• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بائی نے اُسے پھولوں کے چند ہار تھما دیے اور کہا کہ وہ اپنی قمیص پتلون سے باہر نکال لے۔ نتیجتاً پولیس اُسے معمولی گُل فروش سمجھ کر چھوڑگئی۔ اگلی صبح مساوات کے مدیر، عباس اطہر نے پولیس کے خلاف شہ سرخی لگائی۔ اس معاملے پر خاصا شور اٹھا اوراسے سیاسی کارکنوں نے سازش قرار دیا۔ یہ دیکھتے ہوئے گورنرمصطفیٰ کھر نے تھانے کا تمام عملہ معطّل کردیا۔ پھرانقلاب ٹبّی تھانے سے نکل کر دوبارہ اپنی راہ پرچل پڑا۔ ’’میری بائی کا دفتر(کوٹھا) ایک ہوٹل کی بالائی منزل پرتھا۔ وہاں استاد سمراٹ باقاعدہ تعلیم دینے کے لیے آتے تھے۔ 

اس کے ہاں کچھ آداب تھے، ایک رکھ رکھاؤ تھا، بائی کا اپنا معیارتھا اور وہ بھاری کلائنٹس سے مستقل برتاؤ کے باعث ایک تہذیب اورنفاست رکھتی تھی۔ وہاں گانے بجانے اورویلیں دینے کا وقت رات نوبجے سے لے کر ایک بجے تک ہوتا تھا۔ اُس دَورمیں مجرا صرف خاندانی عورت کرتی تھی، گھر سے بھاگنے والی کوچکلے میں بٹھاتے تھے۔ لڑکے زیادہ تر فارغ رہتے تھے۔ تعلیم کا اتنا رواج نہیں تھا۔ بائی کو مجرے کے لیے محلے سے باہر جانا ہوتا تو وہ پہلے سے تھانے کو اطلاع کردیتی تھی اور وہاں تفصیلات لکھوا کر جاتی تھی۔ ہیرا منڈی میں کوئی شراب خانہ نہ تھا۔ عام لوگ دیہات قصبات میں بنی دیسی شراب پیتے تھے۔ 

کسی لازوال ناول کا ایک گُم گشتہ کردار

مسلمان صحت کی خرابی کو جواز بنا کرگیارہ روپے میں ہیلتھ پرمٹ بنوالیتے تھے۔ بدتمیزی عام نہیں تھی، لوگ شراب پی کر بھی عموماًاپنی حدود میں رہتے۔ ہر شہر میں افیم کے ٹھیکے ہوتے تھے۔ مجروں میں استعمال ہونے والے پھولوں کے ہارعام طور پرموتیے اورگلاب کے ہوتے تھے۔ اچھے وقتوں میں ہار والے اس پورے ماحول اورمجرے کا لازمی حصہ ہوتے ۔ مجرے کی روایت سے وابستہ بہت سی ثقافتی چیزوں کی طرح اب وہ گُل فروش بھی ختم ہوچُکے ہیں۔ اُس دَور میں وہ ازخود ’’ودہائی‘‘ یعنی مبارک باشی لے کر آجاتے تھے۔‘‘ اسحاق نُور اِک دَورِ گم گشتہ کی یادوں میں گم تھے، جس کے وہ ناظر اور حصّہ رہے تھے۔

’’مجرا جاری ہوتا تھا تو بائی کے شوہر، بھائی، بیٹے اور دیگر مرد رشتے دار چھت پر کُھلی فضا میں چلے جاتے تھے۔ جب ہَواچلتی تو خُوب سماں ہوتا۔ چھت پر حمّام رکھا ہوتا تھا۔ اس میں پانی اور برف گھل مل رہے ہوتے تھے۔ ایک جانب دیسی شراب رکھی ہوتی تھی۔ اکثر و بیش تر دوست احباب بھی وہیں آجاتے تھے۔ وہ گلاس میں شراب ڈالتے، حمّام کی نلکی کھول کر اس میں ٹھنڈا پانی ملاتے اور گپ شپ میں مشغول ہوجاتے۔ اسے ’’مجلس کرنا‘‘ کہتے تھے۔ دفتر میں مجرا جاری ہوتا اور چھت پر بھائی، بیٹے بہتی ہوا، اردگرد کی عمارتوں پر ٹمٹماتی بتیوں، ذرا دور بادشاہی مسجد کی روشنیوں، داتادربار سے اُٹھتی قوالیوں کی آوازوں اور نیچے بازار کی چہل پہل سے لطف اندوز ہوتے دنیا کے مطمئن ترین لوگ نظر آتے۔ 

