• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گجرات میں اُس کے والدین یہی جانتے تھے کہ وہ آوارہ گردی کرتا ہے، شہر شہر پھرتا ہے اور اپنے جینے کا انتظام خودہی کرلیتا ہے۔ چند روز میں اسے جوبلی سینما کے سامنے شاہی مرغ چھولے کی خوب چلنے والی دکان نُما ریڑھی کے مالک نے معاون کے طور پر رکھ لیا۔ وہ اس کا ہاتھ بٹاتا اور برتن بھی دھوتا۔ وہاں سے اُکتا کر وہ کلفٹن برج کے پاس’’برج اسٹور‘‘ پر ملازم ہوگیا۔ وہ دن بھر اسٹور پر کام کرتا اوررات کو پُل کے نیچے سَو جاتا۔ ’’برج اسٹور کے قریب مارواڑی کا ہوٹل ہوتا تھا، جب کہ کولمبس ہوٹل ایک معروف ہوٹل تھا۔ جی او آر وَن کی جینٹری صدر الدین نورالدین کے ماڈرن اسٹور پر آیا کرتی تھی۔ لوگوں میں ایک دوسرے کے لیے برداشت تھی۔ 

محلوں میں پانی کے مشترکہ نلکے (Common Tap)ہوتے تھے۔ ہر گھر میں نلکا نہیں ہوتا تھا۔ کراچی کلب کے سامنے پلے بوائے، تاج، اویسس نام کے کلب تھے۔ ان کا مالک وینو ایڈوانی تھا۔ وہ بھارتی راہ نما، ایل کے ایڈوانی کاپھوپھی زاد تھا، بہت شان دار آدمی۔ اس کے کلبز میں بیروت سے طائفے آیا کرتے تھے۔ جب کلبوں پر پابندی لگ گئی تو اس نے ’’اسموکری‘‘ نام کا ریستوران کھول لیا۔ اس میں گوشت سرو نہیں ہوتا تھا، صرف سبزیاں اورمچھلی ہوتی۔ اس کے ساتھ کلچر کیپسول تھا، جس میں شہر کی اشرافیہ اور سیّاح آتے تھے۔ ضیاء دور میں یہاں کلاسیکل ڈانس ہوتا تھا۔ مجرے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، ستار پرمہتاب، طبلے پر محمّدعلی ہوتے تھے۔

پہلے یہاں کلاسیکل ڈانس نگہت چوہدری، بعد میں مسرت کرتی تھیں۔ نگہت چوہدری نے عمران اسلم سے بھی شادی کی تھی، جو علیحدگی پر منتج ہوئی۔ نگہت میری بہن بنی ہوئی تھی۔ تب تک میں ایک دکان کے معاون سے ترقی کر چکا تھا اور ہاتھ پیر مار کرمناسب آمدنی حاصل کرلیتا اوراسی بِنا پر ان جگہوں پر جانا افورڈ بھی کرلیتا تھا۔ 1974 ء میں مجھے پی آئی اے میں انجینئرنگ ٹیکنیشن کی نوکری مل گئی۔ مَیں نے آٹھ برس وہاں نوکری کی اور میں اس کے ٹکٹس پر فلپائن، انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور دیگر ممالک کی سیاحت کر آیا۔ اندرونِ ملک فضائی سفر کے ٹکٹ صرف دس فی صد ادائی پر مل جاتے تھے۔ میری موجیں لگی ہوئی تھیں۔ 

