عطاء الحق قاسمی کو بہت سال پہلے اردو کا سب سے بڑا کالم نگار قرار دیا جا چکا ہے۔ یہ اعزاز انہیں کسی ایرے غیرے نے نہیں بلکہ اردو کے ایک بہت بڑے ادیب اور براڈ کاسٹر اشفاق احمد نے عطا کیا تھا۔ اشفاق احمد کی بڑی پہچان ان کی کتاب ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ ہے لیکن قاسمی صاحب کے بارے میں ان کی رائے افسانہ نہیں صرف حقیقت ہے۔ اس حقیقت کا ایک بڑا ثبوت ڈاکٹر عائشہ عظیم کی کتاب ’’مشاہیر کے خطوط بنام عطاء الحق قاسمی‘‘ کے عنوان سے شائع ہونیوالی کتاب ہے۔ یہ کتاب اردو ادب اور تاریخ کے طالب علموں کیلئے ایک خزانہ ہے جس میں قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری، احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، مشتاق احمد یوسفی، منیر نیازی ، امجد اسلام امجد، انور مسعود، مجیب الرحمٰن شامی، وارث میر، ابن انشا اور مجید نظامی کے علاوہ کئی سیاستدانوں اور سینکڑوں مشہور شخصیات کے عطاء الحق قاسمی کے نام خطوط شامل ہیں۔ سابق وزیر اعظم نوازشریف اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے خطوط کو کتاب میں شامل کرکے شریف برادران کو بھی مشاہیر کا درجہ دیدیا گیا ہے لہٰذا کچھ دوست کتاب پڑھتے ہوئے کھلکھلا کر ہنس دیں گے اور کچھ نازک مزاج سینہ کوبی پر بھی مجبور ہو سکتے ہیں۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ شہباز شریف بھی ایک کتاب کے مصنف ہیں اور قاسمی صاحب کے نام خط میں انہیں یقین دلا رہے ہیں کہ میں نے اپنی کتاب خود لکھی ہے، شعیب بن عزیز نے نہیں لکھی۔ وہ اکثر اپنی تقریروں میں یہ اشعار پڑھتے ہیں:
خوشبوئوں کا اک نگر آباد ہونا چاہئے
اس نظام زر کو اب برباد ہونا چاہئے
ظلم بچے جَن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کوبھی صاحبِ اولاد ہونا چاہئے
شہباز شریف اپنی انگلی لہرا کر یہ اشعار تو سنا دیتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ شاعر کا نام عطاء الحق قاسمی ہے۔ وہ عمران خان کو غالباًاس شک میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے کہ ان کی تقریریں عطاء الحق قاسمی لکھتے ہیں۔ مجھے صرف یہ بتانا ہے کہ قاسمی صاحب ایک بڑے کالم نگار، ڈرامہ نگار اور مزاح نگار ہی نہیںبلکہ ایک بڑے شاعر بھی ہیں۔ میں بچپن سے ان کے کالم پڑھ رہا ہوں۔ 1994ء میں جب میں نے باقاعدہ کالم لکھنا شروع کیا تو جن صاحبان نے میری بہت حوصلہ افزائی کی ان میں عطاء الحق قاسمی سرفہرست تھے۔ 2000ء میں انہوں نے مجھے اپنی کتاب ’’بارہ سنگھے‘‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب کی دعوت دے کر عزت افزائی کی اور کچھ مشکلات میں پھنسا دیا۔ یہ پرویز مشرف کا دور تھا جب بارہ سنگھے اور خونخوار بھیڑیوں میں فرق ختم ہوگیا تھا لیکن عطاء الحق قاسمی نے مشرف کے بوٹ کو اپنےقلم کی نوک پر رکھا اور سگریٹ کے دھوئیں میں اڑا دیا۔ وہ نسل جس نے مشرف کا عہد ستم نہیں دیکھا وہ عطاء الحق قاسمی کے نام مشاہیر کے خطوط پڑھ لے۔ یہ کتاب ہمیں قاسمی صاحب کی ایک اور مشہور کتاب ’’مزید گنجے فرشتے‘‘ کی یاد دلاتی ہے۔ اس کتاب میں ان مشاہیر کے خاکے شامل ہیں جن کے خطوط کو ڈاکٹر عائشہ عظیم نے اپنی نئی کتاب میں اکٹھا کر دیا ہے۔ وقت بدلنے کے ساتھ کچھ مشاہیر کے احساسات و جذبات میں آنے والی تبدیلیوں کی دلچسپ جھلکیاں اس کتاب میں موجود ہیں۔ کشور ناہید صاحبہ کہیں قاسمی صاحب کو جناب والا، کہیں قاسمی جی اور کہیں عطاء ڈیئر کہہ کر مخاطب کرتی ہیں۔ جب قاسمی صاحب صرف کالم نگار تھے تو افتخار عارف انہیں پیارے عطاء کے نام کے ساتھ خط لکھتے تھے۔ جب قاسمی صاحب ناروے میں سفیر بن گئے تو افتخار عارف نے انہیں گرامی مرتبت اور ہز ایکسی لینسی لکھنا شروع کردیا۔ پھر جب قاسمی صاحب سفیر نہ رہے تو دوبارہ پیارے عطاء بن گئے۔ ان خطوط میں ایک جگہ اصغر ندیم سید بڑے عاجزانہ انداز میں شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’یار کبھی کبھی ہمیں بھی آنکھ بھر کر دیکھ لیا کرو‘‘۔ اصغر ندیم سید نے اپنے خط میں یہ نہیں لکھا کہ قاسمی صاحب ان کی بجائے کس کس کو آنکھ بھر کر دیکھتے تھے اور کس کس کی آنکھوں میں غوطے کھاتے تھے۔ محمود شام کے ایک خط میں خبر ملتی ہے کہ اے آر وائی چینل 2010ء میں اخبار نکالنے کی تیاری کر رہا تھا لیکن یہ اخبار نہ نکل سکا۔ پی ٹی وی کی مشہور ڈرامہ سیریز ’’اندھیرا اُجالا‘‘لکھنے والے یونس جاوید نے قاسمی صاحب کے نام خطوط میں جو حالات لکھے ہیں وہ پڑھ کر دل سے دعا نکلتی ہے کہ یا اللہ مجھے دوست نما دشمنوں کے شر سے بچانا۔ اردو کے عظیم مزاح نگار شفیق الرحمٰن کے خطوط پڑھ کر بہت افسوس ہوا کیونکہ میں نے اسکول کے زمانے میں ان کی کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ وہ کئی نامی گرامی پبلشروں کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں جو ان کی کتابوں کے جعلی ایڈیشن شائع کرتے رہے اور اپنے قارئین میں مسکراہٹیں بکھیرنے والا شفیق الرحمٰن ان ظالموں کو قانونی نوٹس دے کر اپنا وقت برباد کرتا رہا۔ عطاء الحق قاسمی کے ساتھ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جو ناانصافیاں کیں ان کا سراغ بھی عائشہ عظیم کی کتاب میں موجود ہے۔ پرویز رشید نے ایک خط میں قاسمی کو درخواست کی کہ آیئے پاکستان ٹیلی ویژن کے فالج کا علاج کریں۔ قاسمی صاحب نے قوم کے درد میں مبتلا ہو کر وزیر اطلاعات پرویز رشید کی بات مان لی لیکن جسٹس ثاقب نثار کو نجانے کیا درد اٹھا کہ انہوں نے ان صاحبان کے دردِ قوم کو دردِ دل میں تبدیل کر دیا۔ آخر میں نواز شریف کے دو خطوط کا ذکر بہت ضروری ہے جو انہوں نے عطاء الحق قاسمی کو جدہ سے لکھے۔
مشرف دور میں لکھے گئے خطوط میں نواز شریف فرماتے ہیں کہ پاکستان کے وقار اور خود مختاری کا صرف نام رہ گیا ہے اور حاکمیتِ اعلیٰ ایک خواب بن گئی ہے۔ مزید لکھتےہیں کہ ہارس ٹریڈنگ کو ہم نے ختم کردیا تھا لیکن یہ پھر سے ایک عفریت بن چکی ہے جو سیاسی نظام اور قومی اخلاقیات کو نگل رہی ہے۔ نواز شریف کا یہ 20سال پرانا خط پڑھ کر مجھے ایسا لگا کہ ہم آج بھی مشرف دور میں زندہ ہیں۔ آج بھی پاکستان کا وقار اور خود مختاری آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ 2002ء میں ایک ڈکٹیٹر کی حکومت تھی اور آج شہباز شریف کی حکومت ہے۔ اسی خط میں نواز شریف نے قاسمی صاحب کو یاد دلایا ہے کہ فطرت افراد سے تو اغماض کرلیتی ہے مگر قوموں کے گناہ معاف نہیں کرتی۔ گناہوں کی سزا ہمارے سامنے ہے۔ مشرف دور میں بھی نامعلوم افراد رانا ثناء اللہ کو گاڑی سے نکال کر پھینٹی لگادیتے تھے۔ آج رانا ثناء اللہ وزیر داخلہ ہیں اور نامعلوم افراد ایاز میر کو گاڑی سے نکال کر پھینٹی لگا دیتے ہیں۔ مشرف کے دور میں جاوید ہاشمی بغاوت کے مقدمے میں قید تھا۔ شہباز شریف کے دور میں قومی اسمبلی کا رکن علی وزیر بغاوت کے مقدمے میں قید ہے۔ پہلے آپ ووٹ کیلئے عزت تلاش کرتے تھے، آج آپ لوٹوں کیلئے عزت تلاش کر رہے ہیں۔ آپ کی سیاسی بقا وفا داریاں تبدیل کرنے والوں کی بقا سے مشروط ہے۔ نواز شریف کے خطوط پڑھ کر گمان گزرتا ہے کہ پاکستان واپس 2002ء میں چلا گیا ہے۔ عمران خان کے ساڑھے تین سالہ فاشسٹ دور کی صورت میں قوم کیلئے جو مشکل وقت شروع ہوا، وہ مفتاح اسماعیل کے فیصلوں کی صورت میں بدستور جاری ہے۔ اس سزا سے نجات ’’اک گناہ اور سہی‘‘ میں نہیںبلکہ توبہ میں ہے۔ اردو کے سب سے بڑے کالم نگار کو چاہیے کہ نواز شریف کو ان کے لکھے گئے الفاظ یاد دلائیں۔ (ڈاکٹر عائشہ عظیم کی کتاب کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا)