• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شمعون پیریز کی پرویز مشرف کیلئے دعا …یا؟...عظیم ایم میاں۔۔۔۔۔امریکہ

کہتے ہیں کسی دعا کی قبولیت اور اس کے اثرات جانچنے اور سمجھنے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے اور یہ وقت ہی سے پتہ بھی چلتا ہے کہ کسی کی مانگی ہوئی دعا متعلقہ شخص کیلئے واقعی دعا تھی یا وہ کسی کیلئے بددعا بن کر فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بنی؟ تینوں الہامی مذاہب یہودیت، عیسائیت، اور اسلام کے ماننے والے دعا اور اس کی قبولیت پر یقین بھی رکھتے ہیں بلکہ غیر الہامی مذاہب و عقائد میں بھی دعا کی ضرورت اور قبولیت مسلّم ہے لہٰذا ہم ایک اعتدال پسند مسلمان ہونے کے باعث ایک اعتدال پسند اسرائیلی یہودی کی دعا کے اثرات و مضمرات کو جانچنے اور سمجھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں جو انہوں نے 12سال قبل سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکاری ملک پاکستان کے حکمران پرویز مشرف کیلئے کی تھی انہوں نے یہ دعا کسی خلوت یا خاموشی میں نہیں کی بلکہ امریکی کانگریس کے سامنے بیٹھ کر اعلانیہ طور پر یہ دعا کی اور آج بھی یہ دعا امریکی، کانگریس کے ریکارڈ میں بھی موجود تھے۔ دعا کرنے والا کوئی یہودی ملنگ بابا یا مجذوب نہیں تھا بلکہ امن کا نوبل پرائز حاصل کرنے والا اعتدال پسند یہودی اور اسرائیل کا صدر، وزیر اعظم اور پھر وزیر خارجہ کے عہدوں پر فائز ہو کر اسرائیل کی خدمت کرنے والا شمعون پیریز تھا۔ شمعون پیریز نے پاکستان میں بطور سربراہ مملکت،بطور آرمی چیف اور سپریم کمانڈر تمام اختیارات مٹھی میں رکھنے والے پرویز مشرف کے صرف ایک امریکی فون کال پر افغانستان اور طالبان کے خلاف امریکی اتحادی بنکر کوئی معاملہ طے کئے بغیر پاکستانی سرزمین ، فضا اور تمام وسائل امریکہ کی دسترس میں دینے کا جو فوری اعلانیہ فیصلہ کیا تھا۔ اس کے اثرات ونتائج پر نظر رکھنے والے تجربہ کار اسرائیلی اسٹیٹس مین شمعون پیریز نے امریکی کانگریس کو بتایا کہ وہ ایک اچھے جیوئش بوائے کی طرح ہر روز اس (مشرف) کی زندگی اور سلامتی کی دعا مانگتے ہیں۔ شمعون پیریز کا اکتوبر2001ء کا یہ بیان اپنے تمام سیاق و سباق کے ساتھ ریکارڈ پرموجود ہے۔ شمعون پیریز پرویز مشرف کیلئے اپنی دعا میں اس قدر مخلص تھے کہ جب2008ء میں پرویز مشرف کے اقتدار کا خاتمہ ہونے لگا تو شمعون پیریز نے پرویز مشرف کو پاکستان سے سیف ایگزٹ دلانے کیلئے اپنا تمام اثرو رسوخ استعمال کیا بلکہ بعض ذرائع کے مطابق پرویز مشرف کی حفاظت کیلئے اسرائیلی سیکورٹی فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی۔ اسی تناظر میں جب حکمراں پرویز مشرف نے جلاوطن بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو کسی ممکنہ امریکی یا غیر ملکی تعاون سے محروم رکھنے اور خود کو عالمی اہمیت دلانے کیلئے امریکن جیوئش کانگریس کے قائدین سے بھی رابطے شروع کئے اور نیویارک میں ان کے ڈنر سے خطاب کیا تو بے نظیر خاصی فکرمند ہو گئیں کہ اس تمام حمایت سے پرویز مشرف کا اقتدار مضبوطی اور طوالت اختیار نہ کرلے۔ پھر ایک خاصے عرصے تک غیر ملکی لابیاں دونوں کے درمیان توازن، جمہوریت بمقابلہ آمریت کے عنوانات کے تحت کھیل کھیلتی رہیں۔ دونوں کو کچھ ملا وہ آپ کے سامنے ہے البتہ پاکستان اور اس کے عوام کو تو سراسر نقصان ہی ملا۔