یہاں تک کہ مجراختم ہوجاتا اور وہ لڑکھڑاتے قدموں سے سیڑھیاں اُترتے نیچے چلے جاتے۔‘‘ ’’کیا باپوں، بھائیوں کو بالکل فرق نہ پڑتا تھاکہ اُن کی بیٹیاں، بہنیں غیر مردوں کا جی لُبھا رہی ہیں؟‘‘ایک مرتبہ مَیں نے پوچھا، تو انھوں نے نفی میں سَر ہلاتے ہوئے کہا، ’’بالکل نہیں۔ اُن کی نظر میں یہ کاروبار تھا جس طرح کوئی اور کاروبار۔ غیرت، حیا سب انسانی دماغ میں موجود ہیں۔ ہمارے ہاں کسی کی بہن غیر لڑکے کے ساتھ پکڑی جائے تو وہ قتل کرنے پر اُتر آتا ہے، جب کہ اُسی بہن کی شادی پر وہ خُوب ناچتا گاتا، خوشی مناتا ہے۔‘‘ 

اسحاق نُور نے کنپٹی کی جانب اُنگلی کر کے کہا۔ ’’یہ سب دماغ کے اندر ہے۔ کیا یورپ میں سبھی عصمتوں کے سوداگر رہتے ہیں، جو اپنی بہنوں کو ’’ڈیٹ‘‘ پر جاتے بخوشی دیکھتے ہیں۔ جب بائی کسی گاہک کے پاس جاتی ہے، تو اسی طرح اپنی خوشی سے جاتی ہے، جیسے لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے پاس۔‘‘ مختلف ملاقاتوں میں، بےشمار باتوں میں، ان کے معروف گاہکوں کے چشم کُشا رازوں کے تذکروں سے، جن کامَیں امین ہوں، مَیں نے یہ باتیں ترتیب دی ہیں تاکہ روانی رہے۔ ویسے رواں تو اسحاق نُور کی طبیعت بھی نہ رہتی تھی۔ کبھی بےوجہ خوش خوش، تو کبھی چھوٹی سی بات پرجھنجھلائے ہوئے۔ اچھے پکوان اور عُمدہ خوراک ہمیشہ سے ان کا مرغوب موضوع رہا۔ 

ہیرامنڈی اور خوراک کےضمن میں اُنھوں نے وہاں کی روزمرّہ زندگی کا کئی مرتبہ تذکرہ کیا۔ ’’بھولو پہلوان اور دیگر پہلوان اکثر ہیرامنڈی کا لذیذ، مقّوی کھانا کھانے آتے۔ وہ کبھی بھی تماش بینی نہیں کرتے تھے، بس میراثیوں کے ہاتھوں میں بہت ذائقہ تھا۔ وہ قلعی کی ہوئی تانبے کی دیگچی میں کوئلوں کی ہلکی آنچ پر چٹخارے دار آلو گوشت کا شوربا بناتے۔ تب نہ تو شان کے مسالے تھے اور نہ ہی ٹی وی کے کوکنگ پروگرامز۔ مسالے اپنے ہاتھوں سے کُوٹے اور پیسے ہوتے۔ سری پائے ساری رات پکتے رہتے اور سویر میں دیسی مسالوں میں پکا، خوب گُھلا مِلا گلا ہوا کھانا تیار ہوتا۔ عام طور پر دوپہر میں بھنا ہوا چھوٹا گوشت کھایا جاتا یا پھر کریلے گوشت۔ گوشت دیسی بکرے کا ہوتا تھا اور گھی بھی خوش بودار،دیسی ہوتا تھا۔‘‘

