• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روبوٹ کی مدد سے کینسر جیسی مہلک بیماری کا پتہ لگانا ممکن؟

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

مستقبل میں روبوٹ کی سونگھنے کی صلاحیت کی مدد سے پوشیدہ بیماریوں کا پتہ لگانا آسان ہو سکتا ہے جس میں کینسر جیسی بیماری بھی شامل ہے۔ 

غیرملکی میڈیا کے مطابق اس حوالے سے ایک تحقیق میں سائنسدان اس طریقہ کار کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے ذریعے ایک مریض کی سانس، پسینہ اور حتیٰ کہ آنسو میں موجود کیمیکل کمپاؤنڈ کا مشاہدہ کیا جا سکے اور جو ممکنہ بیماری کی جانب اشارہ کرسکے۔

اس سلسلے میں ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ کیمیکلز انسان کی انگلیوں کے نشانات کی طرح ہیں جو بیماری کے علاج کی جانب لے جاسکتے ہیں۔ 

محققین اس تصور کو ’وولیٹولومکس‘ (volatolomics) کہتے ہیں، جبکہ انہوں نے واضح کیا کہ ایسے روبوٹ کمرشل سطح پر ہر وقت موجود نہیں ہوں گے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ ہم جب بھی کچھ سونگھتے ہیں تو ناک کا غیر مستحکم نامیاتی مرکبات (وی او سیز) سے سامنا ہوتا ہے جو بہت تیزی کے ساتھ بخارات بھی بن جاتے ہیں۔ یہ انسانی میٹابولزم کا حصہ ہوتے ہیں جو کسی نا کسی شکل میں خارج ہوجاتے ہیں۔

تمام ہی اورگینزم وی او سیز خارج کرتے ہیں جن کے مختلف مقاصد ہو سکتے ہیں، جن میں کمیونیکیشن، ری پروڈکشن اور حتیٰ کہ اپنا دفاع بھی شامل ہے۔ 

اسی طرح جسم سے یہ وی او سیز حیاتیاتی تبدیلی، جس میں بیمار ہونا بھی شامل ہے، کے ردِ عمل میں بھی جاری ہوتے ہیں۔ 

اسی سلسلے میں ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے محققین کے تجزیے کے مطابق الیکٹرونک ناک (ای نوزز) کا سونگھ کر کینسر کی تشخیص کی درستی کا درجہ بہت زیادہ ہے۔ 

وولیٹولومکس ایک نیا تصور ہے، لیکن اس کے بارے میں سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ تصور تو صدیوں سے موجود ہے، تاہم اُس وقت تجربہ کرنے کی ٹیکنالوجی موجود نہیں تھی۔

مشین لرننگ اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ سائنسدان اپنی معلومات کو استعمال کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر نینو مٹیریل سینسرز وی او سیز کو درستی کے ساتھ پہچان سکتے ہیں جن کا اخراج کھانے، مشروبات، آلودگی اور انسانوں سے ہوتا ہے۔

صحت سے مزید