ڈاکٹر آسی خرم جہانگیری
’’سورہ ٔصافات‘‘ میں اللہ تعالیٰ کا اپنے خلیل حضرت ابراہیمؑ کے متعلق یہ ارشاد موجود ہے:’’سلام ہو ابراہیم ؑپر ‘‘۔ ہم اس نغمۂ جاں فزا پر غور کرتے ہیں تو عقل راست پر آتی ہے اور روح و جد سے جھوم جھوم اٹھتی ہے کہ انسان کو اگر اس کے رب کی پناہ مل جائے تو در اصل وہی معراج بندگی اور مقصد ابدی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ ؑجد الانبیاء کو یہ معراج بندگی اور مقصد ابدی شروع سے ہی حاصل تھا، مذاہب ثلاثہ، اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے پیروکار آپ کوعظیم المرتبت نبی مانتے ہیں۔
آپ کے وجود پاک سے نہ صرف جہاں والوں کو ہدایت ملی، بلکہ آتش کدئہ نمرود کی تپش و حرارت ٹھنڈی ہوئی، بلکہ سلب ہوکر رہ گئی۔ جس خوفناک آگ اور اس کے شعلوں کے سامنے ہر چیز جل کر بھسم ہوجاتی تھی۔ ابوالانبیاءحضرت ابراہیمؑ کو وہ آگ ایذا نہ پہنچا سکی، بلکہ آپ کے لئے سامان راحت بن گئی اور آپ کی سلامتی کامعجزہ بن کر قرطاس و قلم کی ایک انہونی داستان کی صورت میں آج بھی اوراق تاریخ میں جگمگا رہی ہے۔
وفا ہو تو ایسی ، آگ میں کود جانا، مگر دامن توحید پرآنچ آ نا گوارا نہ کیا۔ حضرت ابراہیم ؑ آج سے ساڑھے چار ہزار سال قبل تشریف لائے ،آپ نے شرک و بت پرستی جیسے آلودہ ماحول میں پرورش پائی، مگر اللہ کے خلیل بن کرمغرور، طاقت ور حاکم کو للکار کر مقصد بندگی اور معراج ابدی کامقام و مرتبہ پایا۔ آپ کے سامنے نمرود کی جلا ئی ہوئی آگ کی کوئی وقعت و حقیقت نہیں تھی،آپ اس موقع پر ثابت قدم رہے ،آپؑ نے اپنے والد کو جو بتوں کے بچاری تھے، ان کے غم و غصے کو خاطر میں لائے بغیر برجستہ فرمایاـ"
ان بے جان مورتیوں کی کوئی حیثیت نہیں، ہم اشرف المخلوقات ہیں اور اپنی خواہش کے بجائے اپنے خالق کے سامنے سجدہ کریں" کہیں بھی آپ کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ آپ ہجرت فرما کر فرات کے غربی کنارے پر ایک بستی میں رونق افروز ہوئے۔ یہاں سے خراں یا خاراں کو منتقل ہوئے۔ آپ بے اولاد تھے اور اولاد نرینہ کے لئے بارگاہ الٰہی میں دعا فرمائی جو قبول ہوئی ، حضرت اسماعیل ؑ جیسا فرماں بردار فرزند اللہ نےعطا فرمایا۔
یہی وہ ذات فخر زمیں و فخر زمانہ ہے جن کی قربانی ابدالٓا باد تک یاد گار رہے گی، سورۂ صافات کی آیت نے اس دل فگار یادگار کا نقشہ یوں کھینچا ہے" جب وہ ان کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا، کہا اے میرے بیٹے، میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کرتاہوں، اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے" جسے قرآن نے غلام حلیم عقل مند لڑکے سے تشبیہ دی "کہا ،اباجان، کیجئے جس بات کاآپ کو حکم ہواہے، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے"۔ اس موقع پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے عظیم فرزنذ حضرت اسماعیل ذبیح اللہ نے اطاعت ربانی اور تسلیم ورضا کی عظیم داستان رقم کی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بندۂ مومن کے لیے اس کی پوری زندگی شہادت حق ہے۔ جانور کی قربانی تو اس کی زندگی بھر کے ایثارو قربانی کی ایک علامت ہے۔ مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب ذبح کرنا قربانی ہے۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لیے باقی رکھی گئی، قرآن کریم میں فرمایا گیا: آپ ﷺ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : کہو کہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اسی اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں ۔ بس مجھے یہی حکم ملا ہے اور میں اس حکم کے ماننے والوں میں سے ہوں۔ پھر ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: اللہ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں ،نہ ان کے خون، ہاں تمہاری پرہیز گاری اس تک پہنچتی ہے۔
حضرت سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺنے فرمایا: یوم النحر (دسویں ذی الحج) میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک خون بہانے(قربانی) سے زیادہ محبوب نہیں اور وہ (قربانی کا) جانور قیامت کے دن اپنے سینگ، بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پرگرنے سے قبل اللہ کے نزدیک مقام قبولیت کو پہنچ جاتا ہے، لہٰذا قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔ (سنن ابو دائود)
حضرت سیدنا حسن بن علی ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی، وہ اس کے لیے آتش جہنم سے حجاب (روک) ہو جائے گی۔ (طبرانی)ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو مال عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا، اس سے زیادہ کوئی مال پیارا نہیں۔ (طبرانی)حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جس میں وسعت ہو، اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (ابن ماجہ)
مسلمان کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکا حکم ماننے والا اس کے حکم کے آگے اپنا سر جھکانے والا اپنی آل اولاد، مال، اہل و عیال سب اس کے سپرد کر دینے والا ، انبیاءؑ کے طریقے کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والا اور تمام انبیاءؑ کے خاتم حضرت محمد ﷺ کا پیرو کار، یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ ایمان لا کر عمل صالح کا پیکر نہ ہو۔ بہرصورت اس میں قربانی کرنے اور نہ کرنے والوں بلکہ سب کے لیے تعلیم ہے کہ اگر قربانی کرو تو صرف ایک اللہ کی رضا اور اس میں اس کے رسولﷺ کی ادا ہو، تقویٰ اور پرہیزگاری کی روح اس میں شامل ہو۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینۂ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال آپﷺ قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی) ان تمام تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ قربانی ایک مقدس فریضہ ہے،جس کا مقصد قرب الٰہی اور اعتراف بندگی ہے۔ قرآن کریم اور احادیثِ نبویؐ میں اس کے بے شمار فضائل بیان کرتے ہوئے اسے اہل ِ ایمان کا دینی و ملّی شعار قرار دیا گیا ہے۔