اسحاق نُور کو دکھ تھا کہ صدیوں پرانی رقص و موسیقی کی ثقافتی روایت آناً فاناً ختم ہوگئی۔ اس روایت کے باعث فنون لطیفہ کو ٹیلنٹ کی فراہمی جاری رہتی تھی، عام آدمی بھی حسب ِ خواہش لُطف اندوز ہوسکتا تھا، اسے بھاری معاوضے پرکسی پرائیویٹ مقام پر اہتمام نہ کرسکنے کے باعث اس سے محروم نہ رہنا پڑتا تھا، کئی روایتی منسلک پیشے اس کی وجہ سے زندہ تھے اور یہ انسانی فطرت کے قریب ترمعاملہ تھا۔ فلموں میں رقص وموسیقی کے چلن سے لے کر مغرب کے کلبوں میں ناچ گانا، اس کی توسیع ہی تو ہے۔ انسان فطری طور پر موسیقی کو پسند کرتا آیا ہے، بھلے وہ کوئل کی کُوک میں ہو یا جھرنے کی نغمگی میں۔ اسی طرح اچھی فصل اورخوشی کے موقعے پر ناچ کر اُس کا جسمانی اظہار بھی انسانی فطرت کا عکّاس ہے۔ 

ایک مرتبہ دُکھ سے کہنے لگے۔ ’’جب مَیں ہیرامنڈی کی رقص وآہنگ کی دنیا کا سوچتا ہوں، جو ابھی چند برس پہلے تک زندہ تھی اورآج وہاں کھنڈرات کو دیکھتا ہوں تو مجھے دُکھ ہوتا ہے، دِلی طور پر صدمہ۔ کہاں وہ بڑے بڑے استاد تھے اور کہاں آج کل کوٹھیوں، بنگلوں میں ناچنے والی لڑکیاں، جنھیں نہ سُر کا پتا ہے نہ تال کا۔ بس اُچھل کود کرکےکورذوق خواہش مندوں کی تسکین کا اہتمام کرتی ہیں۔ اب وہ شائقین بھی ختم ہوتے جارہے ہیں، جو کلاسیکی موسیقی سے لے کر جدید گایکی تک کے بیش تر رموز سے آگاہ ہوتے تھے۔ 

آج تو لڑکیاں آئینے کے سامنے ٹیپ ریکارڈر کے ساتھ گانے اورڈانس کی کچی پکی مشق کرلیتی ہیں۔ سازندوں اور موسیقاروں کی وہ نسل بھی ختم ہوئی، جو ہمارے ٹی وی، فلم اور کلچرل پروگرامز میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔ ہم نے اپنے فنون و ثقافت کی کمر توڑ دی۔‘‘ اس کے علاوہ ان کا خیال تھا کہ انسانی فطرت اپنے قاعدے پر چلتی ہے، اسے پندونصائح سے زیادہ بدلا نہیں جاسکتا، بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ قدیم عرب معاشرے میں اسی جبلّت کو سمجھتے ہوئے بلوغت کے بعد جسمانی وجذباتی تناؤکو رفع کرنے کے موثر ذرائع بشمول جلد بیاہ وغیرہ اختیار کیے جاتے تھے۔ 

ہمارے ہاں بلوغت کے بعد بیاہ تک زیادہ تر لڑکوں اور کم کم لڑکیوں کی نوجوانی کا بیش تر حصّہ گزر جاتا ہے، جس کا نتیجہ جذباتی وذہنی خلجان کی صورت نکلتا ہے اور معاشرے کی ذہنی پیداوار یا تو رُک جاتی ہے یا رکاوٹ کا شکار ہوتی یا کج رو ہو جاتی ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ انسانی فطرت اپنا رستہ تلاش کرتی رہتی ہے، اگر اسے قدرتی رستہ نہیں ملتا تو وہ تخریب کا رستہ اختیار کرتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے بپھرے ہوئے دریا کے قدرتی رستے پر بند باندھ دیا جائے، تو وہ قریب کی بستیاں پی جاتا ہے۔ اور بیش تر قدیم سے لے کر جدید دانش ور اس بات کے حامی رہے ہیں کہ فرد کے جنسی دباؤ اور اس کےبطن سے جنم لیتی نفسیاتی پیچیدگیوں کے لیے معاشرے اور ریاست کو خوب سوچ سمجھ کرقرینِ فطرت انتظامات کرنے چاہئیں۔ جذبات اورعقائد کے حوالے سے بھی ان کا ایک دل چسپ مشاہدہ تھا۔ ’’سندھ میں آج بھی لوگ زیادہ وسیع القلب اور روشن خیال ہیں۔ 