ایسا بھی ہوتا تھا کہ مَیں شام کا اسٹیج ڈراما دیکھنے لاہور جاتا اور رات کو واپس کراچی آجاتا۔ بعض اوقات ٹکٹیں مفت بھی مل جایا کرتی تھیں۔‘‘پی آئی اے کی ملازمت اسحاق کی شادی کا باعث بھی بن گئی۔ نوجوان اسحاق کا چترال آنا جانا لگا رہتا تھا۔ وادیٔ کیلاش اسے بہت خواب ناک اورخوب صورت لگتی تھی۔ اسحاق نے سوچا تھا کہ اپنا بڑھاپا اس پرُسکون، جنت نظیر پہاڑی علاقے میں گزارے گا۔ اُس نے ایرپورٹ کے اسٹیشن منیجر سے کہا کہ وہ اس علاقے کی کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ سو، اس کے لیے رشتہ تلاش کیا جائے۔ اسٹیشن منیجر کے ایک جاننے والے نے دیوبند سے درسِ نظامی کیا ہوا تھا اوران صاحب کو اپنی بیٹی کے لیے رشتے کی تلاش تھی۔ 

’’انھوں نے ہمارا رشتہ طے کروادیا۔ مَیں اپنے چھوٹے بھائی کو لے گیا اور ہم نے سادگی سے شادی کرلی، کُل اٹھارہ سو روپے خرچ آیا تھا۔ میری بیوی نہ اردو جانتی تھی اور نہ ہی پنجابی۔ مجھے بھی اس کی زبان سمجھ نہ آتی تھی۔ ابتدائی دنوں میں مَیں نے ایک مقامی مترجم کی خدمات حاصل کیں، جو ہمارا رابطہ کرواتا تھا۔ میرے گھر والے خوش ہوگئے کہ ایک آوارہ گرد کھونٹے سے بندھ گیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مَیں نے چودہ برس کی عُمر سے اپنے گھر والوں سے ایک روپیا بھی نہیں لیا اور اپنا انتظام خود کیا۔ مَیں بیوی کو لے کر گجرات آگیا۔ آج وہ فر فر پنجابی بولتی ہے۔ 

ہمارے تین بچّے بھی ہوئے۔‘‘ مَیں نے ان کی آنکھوں سے بھانپ لیا کہ اسحاق صاحب کچھ چُھپا رہے ہیں۔ سو، زور دیتے ہوئے کہا۔ ’’اندر کی باتبتائیں، آپ نے گجرات چھوڑ کر چترال کے اجنبیوں میں شادی کیوں کی؟‘‘یہ سُن کر اسحاق صاحب نے اپنی سُرخ آنکھیں نکال کر مجھے گھورکر دیکھااوربےاختیاربول پڑے۔’’جو میری حرکتیں تھیں، کیا کوئی پنجابی عورت میرے ساتھ گزارہ کر سکتی تھی؟‘‘مَیں ہنس پڑا۔ وہ بھی نرم پڑ گئے اور بولے۔ ’’چترال کی عورتیں شوہر پرست اورخدمت گزار ہوتی ہیں۔ میری بیوی کا مجھ سے بہت اچھا نباہ ہوگیا۔ پنجابی عورت تیز مزاج اور کم برداشت والی ہوتی ہے۔ اگر میں کسی پنجابی عورت سے بیاہ کرتا توہم دونوں کی زندگیاں عذاب ہوجاتیں، میری شاید زیادہ۔‘‘

شادی سے پہلے ہی اسحاق کو آسٹرالوجی کا شوق ہوگیا، جو رفتہ رفتہ جنون کی شکل اختیار کرگیا۔ اس کے لیے باقاعدہ رسمی اعلیٰ تعلیم کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ جس ہوٹل میں رہتا تھا ، وہاں ہر جاگتے لمحے میں آسٹرالوجی پڑھتا رہتاتھا۔ ہفتہ بھر باہر نکل کر سورج کی روشنی بھی نہیں دیکھتا تھا۔ بقول اسحاق نُور ’’آسٹرالوجی کے شوق میں مَیں نے پی آئی اے کی نوکری چھوڑدی۔ مَیں نے اتنی تپسّیا کی کہ کُندن بن گیا۔ مَیں نے کاش البرنی، بی۔وی رانل، بی وی راما اور سوری نارائن کی کتابیں حفظ کرلیں۔ اردو میں مقامی نجومیوں کی لکھی کتابیں بے کار تھیں۔‘‘ 1982میں اسحاق کی ملاقات صدرالدین ہاشوانی سے ہوئی۔ وہ سٹی اسٹیشن کے نزدیک واقع کاٹن ایکسچینج کی عمارت میں بیٹھتے تھے۔ تب موجودہ میریٹ ہوٹل، ہالیڈے اِن ہوٹل کہلاتا تھا۔ ہاشوانی نے دعوت دی کہ وہ وہاں بیٹھ جایا کرے۔ متوازی طورپر اسحاق نُور کو کلفٹن میں بھی ایک ٹھکانا مل گیا۔ ہوٹل میں جہازوں کا عملہ ٹھیرتا تھا، جو زائچے بنواتا تھا۔ بعد ازاں ہاشوانی کا اسحاق سے گہرا تعلق اُس کے دم آخرتک رہا۔

1984میں اسحاق نُور کے پیر کا چکر اُسے دوبارہ لاہور لے گیا۔ وہاں اس کا جی نہ لگا، سو وہ واپس کراچی آگیا۔ اس کا مطالعہ اورمشق جاری تھے۔ آہستہ آہستہ اس کی شہرت پھیلنے لگی۔ کراچی میں ابتداً وہ طارق روڈ پر سیور ہوٹل میں ٹھیرا، بعد ازاںExcelsiorہوٹل میں ایک کمرا مستقل بنیادوں پرکرائے پر لے لیا۔ اس دوران عورتیں اورمرد اس کے پاس آنا شروع ہوگئے۔ اخبارات میں انٹرویو بھی شائع ہونے شروع ہوگئے۔ اسحاق نُور سنسکرت سے ترجمہ شدہ کتب کا مطالعہ کرتا، لبرٹی بکس کے پاس ہر پندرہ روز بعد آسٹرالوجی پر میگزین آتا تھا، جو خاصا مہنگا ہوتا تھا، وہ بھی باقاعدگی سے خریدتا، وہ بی۔وی راما سے اس درجہ متاثر تھا کہ اس سے ملاقات کے لیے ہندوستان میں بنگلور گیا اور وہاں سلطانہ مہر کے ساتھ اس سے ملا۔

’’آسٹرالجر اُمید بیچتا ہے، کیوں کہ زیادہ تر لوگ پریشانی کے عالم میں اس سے ملنے آتے ہیں۔ ہر شخص کی زندگی میں اچھی اور بری دونوں طرح کی خبریں ہوتی ہیں۔ ایک پریشان شخص کو اچھی، مگر سچی پیش گوئیاں بتانا تو نیک کام ہے۔ ڈاکٹر اورآسٹرالجر کے پاس لوگ کھل جاتے ہیں، اپنے نجی معاملات اور راز بیان کر دیتے ہیں۔ میرے سینے میں بھی بہت سے راز ہیں۔‘‘میرے ذہن میں نئے سیاروں کی دریافت، اس کے علاوہ بدلتی سامنے آتی کائنات کے باوجود جامد آسٹرالوجی کے معاملات پر شکوک رہے ہیں۔ اسحاق نُور ویدک آسٹرالوجی کے ماننے والے تھے۔ یہ پانچ ہزار برس پہلے بابل و نینوا سے شروع ہوکر مصر سے ہوتی ہوئی ہندوستان میں داخل ہوئی۔ 

ان کا کہنا تھا، ’’ویدک آسٹرالوجی میں نئے سیّاروں کی دریافت اہم نہیں، کیوں کہ وہ اس کی دنیا اور احاطے سے باہر ہیں۔ اس کی عمارت دریافت شدہ اور معلوم سیاروں، ستاروں کے اُوپر کھڑی ہے۔ ویسٹرن آسٹرالوجی میں یورینس، نیپچیون اور پلُوٹو کو تسلیم کیا جاتا ہے، جب کہ ویدک میں نہیں۔ علاوہ ازیں، علمِ نجوم میں ستاروں کے عِلم کے علاوہ چھٹی حِس کوخاص اہمیت حاصل ہے۔ مسلسل مشق اور تجربے سے چھٹی حِس بہتر اور تیزہوجاتی ہے۔‘‘ علم نجوم سے کوئی مستقل نوعیت کا روزگار وابستہ نہیں، اس میں نشیب وفراز آتے ہیں۔ 

اسحاق نُور پربھی اچھا، برُا وقت آتا رہا۔ اُسے ذاتی طور پر خوشبوؤں کا شوق تھا، سو ٹنڈوآدم میں اگربتی کا کارخانہ لگایا، جہاں سے مال پورے ملک میں فراہم کیا جاتا۔ اس کے پاس اتنا سرمایہ نہ تھا کہ زیادہ دیر اُدھار پرکام چلے۔ دکان دار یاتو پیسے کھا جاتے تھے یا وقت پر نہ دیتے تھے، جس کے باعث یہ کام بحران کا شکار ہوگیا اوراسے بند کرنا پڑگیا۔ اس کے علاوہ بھی اُس نے کئی کام کیے جو آدھے ادھورے چل تو گئے، مگر بھرپور طریقے سے کوئی کام جَم نہ پایا۔

مَیں نے اسحاق نور کے فراز کے دن دیکھے تو ایامِ نشیب کا بھی شاہد رہا۔ اُنھیں کھلے دل کا انسان پایا، تو ایسا بھی ہوا کہ لذیذ پکوانوں کے شوقین پر ایسا وقت آتا کہ وہ بالکل سادہ کھانے پر مجبور ہوجاتے۔ اُن دنوں انھیں کسی پرُتکلف دعوت پر مدعو کیا جاتا، تو وہ خوب رغبت سے سیر ہو کر کھانا کھاتے، جیسے کئی روز سے اپنا مَن پسند کھانا نہ کھایا ہو۔ ان کے گاہکوں میں مردوں کی نسبت خواتین زیادہ ہوتی تھیں۔ مرد زیادہ تر اپنے پیشے اورمعاشی معاملات پر سوال کرتے تھے، خواتین کی زیادہ توجّہ اپنے گھریلو معاملات پرہوتی تھی۔ وہ بتاتے تھے کہ ہم خود ساختہ معاشرتی تصوّرات کے ایسے غلام ہیں کہ ان سے مختلف حقائق سے نظریں چراتے ہیں۔ 

مثال کے طور پر شادی شدہ مردوں میں Extra Marital Affairs رائج تصور سے کہیں زیادہ ہیں۔ خواتین میں ایسے تعلقات نسبتاً خاصے کم ہیں، البتہ اونچے طبقے کی اُن خواتین میں، جن کے شوہر اپنے پیشوں اور کاروباروں میں مصروف یا بیرونِ ملک دَوروں پر رہتے ہیں، اپنے سے کم عُمر جوانوں کی جانب میلان کا رجحان زیادہ ہے۔ عورتوں کی بڑی تعداد اپنے شوہروں سے ناخوش نظرآتی ہے۔ عورتوں کی توقعات بڑھ کر ہوتی ہیں جب کہ شوہریا تو ان توقعات پر پورا نہیں اُترپاتے یا اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کے زیرِاثر ہوتے ہیں۔ عورتیں بے چارگی کی زیادہ شکار نظر آتی ہیں۔ 

چوں کہ اُن کا معاشی انحصار مَردوں پرہوتا ہے، سو وہ مردانہ استحصال کی بھی زیادہ شکار نظر آتی ہیں۔ متوسّط طبقے کی خواتین آسٹرالجر اور مولوی کو ایک ہی سمجھتی اور خواہش مند ہوتی ہیں کہ وہ نہ صرف پیش گوئی کرے بلکہ مسائل کا حل بھی تجویز کرے۔ جو ان لڑکے ملازمت اورمعاش کے معاملات میں دل چسپی لیتے تو جوان لڑکیاں شادی اور محبّت کے معاملات پر زیادہ توجہ رکھتیں۔ لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد کی خواہش ہوتی کہ ان کی شادی بیرونِ ملک آباد پاکستانی لڑکے سے ہو۔ لڑکے باہر آباد ہونے کے خواہش مند ہونے کے علاوہ اضافی طور پر بیرونِ ملک سیاحت کے بھی شائق نظر آتے۔ بیویاں، شوہروں کو قابو کرنا چاہتیں اور مائیں، بیٹوں کو اپنے زیرِاثر رکھنا چاہتیں۔ 

ایسے معاملات بھی سامنے آتے، جن کا ہمارے روایتی اور قدامت پرست معاشرے میں تذکرہ بھی گناہ ہے، مثال کے طور پر اپنے محرم رشتوں کے ساتھ غلط تعلق کے چند واقعات بھی اسحاق نُور کے سامنے آئے۔ ایساواقعہ بھی سامنے آیا، جہاں بیوی کی بے وفائی ثابت شدہ تھی، مگر شوہر فیصلہ نہیں کرپارہا تھا کہ اُسے چھوڑدے یا بچّوں کی خاطر برداشت کرے۔ ہمارے معاشرے کے پیٹ پر کپڑا پڑا رہے، تو اچھا ہی ہے، کیوں کہ ہم مسائل کا سامنا کرکے ان کے سوچے سمجھے مدبرانہ حل کے بجائے آنکھیں چرانے اور خود ساختہ تصورات و خیالات کی مسلسل جگالی کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

ایک مرتبہ مَیں اُنھیں لینے گیا، تو وہ خاصے جھلّائے ہوے تھے۔ مَیں نے وجہ پوچھی تو بتانے لگے۔ ’’ایک بوڑھا آدمی میرے پاس آیا ہوا تھا اور بار بارپوچھ رہا تھا کہ کیاوہ بہت امیرہوجائے گا۔ مَیں نے سچ بتادیا کہ اس کا زیادہ امکان نہیں۔ اس کا اصرار جاری رہا کہ مَیں کوئی ایسا طریقہ بتاؤں، جس سے وہ امیر ہوجائے تو مَیں نے کہا ’’بزرگو! اگر مجھے طریقہ پتا ہوتا تو مَیں خود امیر ہوگیا ہوتا۔ اس کے علاوہ اس عُمرمیں تُم اتنی دولت آغا خان اسپتال کی تجوری بھرنے کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہو یا اپنی اولاد سے اپنی جلد موت کی دعاؤں کے خواہش مند ہوتا کہ انھیں جلد تمھاری دولت مل جائے؟‘‘

یہ سُن کر وہ ناراض ہوکر چلا گیا۔‘‘ اسحاق نُور کی عادت تھی کہ وہ اپنے موڈکے مطابق، مخاطب کی عُمر اور رتبے کی پرواہ کیے بغیر، اس سے اکھڑ رویہ اختیارکرلیتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہر انسان میں پیدایشی طور پر ایک تیسری آنکھ Third eye ہوتی ہے، جو بیش تر لوگوں میں غیر فعال رہتی ہے، جب کہ چند لوگوں میں فعال ہوتی ہے۔ اگر اس پر محنت کی جائے اوراسے پالش کیا جائے تو یہ نمایاں طور پر فعال ہوجاتی ہے۔ علمِ نجوم کے ماہرین کے بارے میں ضعیف الاعتقاد لوگ کہتے تھے کہ ان کے پاس موکل ہیں۔ وہ موکل کے تصوّرکومکمل طور پر بےبنیاد سمجھتے۔ 

’’میری زندگی میں بے شمار واقعات ایسے ہیں، جہاں میری پیش گوئیاں ایسی درست بیٹھیں کہ خود مَیں بھی حیران رہ گیا۔ ایک کلائنٹ میرے پاس آیا، مَیں نے اُسے بتایا کہ جمعے کو اسے نئی ملازمت کا سندیسہ آئے گا اور سوم وار کو وہ نئی نوکری جوائن کرے گا۔ بڑی خوشی ہوئی کہ ایسا ہی ہوا۔ مجھے فنونِ لطیفہ میں فلموں کا بہت شوق رہا ہے۔ مَیں نے1968ء میں، جب مَیں سترہ برس کا تھا، اشفاق احمد کی فلم ’’دھوپ اورسائے‘‘ کا ایک سال انتظار کیا۔ وہ شبستان سینما، راول پنڈی میں لگی اور مَیں نے وہیں دیکھی تھی۔ وہ صرف تین دن چلی تھی۔ اِسی طرح میں نے احمد بشیر کی بنائی فلم ’’نیلا پربت‘‘ سنگیت سینما، مریٹر چوک میں دیکھی تھی۔ 