ہاں تو بات حکمران پرویز مشرف کیلئے شمعون پیریز کی دعا کی ہو رہی تھی جو پرویز مشرف کے فیصلے سے خوش ہو کر ان کو دی گئی تھی۔ شمعون پیریز کی اس دعا سے قبل ہی حکمران پرویز مشرف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اس فیصلے کا مقصد پاکستان فرسٹ بیان کرتے ہوئے چار ذیلی مقاصد بتائے تھے۔ معیشت کی بحالی ،پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور میزائل سسٹم کا تحفظ اور پاکستان کا استحکام وغیرہ۔ 13ستمبر تا20ستمبر2001ء کے تمام واقعات، بیانات، اور اقدامات کا ریکارڈ دیکھ لیں تو یہ سب کچھ مزید واضح ہو جاتا ہے اسرائیلی شمعون پیریز کے دعائیہ کلمات کی بدولت پاکستان کے حکمران مطلق اور کمانڈو پرویز مشرف کو پاکستان کی جانب سے تاریخی فیصلہ کرنے پر صحت، خوشحال زندگی مع لاکھوں ڈالرز تقریر کرنے کی فیس اور سیکورٹی تو ضرور عطا ہو گئی لیکن پاکستان اور اس کے عوام نہ تو فرسٹ رہے نہ ہی ایٹمی اثاثوں اور میزائل سسٹم کو عالمی قبولیت و تحفظ ملا نہ معیشت بحال ہو سکی اور نہ ہی پاکستان کو پہلے کے مقابلے میں استحکام مل سکا۔ شمعون پیریز کی دعا پرویز مشرف کیلئے دعا اور پاکستان کیلئے بددعا بن گئی۔ آصف زرداری، نواز شریف ،بے نظیر اور پاکستانی فوج سبھی پرویز مشرف کے فیصلوں اور شمعون پیریزکی دعا یا بدعا کے اثرات کی زد میں ایک لمبی مدت سے ہیں۔ سیانے لوگ درست کہتے ہیں کہ جب دشمن کسی کیلئے دعا کرے تو اس بارے میں تدبر اور فکر کی ضرورت ہے۔ آج پاکستان کو جس حالت میں پہنچا دیا گیا ہے وہ مزید کسی دلیل کا طالب نہیں۔
ابھی وزیراعظم نواز شریف کے دورہ اقوام متحدہ کے بعض پہلوئوں پر ہی تبصرے اور تجزیئے جاری ہیں کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی واشنگٹن آمد کا چرچا ہے۔ آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں پاکستان کے پاس کوئی زیادہ آپشنز نہیں، اسحاق ڈار مسلم لیگ (ن) کے انتخابی وعدوں اور آئی ایم ایف کے پیکیج کے درمیان کوئی مطابقت کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟ بہتر ہو گا کہ وضاحتوں اور الفاظ کے کھیل کے بجائے حقائق کو اپنے اور عوام کے سامنے رکھ کر بات کریں۔ روایتی اعداد و شمار کی آڑ کے بجائے حکمران تخلیقی صلاحیتوں اور معیشت کو متحرک کرنے کی فکر کریں ورنہ معاشی بدحالی کا سیلاب زیادہ دور نہیں ہے۔
آئی ایم ایف کے معاملات کے فوراً بعد وزیراعظم نواز شریف واشنگٹن کے سرکاری دورے پر آ رہے ہیں جہاں انہیں امریکی مطالبات کا سامنا کرنا ہے۔ 23اکتوبر کو صدر بارک اوباما سے ملاقات بڑی اہم ہے۔ منموہن سنگھ سے نیویارک میں ملاقات تو کچھ لئے یا دیئے بغیر یوں ختم ہو گئی کہ ہر دم پاک فوج اور آئی ایس آئی کو ہر لمحہ الزام دینے والا بھارت اسی پاکستانی فوج کے ڈی جی ملٹری آپریشنز کوکنٹرول لائن کی مانیٹرنگ کا کام تفویض کرنے پر راضی اور متفق ہو گیا لیکن واشنگٹن میں ہونے والی ملاقاتیں اتنی آسان نظر نہیں آتیں۔ تخلیقی ڈپلومیسی اور پاک امریکہ اختلافی امور کا کوئی غیر روایتی حل بھی سامنے نہیں آیا ۔تیونس سے لیکر مشرق وسطیٰ اور انڈونیشیا تک بدلتی ہوئی مسلم دنیا میں اگلا ٹارگٹ پاکستان نظر آتا ہے ۔ 2014ء کے بعد کی صورتحال پاکستان کے لئے کوئی اچھی نظر نہیں آتی ۔امریکہ طالبان سے پاکستان کے مذاکرات کا انجام بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ آخر پاکستان طالبان سے مذاکرات میں ایسی کون سی رعایت پیش کرے گا کہ طالبان پاکستان میں دہشت گردی بند کر دیں؟
پاک فوج پہلے ہی جس پچھلے12سال تک عالمی طاقتوں کی مرضی و خواہش کے مطابق طالبان سے سلوک کرنے کے بعد اب پاکستانی سویلین اور عسکری قیادت طالبان سے مذاکرات کیلئے ان کا اعتماد کیسے حاصل کرے گی؟ کیا افغانستان اور خطے میں امریکی فوج کے جزوی انخلا کے ساتھ ہی وہاں امریکی دلچسپی اور مفادات ختم ہو گئے ہیں؟ کیا امریکہ اپنی معیشت کی صورتحال کے باوجود پاکستان کیلئے معاشی تعاون اور فوجی امداد جاری رکھے گا ؟ یا پھر پاکستان کو ایک مرتبہ پھر تباہ معیشت، دہشت گردی، بدامنی اور عدم استحکام کی حالت میں تنہا چھوڑ کر علاقائی طاقت بھارت سے تعاون کا رقص اور بحر الکاہل کے ایشیائی ملکوں کو اپنے اتحاد میں لیکر چین کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے مشن پر مصروف ہوتا نظر آئے گا؟ یہ سوالات نواز شریف کی واشنگٹن میں مذاکرات کرنے والی ٹیم کی توجہ چاہتے ہیں۔
تازہ ترین