• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم شہباز شریف اپنے سیاسی کیرئیر کے کٹھن ترین دور سے گزر رہے ہیں۔گزشتہ کافی عرصے سے اپنے مزاج سے ہٹ کر سیاست کررہے ہیں۔گڈ گورننس اورعوامی خدمت پر یقین رکھنے والا شخص اب بس اتحادیوں کو مناتا نظر آتا ہے۔اب جب مسلم لیگ ن کو حکومت میں آئے تقریبا تین ماہ ہوچکے ہیں ،ہر دن شہباز حکومت کیلئے کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا۔مشکل معاشی فیصلوں سے لے کر پنجاب کے سیاسی بحران تک آزمائشیں ہیں کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ویسے شہباز شریف وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھ کر سوچتے تو ہونگے کہ

اک یہ بھی تو انداز علاج غم جاں ہے

اے چارہ گرو درد بڑھا کیوں نہیں دیتے

شہباز شریف کی وزیراعظم بننے کی کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں تھی۔نومبر کے آخر تک تو یہ سب دیوانے کا خواب لگتا تھا۔مگر پھر حالات اچانک تبدیل ہوئے۔شہباز شریف پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوا ر کے طور پر سامنے آئے۔آصف علی زرداری نے کھل کر ان کی حمایت کی۔قومی اسمبلی میں 172اراکین پورے کرنے کی بات آئی تو زرداری صاحب نے بھرپور کردار ادا کیا۔ اور یوں شہباز شریف کی پاکستان کے منتخب وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہوئی۔میری معلومات کے مطابق وزیراعظم اور ان کی ٹیم بدا نتظامی و معاشی بحران سے آگاہ تو تھی مگر صورتحال اس حد تک حساس ہے،اس کا انہیں اندازہ نہیں تھا۔بہر حال حکومت سنبھالنے کے بعد دو راستے تھے۔پہلا راستہ تو یہی تھا کہ چند ماہ کی حکومت انجوائے کی جائے اورریاست کو دیوالیہ کرکے عام انتخابات میں چلے جائیںجبکہ دوسرا راستہ غیر مقبول فیصلے کرنے کا تھا۔ایک ایسا راستہ جو صرف ایک مقبول سیاسی جماعت ہی اختیار کر سکتی تھی۔کیونکہ دنیا بھر کی جمہوریتیںاٹھا کر دیکھ لیں ،ہمیشہ غیر مقبول فیصلے منتخب ومقبول سیاسی جماعتیں ہی کرتی ہیں۔بہرحال شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں نے اپنی سیاست کے بجائے ریاست کو ترجیح دی۔مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ شہباز شریف کے غیر مقبول فیصلوں سے جتنا نقصان ان کی جماعت کا ہورہا ہے،اس سے کہیں زیادہ نقصان عام آدمی کا ہوا ہے۔غریب آدمی تو مکمل ختم ہوچکا ہے۔اب مڈل کلاس غریب کے طور پر جانی جاتی ہے۔ تکلیف دہ امریہ ہے کہ جن جماعتوں نے ریاست بچانے کیلئے اپنی سیاست داؤ پر لگائی ہے ،انہیں سکون سے کام بھی نہیںکرنے دیا جارہا۔معاشی استحکام ہمیشہ سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے۔جب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ایک سیاسی بحران کا شکار ہوگا تو دنیا ہم پر کیسے اعتماد کرے گی؟اگر موجودہ بحرانی کیفیت مزید کچھ عرصہ جاری رہی تو سخت معاشی فیصلے کرنے کے باوجود آپ کی معیشت نہیں سنبھلے گی۔