وہ بھی ڈبّا فلم تھی، بُری طرح فلاپ ہوئی۔ ایک مرتبہ خالد عباس ڈار مجھ سے معلوم کرنے آیاکہ آیا اس کا نیا ڈراما فیصل آباد میں کام یاب ہوگا یا نہیں۔ مَیں نے اسے بتایاکہ وہ ڈراما اسٹیج ہی نہیں ہوگا۔ ایسا ہی ہوا۔ بعد میں ڈراما مسلسل پندرہ دن تک گوجرانوالہ میں چلتا رہا۔ ڈرامے کا نام تھا، ’’بُڈھا، ٹرنک اور بوسکی‘‘۔ ان باتوں کا پرشنا جیوتش سے پتا چلتا ہے۔ زندگی کے فوری اور حالیہ اہم واقعات اور معاملات کا جاتک جیوتش سے علم ہوتا ہے۔ ملکوں، ریاستوں کے لیے منڈین جیوتش استعمال میں آتا ہے۔ جیوتش کی یہ شاخ سب سے مشکل اور تجربہ ومشق طلب ہے۔ اس پر مہارت دنیا میں بہت کم لوگوں کو ہے۔ پاکستان میں کسی کو اس پر مہارت نہیں۔‘‘ اسحاق نُور اعتماد سے بتاتے تھے کہ انھوں نے ابنِ عربی، ابنِ رشد، ابنِ طفیل اور غزالی کو پڑھ رکھا تھا۔ ان کے اور میرے مکالمات ایک ایک جملے تک بھی محدود ہوتے ۔

’’روحانیت کیا ہے؟‘‘ایک مرتبہ مَیں نے پوچھا۔ ’’جسے ہمارے ہاں روحانیت سمجھا جاتا ہے، وہ مجذوبیت ہے۔ ماہرین نفسیات اسے Bipolar disease کہتے ہیں۔ جیسے میں خود ٹوٹی چپل پہن کر پِھرتارہتا ہوں۔‘‘ انھوں نے جواب دیا اور بات جاری رکھی۔ ’’جس روحانیت سے ہم کرامات منسوب کرتے ہیں، اسے کچھ اور کہا جاتا ہے۔ کرامت تو فزکس کے اصولوں کا ٹوٹنا ہے۔‘‘ ’’کیا کرامت حقیقت ہے؟‘‘ مَیں نے دریافت کیا۔ ’’بالکل، ہرشخص کی زندگی میں ایک یا زیادہ بار کرامات ضرور ہوتی ہیں۔ کرامات تو عام آدمی کے ساتھ بھی ہوتی ہیں۔‘‘ انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا۔ ’’اَن ہونی پھیرا مار کے رہتی ہے۔‘‘ ایک شام میری اسٹڈی میں بیٹھے خاصی دیر گپ شپ میں مشغول رہے۔ 

چائے پیتے ہوئے مَیں نے ان سے علمِ نجوم کے مستقبل کاپوچھا تو وہ خاصے پُرامید نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی نسل اس میں خاصی دل چسپی لے رہی ہے، آن لائن کورسز ہورہے ہیں، بالخصوص لاہور میں انھیں ایسے نوجوان ملے، جو اس کا شوق رکھتے تھے اور اسے عملی طور پر سیکھ رہے تھے۔ علمِ نجوم سے منسلک پیشے سے بات دیگر پیشوں کی جانب نکل گئی۔ ’’مَیں خوش نصیب ہوں کہ مَیں نے ایسے کئی پیشوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، جو صدیوں سے چلے آرہے تھے اور میری نسل کی آنکھوں کے سامنے ختم ہوئے۔ بعد کی نسل ان کا تذکرہ صرف کتابوں میں پڑھے گی یا فلموں میں دیکھے گی۔‘‘

