بے خودی ہوش نما، ہوش بھی غفلت آرا
ان نگاہوں نے کہیں کا مجھے رکھا نہیں
فراق گورکھپوری کا یہ شعر ہمارے حکمرانوں کے رویئے کی عکاسی کتنی خوبصورتی سے کرتا ہے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا کیونکہ یہاں تو بانسری بھی نہیں بج رہی نیرو کم از کم اپنی پسند کا کوئی کام تو کر رہا تھا یہاں تو کسی کو کام کرنے کی فرصت نہیں جبکہ اصل محاورہ ہے کام سے فرصت نہیں۔ ہم چاہیں تو محاورے بھی تبدیل کر سکتے ہیں کیونکہ اس وقت قلم ہمارے ہاتھ میں ہے یہ الگ بات ہے کہ بعد میں کیا ہو گا۔ خدا خدا کر کے نیب کے چیئرمین کا تقرر حکومت اور اپوزیشن کی رضا مندی سے ہو گیا۔ کافی لوگوں نے اس تقرر پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ چیئرمین صاحب اچھی شہرت کے مالک ہیں۔ اور اس عہدے پر تقرر کے لئے اچھی شہرت کا ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے اپنے تقرر کے بعد میڈیا والوں کو بھی کافی اچھے اور مثبت بیانات دیئے ہیں۔ نیب کے کیس کافی عرصے تعطل کا شکار تھے۔ اب نئے چیئرمین کے آنے سے ان میں بھی حرکت آ جائے گی اور نیب اپنی پرانی ساکھ بحال کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ نیب کا قانون اگرچہ کافی سخت ہے لیکن اسکا منصفانہ استعمال ضروری ہے کیونکہ زیادہ اور بلا روک ٹوک اختیارات بھی نقصان دہ ہوتے ہیں اور کبھی کبھی انصاف کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں۔ سابقہ دور میں نیب کے قانون کا بے جا استعمال بھی ہوا جس کی وجہ سے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ بہرحال عدالتوں نے درست فیصلے کئے اور لوگ فیصلے آنے کے بعد اپنے اوپر ہونے والی سختیاں بھول گئے اور آخر میں تو این آر او نے ملزموں کی موج کروا دی ۔ ملزموں سے مجھے یاد آیا کہ جن خیالات کا اظہار میں اپنے پچھلے کئی کالموں میں تسلسل سے دبے الفاظ میں کر رہا تھا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے اعلانیہ طور پر پشاور میں کر دیا انہوں نے کھلے الفاظ میں کہا کہ کراچی میں مجسٹریٹ فیصلہ کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فیصلہ کرنے والوں پر اور پولیس افسران پر یہاں تک کہ وکلا استغاثہ پر بھی ذہنی دبائو ہوتا ہے کیونکہ سارے شہر پر خوف طاری ہے تو مجسٹریٹ ،جج سرکاری وکیل، اور پولیس افسران کوئی آسمانی مخلوق تو نہیں کہ اپنے ارد گرد کے حالات سے بے خبر اور بے پروا ہو کر کام کرتے رہیں۔ بہرحال سلام ہے انکو جو اسی ذہنی دبائو کے تحت بھی اپنے فرائض منصبی دلیری سے ادا کر رہے ہیں۔
پولیس افسران کی گاہے بگاہے جام شہادت نوش کرنے کی خبریں آتی رہتی ہیں ۔ سرکاری وکلا میں اکثر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ بنی شیر جونیجو اسپیشل کورٹ کے پریذائیڈنگ افسر اور سیشن جج تھے۔ ہر وقت ہائیکورٹ کا جج بننے کے خواب دیکھتے تھے وہ بھی اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ گویا کوئی بھی بچا ہوا نہیں۔ ایسے حالات میں میاں نواز شریف کا بیان ان تمام لوگوں کے دلوں کی ترجمانی کرتا ہے مگر بات پھر وہی ہے کہ میاں صاحب یہ سب کچھ جانتے ہوئے اسکے سدباب کے لئے کیا اقدامات کر رہے ہیں جہاں تک قانون بنانے کا تعلق ہے پہلے ہی ضرورت سے زیادہ قوانین موجود ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قوانین پر عملدرآمدکروایا جائے قانون بنانا تو آسان ہے۔ اسکا استعمال اور اس پر عملدرآمد کروانا ہی معاملے کی اصل روح ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ رابطہ فوجداری میں تبدیلی کر کے عدالتی نظام کو موثر اور مختصر بنایا جائے۔ مگر ان کے کیسوں کے فیصلے بھی ہونے ضروری ہیں۔ اگر صرف گرفتار کر کے جیلوں میں بحفاظت رکھنا ہے اور انہیں جیل میں تین وقت کا کھانا مفت دینا ہے تو پھر ایسا تکلف رہنے دیں اگر ملزم آزاد رہیں گے تو برسر روزگار رہیں گے اور قومی خزانے میں اضافہ کریں گے بقول مرزا غالب۔