کسی بھی ریاست کے تین ستون ہوتے ہیں۔عدلیہ،مقننہ اور انتظامیہ۔جب کوئی بھی ریاست مشکل اقدامات کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ تینوں ستون ایک پیچ پر ہوتے ہیں۔غیر معمولی حالات ہمیشہ غیر معمولی اقدامات کے متقاضی ہوتے ہیں۔لیکن آج عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر یہ تین ستون ایک پیچ پر نہیں تھے تو پھر ایک سیاسی جماعت کے کندھے پر رکھ کر بندوق کیوں چلوائی گئی؟حکومت کے ایگزیکٹیو معاملات میں مداخلت سیاسی عدم استحکام کا راستہ ہموار کرتی ہے۔اگر ایک جماعت نے اپنی سیاست کے بجائے ریاست کو ترجیح دی ہے تو سب کو اس سے تعاون کرنا چاہئے۔اگر ملک کا وزیراعظم ازخود نوٹسز کے بعد وکلاء تنظیموں کے رہنماؤں سے ملاقات میں دو ،دو دن گزا ر دے ،پنجاب کے سیاسی بحران کی وجہ سے زیادہ وقت سیاسی معاملات کو سنبھالتے ہوئے گزرے تو ایسے میں معاشی بحران سے کیونکر نپٹا جاسکتا ہے۔؟

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شہباز شریف ذاتی طور پر ایک محنتی اور دیانتدار شخص ہیں۔کرپشن ان کے قریب سے بھی نہیں گزری۔مجھ سے ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ کوئی ایک شخص بتائیں جو شہبا ز شریف کے قریب نہیں رہ سکتا؟ تو میں نے جواب دیا کہ کرپٹ آدمی شہباز شریف کے قریب نہیں رہ سکتا۔شہباز شریف کے دن کا آغازصبح 6بجے اور اختتام رات کو 12بجے ہوتا ہے۔وہ اپنی ٹیم میں ایسے بندے رکھتا ہے جو اس کی اسپیڈ،لینتھ اور سوئنگ کو سمجھتے ہوں۔اس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ چلنا چاہتا ہے،دوڑنا بھی چاہتا ہے،گرنا بھی چاہتا ہے اور پھر اٹھنا بھی چاہتا ہے مگر رکنا نہیں چاہتا۔لیکن یہ سب خوبیاں بیکار معلوم ہوتی ہیں جب حالات آپ کو انہیں استعمال ہی نہ کرنے دیں۔تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اگر آج شہباز شریف نے غیرمقبول فیصلے کیے ہیں تو اس کےکندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں۔شہباز شریف کی صلاحیتوں سے استفادہ کریں۔سیاسی استحکام کے بغیر کوئی بھی وزیراعظم کارکردگی نہیں دکھا سکتا۔حکومت کے سخت معاشی فیصلوں کے بوجھ تلے غریب آدمی تو دب چکا ہے،اب براہ کرم منتخب وزیراعظم کو کسی بوجھ تلے مت دبائیں۔اسے کارکردگی دکھانے کا موقع دیں،تاکہ ایک غریب پاکستانی پر ڈالا گیا بوجھ کم ہوسکے۔

وزیراعظم صاحب! آپ تو غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل شخص ہیں۔جب 2010کے بدترین سیلاب میں پورا جنوبی پنجاب ڈوب گیا تھا تو آپ نے صرف دو سال میں ایک نیا انفرا اسٹرکچر کھڑا کردیا تھا۔ایک صحرا میںطیب اردوگان اور ترکی اسپتال آپ کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔اب بھی نامساعد حالات کے باجود کارکردگی پر توجہ مرکوز کریں۔اچھی کارکردگی اور بہترین نتائج کیلئے اگر ٹیم میں کوئی ردوبدل کرنا پڑے تو بلاتاخیر کر گزریں۔کیونکہ جب بھی کسی لیڈر کو ناکام کرنا مقصود ہوتا ہے تو اسے سب سے پہلے اس کے مخلص دوستوں سے دور کیا جاتا ہے۔اس کے سامنے ایسی منظر کشی کی جاتی ہے ،جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔اپنی ٹیم کے قابل لوگوں اور اپنے دوستوں کی غلطیاں نظر انداز کرکے ان سے کام لیں۔ان لوگوں کو تربیت دینے میں آپ کی بہت انویسٹمنٹ ہے،آج انہیں ضائع مت کریں۔آج تاریخ لکھی جارہی ہے۔اس قوم کی یاداشت بہت کمزور ہے۔عوام پنجاب کی دس سالہ بہترین کارکردگی کو بھول جائیں گے اور آپ کی آخری اننگز کو یاد رکھیں گے۔براہِ کرم اپنے کئیریر کی بہترین اننگز کھیلنے کی کوشش کریں تاکہ تاریخ میں ہمیشہ آپ کو سنہری الفاظ میں یاد رکھا جائے۔

تازہ ترین