اب اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب کبھی لاڑکانہ میں رمضان کے مہینے میں روزے کے اوقات کے دوران، مَیں ویگن میں سگریٹ پیتا ہوں تو کوئی برُا نہیں مانتا۔ اس کے برعکس کبھی پنجاب میں ویگن، بس میں روزے کے دوران سگریٹ پی لوں، تو لوگ مرنے مارنے پر اُترآتے ہیں۔ مِٹھی میں لوگ آج بھی شراب پی کر مرغ کھاکر گھر لوٹ جاتے ہیں، کوئی برُا نہیں مانتا۔ سندھ میں آج بھی بے شمار وائن شاپس ہیں، یہاں تک کہ کوئٹہ میں بھی ہیں، جہاں لوگ لائن میں لگ کر سرعام شراب خریدتے ہیں، کوئی پروا نہیں کرتا۔ البتہ جتنی شراب پنجاب کے شہروں لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سیال کوٹ، ملتان، راول پنڈی وغیرہ میں پی جاتی ہے، سوائے کراچی کے کہیں نہیں پی جاتی، لیکن پنجاب میں عجیب گھٹن اور منافقت ہے۔‘‘ اسحاق نُور سے ملاقات سے پہلے میں کبھی مِٹھی نہیں گیا تھا۔ 

انھوں نے مِٹھی کا ایسا پُرشوق تذکرہ کیا کہ بعد ازاں کئی مرتبہ وہاں جانا ہوا۔ مِٹھی، پاکستان کے دیگر پس ماندہ قصبات کی طرح ایک پس ماندہ نیم شہری قصبہ ہے۔ ظاہری طور پر وہ کوئی نمایاں خوبی نہیں رکھتا، البتہ وہاں کے اور گردونواح کے لوگ اپنی مثال آپ ہیں۔ صحرا میں آسمان زیادہ صاف نظر آتا ہے، ستارے قریب اُتر آتے ہیں اور گرم موسم میں بھی رات کو خوش گوار نیم سرد ہوا بہتی ہے۔

تھرپارکرکے نیم صحرائی علاقے میں واقع مِٹھی میں ہندو کُل آبادی کا اسّی فی صد اور مسلمان بیس فی صد ہیں۔ وہاں آج بھی بقائے باہمی کا حَسین نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مسجد، مندر اور گوردوارہ قریب قریب واقع ہیں اور کوئی ایک دوسرے کی عبادت میں دخیل نہیں ہوتا۔ مَیں نے وہاں سڑک بیچ گایوں کو ایسے چلتے دیکھا ہے کہ ان سے وابستہ ہندووانہ تقدّس کے باعث کوئی انھیں ششکارتا یا دھکیلتا تک نہیں۔ وہاں رمضان میں کئی ہندو، مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے طور پر روزے رکھتے ہیں، محرم میں نہ تو وہ کوئی شادی رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی جشن کا اہتمام کرتے ہیں۔ 

عاشورے کے جلوس کی قیادت میں شامل ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ مدت سے بغیر کسی دباؤ کے کررہے ہیں۔ جب نماز کا وقت ہوتا ہے تو مندروں میں گھنٹیاں نہیں بجائی جاتیں۔ جواباً مسلمانوں نے لاؤڈ اسپیکر پر اذان کا وہ وقت رکھا ہوا ہے، جو مندروں میں ہندوؤں کی عبادت کے وقت سے متصادم نہیں ہوتا۔ ہولی کا جشن ہندو، مسلم مِل کر مناتے ہیں، مسلمان گائے ذبح نہیں کرتے اور سب بلاتامل ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ اسحاق نُور کو وہاں آزادی اور سکون کا احساس ہوتاتھا۔ 

بقول ان کے وہ وہاں کسی بھی تعصّب سے آزاد ہوکر وقت گزارتے تھے اور صحیح معنوں میں اپنے آپ کو آزاد انسان سمجھتے تھے۔ وہ تو اس سے چند قدم آگے بڑھ کرگرمیوں کی راتوں میں وائن شاپ سے فریزر میں لگی ٹھنڈی بیئرخریدکرپیتے، اپنے سامنے باربی کیو لگواتے، تازہ چکن کڑاہی بنواتے اور کھاپی کرستاروں کی چھاؤں میں کُھلے آسمان تلے کسی سرائے کی چھت پر بہتی ہَوا میں لیٹے چاند، تاروں کو دیکھتے سوجاتے۔ ایسی آسودگی انھیں پاکستان کے کسی اور شہر میں نہ ملتی تھی۔