مَیں نے میلوں، ٹھیلوں میں بکنے والے گُھگھوگھوڑوں، مٹّی کے کھلونوں، سرکس میں عورت بن کر ناچنے والے مَردوں، کاسٹیوم پہن کر جل پرَی بننے والوں، چھوٹے قد کے بونے انسانوں کے قوی الجثہ آدمیوں کے ساتھ کرتب وغیرہ کا تذکرہ کیا، تو انھوں نے اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’مَیں نے گلی محلوں میں رچائے جانے والے پتلی تماشے دیکھے ہیں۔ لوگ پُتلے، پُتلیاں لے کر محلہ محلہ پھرتے تھے اور آوازیں لگاتے تھے’’تماشا کرالو‘‘۔ وہ دو تین لوگ ہوتے تھے، چارپائیاں اکٹھی کرکے ڈھولکی اور الغوزہ بجاتے تھے۔ لوگ گھروں میں بھی ان سے تماشا کرواتے تھے۔ 

یہ خانہ بدوش نُمالوگ ہوتے تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں غائب ہوگئے۔ اسی طرح ادویہ اور جڑی بوٹیاں بیچنے والے لوگ ہوتے تھے۔ انھوں نے بڑے بڑے بورڈز پر تصویریں پینٹ کی ہوتی تھیں، جن پر پہاڑ، چشمے، جنگل وغیرہ بنے ہوتے تھے۔ یہ جڑی بوٹیوں، سلاجیت وغیرہ کی تلاش کے قصّے، رودادیں سُناتے تھے۔ بچپن میں ان کی باتیں سن کر مَیں ایک اور ہی دنیا میں چلا جایا کرتا تھا۔ جو جڑی بوٹیاں وہ کوٹ کردیتے تھے، ان سے وابستہ عجیب وغریب جادوئی خوبیاں بیان کرتے تھے۔

ان میں حقیقت نہ ہوتی تھی، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا نقصان بھی نہ ہوتا تھا۔ عام طور پر وہ اچھے ہربل ٹانک ہوتے تھے۔ مَیں نے افیون کے ٹھیکے اخبارات میں مشتہر ہوتے دیکھے ہیں اور بھنگ کی سردائی درگاہوں کے علاوہ گلی محلوں میں استعمال ہوتے دیکھی ہے، بھنگ کے پکوڑے اور سردائی آج بھی چلتے ہیں، مگر تب تو خاصے عام تھے۔ مَیں نے سن تریسٹھ، چونسٹھ میں پرائمری کی کتابوں میں رام چندر جی اور مہاتما بُدھ کے بارے میں پڑھا ہے۔ آج کی درسی کتابوں میں دیگر مذاہب کے مقدس راہ نماؤں کا احتراماً تذکرہ محال ہے۔‘‘

اسحاق نُور کی سب سے بڑی خواہش اپنی روحانی ماں، روشن آرا بیگم کے مرقد پر کلاسیکی موسیقی کانفرنس کروانے کی تھی، جس کا انھوں نے بارہا مجھ سے تذکرہ کیا۔ افسوس ان کی سب سے بڑی خواہش پوری نہ ہوپائی۔ کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں یوں لیا ہوا تھا جیسے اژدھا، ہرنی کے بچے کو اپنی کنڈلی کی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ ایک شام مَیں نے خبر پڑھی۔ ’’معروف آسٹرالجر، اسحاق نُور کورونا کے باعث انتقال کرگئے۔‘‘ خبر پڑھ کر مجھے جھٹکا لگا۔ ابھی چند روز پہلے میری اُن سے فون پر بات ہوئی تھی۔ 