بھرم کھل جائے ظالم ! تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرہ پرپیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
ہوئی جن سے توقع ،خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغ ستم نکلے
غالب کا شعر پڑھ کر مشرف کی رہائی اور پھر دوبارہ گرفتاری کا خیال آیا۔ ان کی رہائی کے وقت سے پہلے ہی ان کے بہی خواہوں نے ٹی وی پر بیانات دینے شروع کر دیئے کہ وہ دبئی جا رہے ہیں پھر نتیجہ کیا نکلا۔ ایک اور گرفتاری۔ اب پھر نئے سرے سے ضمانتوں کا سلسلہ شروع ہو گا اور پھر اگلی رہائی کے بعد ایک اور متوقع گرفتاری، ہمارے ملک میں یہ ریت نئی نہیں ہے۔ یہاں بھینس کی چوری پر بھی قومی لیڈروں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لاہور میں چیف جسٹس سردار اقبال ایک کیس میں ضمانت دیتے تھے۔ تو جیل کے گیٹ پر لا کر پھر نئی گرفتاری ڈال کر دوبارہ جیل میں بھیج دیا جاتا تھا۔
آخر تنگ آ کر عدالتوں نے حکم دیا کہ ملزم کو عدالت کی اجازت کے بغیر گرفتارنہ کیا جائے۔ لیکن حکومت حکومت ہوتی ہے۔حکمرانوں سے پنگا لینا کوئی اور آسان کام نہیں اس زمانے میں ضابطہ فوجداری میں ترمیم آئی اور ضمانت کے قانون میں دفعہ 498-Aکا اضافہ کیا گیا جس کے تحت کسی ملز م کو اس وقت تک ضمانت قبل از گرفتاری نہیں دی جا سکتی جب تک وہ خو د عدالت میں حاضر نہ ہو۔ اس پر ایف آئی آر نہ کٹی ہو اور ضمانت صرف اس کیس میں ہوگی جس میں ایف آئی آر کٹی ہو۔ اس طرح Blanbetضمانت کے آرڈر ناممکن ہو گئے اور پھر عدالتوں نے ضمانت کی بجائے عوام کو ریلیف دینے کے لئے آئینی درخواستوں کے ذریعے اسطرح کے آرڈر دیئے کہ ملزم کو عدالت کی اجازت کے بغیر کسی کیس میں گرفتار نہ کیا جائے۔ اس طرح کے اقدام سے عوام نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ سیاسی لیڈروں کی زندگی میں ہمارے جیسے پسماندہ اور غریب ملکوں میں اسطرح کے مسائل کھڑے ہوتے رہتے ہیں اور پھر قدرت خود ہی راستے بنا دیتی ہے۔ پرویز مشرف کا پاکستان آنے کا فیصلہ ان کا ذاتی فیصلہ تھا۔ میری لندن میں ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور انہوں نے ہمیشہ پاکستان آنے کی ضد کی اور تمام دوستوں کے منع کرنے کے باوجود بالاخر پاکستان آ گئے۔ میرے خیال میں انہوں نے درست فیصلہ کیا تھا۔ قانونی مسائل ہیں۔ وہ دلیر آدمی ہیں ۔ گھبراتے نہیں ہیں۔ خندہ پیشانی سے ان مسائل کا سامنا کر لیں گے۔اردو کی کہاوت ہے کہ کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں سو یہ وقت بھی گزر جائے گا ۔ اگر اچھا وقت نہیں رہا تو برا بھی نہیں رہے گا۔ امید پر دنیا قائم ہے۔ ہمارے ملک میں جناب آصف زرداری، وزیراعظم میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو شہید نے جیلیں کاٹی ہیں۔ جیل اقتدار کی منزل کے حصول کا راستہ ہے۔ جیلیں کاٹنے والے مسند اقتدار پر بالاخر براجمان ہوئے۔ پرویز مشرف کو بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے آخر میںفیض صاحب کے شعر قارئین کی نذر کرتا ہوں۔
جو تجھ سے عہد وفا استوار رکھتے ہیں
علاج گردش لیل و نہار رکھتے ہیں