میں اگرچہ اس وقت کینیڈا میں موجود ہوں لیکن دیار غیر میں رہتے ہوئے بھی پاکستان اور اپنے خطے کے حالات سے بے خبر نہیں ،میں ابھی تھوڑی دیرپہلے کینیڈا کے ایک ٹی وی چینل پر دیکھ رہا تھا کہ سری لنکا کے مظاہرین کولمبو میں صدارتی محل پر قبضہ کرچکے ہیں،وہاں حکومت کی رِٹ تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہے، بدترین اقتصادی بحران نے سری لنکن عوام کو فاقوں پر مجبور کردیا ہے۔ عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق ایسی خطرناک صورتحال کا سامنا مستقبل قریب میں مصر ،لبنان اور تیونس سمیت کچھ دیگرممالک کو بھی کرنا پڑسکتاہے،کچھ حلقے پاکستان کے بارے میں بھی ایسی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ منہ زور مہنگائی کا ذمہ دار آئی ایم ایف کو قرار دیا جارہا ہے، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ کسی کو مورد الزام ٹھہرانے سے پہلے تاریخی حقائق مدنظر رکھتے ہوئےہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)کا قیام دوسری جنگ عظیم کے دوران 1944 ء میں عمل میں آیا،اس بین الاقوامی ا دارے کے اغراض و مقاصد میںعالمی سطح پر مالیاتی تعاون ، اقتصادیاستحکام،بین الاقوامی تجارت ، ر و ز گا ر ، پائیدار معاشی ترقی کا فروغ اور دنیا بھر میں غربت کا خاتمہ شامل ہیں۔آج واشنگٹن ڈی سی، امریکہ میں واقع آئی ایم ایف کے ممبر ممالک کی تعداد 190 ہوچکی ہے، اس کے بارے میں مشہور ہے کہ جس ملک کو کسی اور جگہ سے امید نہیں ہوتی، اسے آئی ایم ایف سے قرضہ مل جاتا ہے لیکن یہ بات بھی واضح رہے کہ آئی ایم ایف کوئی امدادی یا خیراتی ادارہ نہیں بلکہ قرض کی واپسی کیلئے کڑی شرائط عائد کرتا ہے، یہاں تک کہ کچھ قرضوں پر شرح سود ساڑھے 14فیصد تک ہے۔یہ امر ِ دلچسپی کا باعث ہے کہ آئی ایم ایف کے اولین رکن ممالک میں ہمارے پڑوسی بھارت یا اور چین شامل ہیں جنہوں نے اپنی آزادی سے قبل ہی دسمبر 1945ء میں مذکورہ عالمی ادارے میں شمولیت اختیار کرلی تھی،چین اب تک دو مرتبہ مالیاتی تعاون کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جاچکا ہے جبکہ بھارت نے سات مرتبہ آئی ایم ایف کے پروگراموں میں شرکت کی ہے، تاہم آج دونوں ممالک آئی ایم ایف کا تمام قرضہ بخوبی واپس کرچکے ہیں، بھارت آخری مرتبہ نوے کی دہائی میں آئی ایم ایف کے پاس گیا تھا اور اپنے وعدے کے مطابق سال 2000ء سے قبل تمام واجب الادا قرض بمعہ سود اتارنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسی طرح ڈیفالٹ کرجانے والاسری لنکا 16مرتبہ آئی ایم ایف کے پروگراموں میں شرکت کرچکا ہے، بارہ مرتبہ آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کرنے والے بنگلہ دیش کے واجب الادا قرض کی رقم 817ملین امریکی ڈالرز ہے۔ تاریخی طور پر پاکستان1950ء میں آئی ایم ایف کا ممبر بنا ،تاہم سب سے پہلے صدر ایوب کے دورِ اقتدار میں 1958 ء میں بیل آؤٹ پیکج کیلئے آئی ایم ایف کے پاس گیا اور پچیس ہزار ڈالر کا قرضہ حاصل کیا، 1965کی پاک بھارت جنگ کے بعد ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے پھر ساڑھے 37ہزار ڈالر کا قرض لیا، تین سال بعد پھر آئی ایم ایف سے 75ہزار ڈالر حاصل کئے،ملک دولخت ہونے کے بعد پاکستان نے 1972میں 84ہزار ڈالر اور پھر اگلے دو سال مسلسل 75ہزار ڈالر سالانہ قرضہ لیا۔ آئی ایم ایف سے بھاری قرضہ لینے کا سلسلہ جنرل ضیاء کے دور میں بھی جاری رہا اور پھر جمہوری حکومتوں کے دور میں مزید تیزی آگئی، جب 1999ء میں جنرل مشرف نے حکومت سنبھالی تو اس وقت بھارت آئی ایم ایف کے شکنجے سے باہر نکل رہاتھا، ملکی تاریخ میں23 مرتبہ ہمارے مالی حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی اور آپشن میسر نہیں تھا، آج نوبت یہ آگئی ہے کہ پاکستان کے اوپر آئی ایم ایف کا 5404ملین ڈالر سے زائد کا قرضہ چڑھ چکا ہے جسکی وجہ سے پاکستان کا شمار آئی ایم ایف کے چار بڑے مقروض ممالک میں ہوتا ہے اور اب ہم ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے دروازے کھٹکھٹارہے ہیں۔ افسوس ! اتنا بھاری قرضہ حاصل کرنے کے باوجود پاکستانی روپیہ ہمارے خطے میں بنگلہ دیش اور انڈیا دونوں سےبہت کمزور ہے ،ہمارے پاس تقریباً 14 ارب ڈالر کے زر مبادلہ کے ذخائر ہیں جبکہ بنگلہ دیش اور بھارت کے پاس بالترتیب40 ارب ڈالر اور601ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر ہیں۔ آئی ایم ایف اپنے قرضے کی واپسی کیلئے مالی نظم و ضبط اور اصلاحات چاہتا ہے لیکن ناعاقبت اندیش حکمراں قرضے کی رقم پیداواری سرگرمیوں میں لگانے کی بجائے عیاشیوں اور بیرون ملک اثاثے بنانے کیلئے استعمال کرتے ہیں، نتیجے میں عوام کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے اورحکومت دوبارہ کشکول لے کر آئی ایم ایف کے پاس پہنچ جاتی ہے۔ آج پاکستان کے حالات دیکھ کردل خون کے آنسو روتا ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، لوگوں کی قوتِ خرید دم توڑتی جارہی ہے، ڈالر اور پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمت سے عام آدمی شدید پریشان ہے لیکن ہمارا خودغرض طبقہ اشرافیہ صرف اور صرف اپنے مفادات کو مقدم رکھتا ہے اور ایسے کسی قابل پاکستانی کو آگے نہیں آنے دیتا جو ملک و قوم کو مسائل کے منجدھار سے نکالنے کی اہلیت رکھتا ہو، ضرورت اس امر کی ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کا درست استعمال کیا جائے، اگر ملک بھر میں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے، ایکسپورٹس میں اضافے بالخصوص آئی ٹی اور سیاحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دی جائے تو آئی ایم ایف سمیت تمام بیرونی قرضے اتارے جا سکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں 00923004647998)