کچھ لوگوں کا مزاج ہوتا ہے کہ اپنی ایک ایسی عادت کو، جسے معاشرے میں علّت سمجھا جاتا ہے، بڑھا چڑھا کر اپنی مردانگی، بہادری اور روایت شکنی کی علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مَیں ذاتی طور پر ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں، جو مزاجاً شریف ہوتے ہیں، مگر چاہتے ہیں کہ لوگ اُنھیں بدمعاش اورعیاش سمجھیں۔ اس کے برعکس ایسے حقیقی طور پر عیاش طبع لوگوں کی بھی کمی نہیں، جو شرافت کا لبادہ اوڑھے رکھتے ہیں۔ سیال کوٹ میں میرے جاننے والے ایک ایسے صاحب بھی ہیں، جو سال بھرمیں ایک مرتبہ بیئر کا ایک کین پی لیتے ہیں اور مدتوں ہر دوسرے آدمی کو پکڑ پکڑکر بتاتے رہتے ہیں، ’’یار ہینگ اوور ای نئیں جارہیا۔‘‘ 

اسحاق نُور کوبے شمار ملاقاتوں میں مَیں نے کبھی اپنے سامنے شراب پیتے نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی نشے میں مدہوش دیکھا۔ البتہ اُن کی گفت گو میں جابہ جا شراب کا تذکرہ ہوتا تھا۔ غالباً یہ زیادہ تر داستان گوئی میں رنگ آمیزی کے لیے ہوتا تھا۔ یہ دوچاربرس پہلے کی بات ہے کہ مَیں نے اسحاق نُور سے پوچھا کہ ان کی ہنگامہ خیز، مسلسل سفر میں گزرنے والی زندگی میں سکون اور مسرت کے لمحات کون سے ہوتے ہیں۔ 

انھوں نے جذباتی لہجے میں کہا۔ ’’جب مَیں پورے مُلک کادورہ کرکے اپنی بوڑھی ماں کے پاس گجرات جاتا ہوں اوراُس کی گود میں سر رکھتا ہوں۔‘‘ماں کی مقدّس ہستی اور بیٹے کی اُس سے بےانتہا محبت کا سن کر میں بھی جذباتی ہوگیا۔ اسحاق نُور نے لمبی آہ بھری اور بات جاری کی رکھی۔ ’’میری ماں میرا انتظارکرتی رہتی ہے۔ مَیں اُس کے پاس جاتا ہوں تو وہ خوشی سے کِھل اٹھتی ہے۔ ہم پھوپھیوں، رشتے داروں، محلے داروں کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ جب مَیں اُس کی گود میں سَر رکھتا ہوں تو وہ میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتی رہتی ہے اور قبل اس کے کہ میری آنکھ لگ جائے وہ تازہ بنا ہوا کھانا گرم کرکے میرے سامنے رکھ دیتی ہے۔ پھر پیٹ بھرکر کھانا کھا کر مَیں شانتی کی نیند سو جاتا ہوں۔‘‘

یہ 1972کا واقعہ ہے کہ اسحاق نُور کے پیروں کی گردش اُنھیں کراچی لے آئی۔ گجرات، لائل پور، لاہور جیسے شہروں کی روشنی جذب کرلینے کے بعد ان کے مَن کا سورج مکھی پھول آفتاب ِ کراچی کی جانب اپنا مُکھ کرگیا۔ کراچی، عروس البلاد تھا، روشنیوں میں نہایا، نمکین سمندری ہوا میں سستاتا ہوا کولونئیل شہر۔ بنگالیوں، تُرکوں، عربوں، جنوب مشرقی ایشیا کے باشندوں اور دیگر قوموں اورنسلوں کے لوگوں کو اپنی اور کھینچتا بین الاقوامی شہر۔ میٹروپول اوربیچ لگژری ہوٹل غیرمُلکیوں سے کھچا کھچ بھرے ہوتے، جو کُھلے سمندر میں سمندری کیکڑوں کا شکار کرنے نکلتے اور ہوٹلوں کے چمکیلے ڈائننگ رومز میں سُرخ شراب کے ساتھ بیف اسٹیک کھاتے۔ ان ہوٹلوں کے قریب ریڈیو پاکستان کی عمارت کے سامنے اسٹریٹ لیمپ کی روشنی میں نوجوان اسحاق نُورفٹ پاتھ پر سوتا تھا۔ (جاری ہے)

سنڈے میگزین سے مزید