مَیں نے فوری طورپر ان کا نمبر ملایا، فون ان کی اہلیہ نے اٹھایا، انھوں نے خبر کی تصدیق کی، مَیں نے تعزیت کی اور فون بند کردیا۔ وہ انتقال کے وقت گجرات میں تھے۔ بعدازاں، میں نے چند ایک مرتبہ خیر خواہی کے لیے اُن کی اہلیہ کو فون کیا۔ انھوں نے اسحاق نُور کے آخری دنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بے شمار لوگوں کا حساب لگاتے تھے مگر اپنا حساب لگاتے ہوئے گھبراتے تھے۔ چند روز پہلے وہ صحت مند اور تندرست و توانا کراچی سے گجرات آئے تھے۔ نہ جانے کیا ہوا کہ آنے کے بعد ایک رات وہ لیپ ٹاپ پر دیر تک بیٹھے کام کرتے رہے اور کاغذ کے دستے پر باریک اور پیچیدہ حساب لگاتے رہے۔ وہ اپنا حساب لگا رہے تھے۔ ایک موقعے پر انھوں نے لیپ ٹاپ بند کر کے گھر کے کونے میں پھینک دیا اور کاغذوں کا دستہ بھی پھاڑ دیا۔ اس کے بعدانھوں نے تادمِ مرگ لیپ ٹاپ کی جانب نگاہ بھی نہ کی۔ چند روز میں انھیں کورونا تشخیص ہوا اور وہ آناً فاناً فوت ہوگئے۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔

ان کے تین بچّے تھے، جن میں سے دو بچّے، جو انھیں ازحد عزیز تھے، غیر قدرتی موت کا شکار ہوئے تھے۔ ایک بیٹی نے ناراض ہوکر زہر پی لیا تھا اورایک بیٹا، جو دماغی طور پر کچھ کم زور تھا، اپنے ننھیالی عزیزوں کے ہاں چترال گیاہوا تھا، وہاں نہانے کے لیے دریا میں اُترا۔ دریا طغیانی پر تھا،اور اُسے بہا کر ساتھ لے گیا۔ کئی روز کی تلاش و جُست جُو کے باوجود اس کی لاش بھی نہ مل پائی۔ ان حادثات کا مجھ سے تذکرہ وتصدیق ہمارے مشترکہ جاننے والوں نے کی۔ اسحاق صاحب نے کبھی اس موضوع پر مجھ سے بات نہ کی تھی۔ اگر کبھی اولاد کا تذکرہ آجاتا تو ٹال جاتے، جیسے ابھی تک اتنے بڑے غموں کو نہ صرف ہضم نہ کرپائے ہوں بلکہ ان سانحات کے تذکرے کی جذباتی طور پرہمت نہ پاتے ہوں۔ پس، کبھی کبھی بات کرتے، قہقہہ لگاتے ایک لمبی آہ، سسکاری ان کے ہونٹوں سے نکل جاتی اور وہ خاموش ہوجاتے۔

میرے لیے اپنے دیرینہ دوست، رفیق کی وفات کا دُکھ کتنا گہرا ہے، یہ صرف میرا دل ہی جانتا ہے۔ ساتھ ہی مَیں اپنے دوست کے لیے خوش بھی ہوں۔ مغربی ممالک میں ایک روایت چلی آرہی ہے، کوئی فوت ہوتا ہے تو اس کے اعزا واحباب اس کی خوبیاں بیان کرتے ہیں اور مرحوم نے بھرپور زندگی گزاری ہو تو اس پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کہ موت ناگزیر ہے، مگر وہ شخص اپنی زندگی تو پوری طرح جی گیا۔ اسحاق نُور نے اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق اپنی شرائط پر، دکھاوے سے مبرّا گزاری۔ بے شک، ایسی زندگی پیسوں سے نہیں خریدی جاسکتی، اس کے لیے ایک جنون چاہیے۔ اور…دنیا کے قابلِ ذکر افراد میں اگر کوئی ایک قدر مشترک ہے، تو وہ یہ جنون ہی ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید