاکستان پیپلز پارٹی ہی کی نئی نرسری جس میں خصوصی طور پر سوشل میڈیا پر اس جماعت کی حمایت کرنے والے شامل ہیں، یا تو ان کی سیاسی تربیت نہیں ہوئی یا پھر انہیں پاکستان کی سیاست کا ادراک نہیں ہے۔ پہلا واقعہ کچھ یوں ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی سینیٹ میں تقریر کررہےتھے اور کچھ اس طرح کے جملے انہوں نےادا کئے،’’یہ فیصلے کرنے والے ہم نہیں،یہ فیصلے کہیں اور ہوئے، جب مشرف باہر گیا تھا ، کوئی روک سکا؟ اب اگر واپس آیا توکیا کوئی روک سکے گا؟‘‘ یوسف رضا گیلانی کی تقریر کے بعد انہیں غیروں نے تو نشانہ بنایا لیکن اپنوں کا بھی ستم کم نہ تھا، حالانکہ جو بات یوسف رضا گیلانی نے کی، وہ پتھرپر لکیر کی مانند سچ ہے۔ اگر پرویز مشرف واپس آنا چاہیں تو انہیں کون روک سکتاہے ؟ کس میں اتنا دم ہے ؟ اور ویسے بھی وہ تمام تر جرائم کے باوجود پاکستانی تو ہیں ناں؟ سو کسی پاکستانی کو واپس آنے سے کون روک سکتا ہے،دوسرا اہم واقعہ 21جون کو پیش آیا جب ایک تصویر ڈالی گئی جس میں پارلیمانی روایت کے مطابق شہید بینظیربھٹو کی سالگرہ کی تقریبات کے سلسلے میں کیک کاٹا گیا اور اس موقع پر سید یوسف رضا گیلانی کے بائیں طرف سندھ کے سابق وزیر داخلہ ذولفقار مرزا کی بیوی اور سابقہ اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کھڑی نظر آ رہی ہیں، اس تصویر کے سامنے آنے پر پی پی پی کے سوشل میڈیا پر حامیوں نے ایک بار پھر سید یوسف رضا گیلانی کو نشانہ بنایا اور دشنام ترازی شروع کر دی ۔ ان دو واقعات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ پی پی پی کی موجودہ قیادت سوشل میڈیا پر موجود سیاسی کارکنان کی سیاسی تربیت نہیں کر سکی کیوں کہ یوسف رضا گیلانی جیسےجہاندیدہ سیاست دان پر الزامات لگانا اور پھر ان کی نیت پر شک کرنا کیسے مناسب رویہ ہو سکتا ہے ؟ جس سید یوسف رضا گیلانی پر نئے نویلے جیالے تنقید کررہےہیں، وہ بھٹو خاندان اور صدر آصف علی ذرداری کے لئے وفا کا پہاڑ ہے۔ اس نے اپنی وزارت عظمیٰ قربان کردی مگر صدر آصف علی زرداری کے خلاف بنائی گئی سازش کا حصہ بننے سے انکار کردیا، یہ وہ یوسف رضا گیلانی ہے جس کا جوان بیٹا اس پاداش میں اغواہوا کہ وہ آصف علی زرداری سے بے وفائی کرنے پر راضی کیوں نہیں ہوا تھا کیونکہ بعض لوگوں کے خیال میںپاکستان سے غداری سے بھی بڑا جرم آصف علی زرداری اور بھٹو خاندان سے وفاداری ہے اور کون نہیں جانتا کہ یوسف رضا گیلانی اور ان کے خاندان نے اس کی کیا قیمت ادا کی۔ وہ چاہتے تو کسی آسان راستے کا انتخاب کرلیتے اور کو ئی بڑے سےبڑا عہدہ حاصل کرلیتے مگر انہوںنے مشکل راستے کا چنائو کیا جس کے نتیجے میں انہیں وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے اور پانچ سال کی نا اہلی بھگتنا پڑی۔ یوسف رضا گیلانی مشکل وقت میں بھاگے نہیں جیل کاٹی،پارٹی قیادت اور آئین کی سربلندی کے لئےہر قربانی دی، حوصلہ بلندرکھا اور پارٹی کے شانہ بشانہ چلتے رہے، پیپلز پارٹی کے جیالوں، خصوصی طور پر وہ جیالے جو حال ہی میں جماعت کا حصہ بنے ہیں اور سوشل میڈیا پر بھٹو شہید کے فلسفے کا پرچار کررہے ہیں ، سے گزارش ہے کہ پہلے سید یوسف رضا گیلانی کا صرف سیاسی نہیں بلکہ مذہبی اور سماجی قد دیکھ لیں اور یہ ادراک کریں کہ یوسف رضا گیلانی ہر دور کی ضرورت ہیں، ایسے ہیروں کو بے جا نشانہ بنانے سے گریز کیا جائے کیونکہ تاریخ صرف سید یوسف رضا گیلانی جیسی ہستیوں کویاد رکھتی ہے۔ میرے خیال میں سوشل میڈیا پر موجود نوجوانوں کو قربانی دینے والوں کے بارے میںآگاہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ میں درخواست کروںگاکہ خدارا اپنے اکابر اورملک سے مخلص افراد کی قدر کیجئے۔

تازہ ترین