• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روضۂ حضرت عباس علمدارؓ کی اندرونی عکس بندی
روضۂ حضرت عباس علمدارؓ کی اندرونی عکس بندی

یہ ایک روشن، ابدی حقیقت ہے کہ حق اور باطل، اسلام اور کُفر کی معرکہ آرائی روزِ اوّل سے جاری ہے اور روزِ آخر تک جاری رہے گی۔ حق کی بقا، اسلام کی سربلندی اور بالادستی، اعلیٰ انسانی اقدار کا تحفّظ، قدرت کا اٹل اور ابدی فیصلہ ہے، جب کہ طاغوتی اور ابلیسی قوّتوں کی سرکوبی اور ان کا زوال بھی آئینِ فطرت ہے، حق کی سربلندی اور دین کی عظمت و بقا کے لیے جدوجہد اور جہاد اسوۂ پیمبری اور انسانی ضمیر کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔ اس حوالے سے کیا خُوب کہا گیا ہے:

آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بےباکی

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

محسنِ انسانیت، ختمی مرتبت، سرورِ کائنات، حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے، ’’سلطانِ جائر (ظالم و جابر بادشاہ اور اِن اوصاف کے حامل حاکمِ وقت) کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنا سب سے بڑا جہاد ہے۔‘‘ (نسائی، ترمذی)

مستند تاریخی روایات کے مطابق رجب 60ھ/ 680ء میں یزید نے اسلامی اقدار اور دینِ مبین کی روح کے منافی ظلم و جبر اور استبداد پر مبنی اپنی حکومت کا اعلان کیا، بالجبر عام مسلمانوں کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا گیا، مدینۂ منوّرہ میں ایک مختصر حُکم نامہ ارسال کیا گیا، جس میں تحریر تھا:’’حسینؓ، عبداللہ بن عُمرؓ اور عبداللہ بن زبیرؓ کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا جائے، اس معاملے میں پوری سختی سے کام لیا جائے، یہاں تک کہ یہ بیعت کرلیں۔‘‘ (ابنِ اثیر/ الکامل فی التاریخ3 /263)۔

کربلائے معلّٰی میںروضۂ امام حسینؓ کا اندرونی حصّہ
کربلائے معلّٰی میںروضۂ امام حسینؓ کا اندرونی حصّہ 

بعد ازاں، دیکھنے والوں نے دیکھا اور تاریخ نےاپنے اوراق میں جرأتِ اظہار، حق گوئی، بےباکی، اعلائے کلمۃ اللہ اور شریعت ِمصطفیٰؐ کے تحفّظ اور بقا کےلیے نواسۂ رسولؐ، جگر گوشۂ علیؓ و بتولؓ، سرکارِ دوجہاںؐ کے نورِنظر، جوانانِ جنّت کے رہبر، شہیدِ کربلا، سیّدنا حسینؓ ابنِ علیؓ ہاشمی و مطلبی نے، جن کی ذاتِ گرامی اسلامی تاریخ میں حق و صداقت، جرأت و شجاعت، عزم و استقلال، ایمان و عمل، ایثار و قربانی، تسلیم و رضا، اطاعتِ ربّانی، عشق و وفا اور صبرو رضا کا بنیادی حوالہ ہے، اپنے جدِّ اعلیٰ حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ اور اپنے نانا امام الانبیاء حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ کی اتباع میں سلطانِ جائر، حاکمِ وقت یزید کے خلاف جرأتِ اظہار اور اعلانِ جہاد بلند کرتے ہوئے اسوۂ پیمبری پر عمل کیا، اُمّتِ مسلمہ کو حق و صداقت اور دین پر مَرمٹنے کا درس دیا، خلقِ خدا پر اپنے ظالمانہ قوانین کی پیروی کا حکم دینے اور محرماتِ الٰہی کو توڑنے والی حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے ببانگِ دہل فرمایا، ’’لوگو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم، محرماتِ الٰہی کوحلال کرنےوالے، اللہ کے عہد کو توڑنے والے، اللہ کے بندوں پر گناہ اور ظلم و زیادتی کےساتھ حکومت کرنےوالے بادشاہ کو دیکھا اور قولاًو عملاً اُسے بدلنے کی کوشش نہ کی، تو اللہ تعالیٰ کو یہ حق ہے کہ اُس شخص کو اُس ظالم بادشاہ کی جگہ دوزخ میں داخل کردے۔

دریائے فرات کی ایک تصویر، شہدائے کربلاؓ اسی کے کنارے خیمہ زن ہوئے تھے
دریائے فرات کی ایک تصویر، شہدائے کربلاؓ اسی کے کنارے خیمہ زن ہوئے تھے

 آگاہ ہوجائو، اِن لوگوں نے شیطان کی حکومت قبول کرلی ہے اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑ دی ہے، مُلک میں فساد پھیلایا اور حدوداللہ کو معطّل کردیا ہے، یہ مالِ غنیمت سے اپنا حصّہ زیادہ لیتے ہیں، انہوں نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کردیا ہے اور حلال کردہ چیزوں کو حرام کر دیا ہے، اس لیے مجھے اس کے بدلنے کا حق ہے۔‘‘ (ابنِ اثیر/الکامل فی التاریخ 4/40)

یہی وہ سب سے بڑا جہاد اور دینی فریضہ تھا، جس کی ادائی کے لیے نواسۂ رسولؐ، سیّدنا حسینؓ ابنِ علیؓ فرمانِ نبویؐ اور اسوۂ پیمبریؐ کی پیروی میں وقت کے سلطانِ جائر، یزید کے خلاف ریگ زارِ کرب و بلا میں72 نفوس قدسیہ کےساتھ داخل ہوئے اور میدانِ کربلا میں حق و صداقت اور جرأت و شجاعت کی وہ بےمثال تاریخ رقم کی، جس پر انسانیت ہمیشہ فخر کرتی رہے گی، حق کے متوالے اور ظالم و جابر قوّتوں کے خلاف صف آراء مردانِ حُر اورشہہ سوارانِ حق اس راستے پر ہمیشہ چلتے رہیں گے۔

دخترِ حسینؓ بی بی سکینہؓ کے روضے کے اندر کا منظر
 دخترِ حسینؓ بی بی سکینہؓ کے روضے کے اندر کا منظر 

یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخِ انسانی کی دو قربانیاں پوری تاریخ میں منفرد مقام اور نہایت عظمت و اہمیت کی حامل ہیں، ایک امام الانبیاء، سیّدالمرسلین، خاتم النبیین حضرت محمّد مصطفی، احمدِ مجتبیٰ ﷺ کے جدِ اعلیٰ، حضرت ابراہیمؑ و اسمٰعیلؑ کی قربانی اور دوسری نواسۂ رسولؐ، جگرگوشۂ علیؓ و بتولؓ شہیدِ کربلا، حضرت امام حسینؓ کی قربانی۔ دونوں قربانیوں کا پس منظر غیبی اشارہ اور ایک خواب تھا، دونوں نے سرتسلیم جُھکا دیا اور یوں خواب کی تعبیر میں ایک عظیم قربانی وجود میں آئی۔

روایت کے مطابق جب سیّدنا حسین ابنِ علیؓ اپنے جاں نثاروں کے ساتھ کربلا کی جانب روانہ ہوئے اور روکنے والوں نے آپ کو روکنا چاہا، تو آپ نے تمام باتوں کے جواب میں فرمایا،’’مَیں نے(اپنے نانا) رسول اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے، آپؐ نے تاکید کے ساتھ مجھے ایک کام کا حُکم دیا ہے، اب مَیں بہرصُورت یہ کام کروں گا، خواہ مجھے نقصان ہو یا فائدہ۔‘‘ پوچھنے والے نے پوچھا کہ ’’وہ خواب کیا ہے؟‘‘

کربلائے معلّٰی میں حضرت عبّاس علم دارؓکے روضے کا بیرونی منظر
کربلائے معلّٰی میں حضرت عبّاس علم دارؓ
کے روضے کا بیرونی منظر 

آپؓ نے فرمایا، ’’ابھی تک کسی کو نہیں بتایا، نہ بتائوں گا، یہاں تک کہ اپنے پروردگار عزّوجل سے جا ملوں گا۔‘‘ (ابنِ جریر طبری 5/388، ابن کثیر/ البدایہ والنہایہ 8/168، بحوالہ امام حسینؓ اور واقعۂ کربلا، ص 70)۔ امام حسینؓ اور واقعۂ کربلا کے مؤلف کیا خُوب لکھتے ہیں،’’ابراہیمؑ کے خواب کی تعبیر دس ذی الحجہ کو پوری ہوئی اور سیّدنا حسینؓ کا خواب دس محرم 61ھ کو تعبیر آشنا ہوا، دونوں خوابوں کی تعبیر قربانی تھی، دس ذی الحجہ کو منیٰ میں یہ خواب اپنے ظاہر میں رُونما ہوا اور دس محرم کو سرزمینِ کربلا پر اپنی باطنی حقیقت کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔ یوں باپ نے جس طرزِ قربانی کا آغاز کیا تھا، تسلیم و رضا اور صبر و وفا کے پیکر، فرزند نے پوری تابانیوں کے ساتھ اس عظیم سنّت کو مکمل کیا۔ حضرت اسماعیلؑ سے جس سنّت کی ابتدا ہوئی تھی، سیّدنا حسینؓ پر اس کی انتہا ہوئی۔‘‘

سیّدنا ابراہیمؑ و اسماعیلؑ اور حضرت حسینؓ کی قربانیوں میں یہی جذبۂ عشق و محبت کارفرما تھا۔ اسی لیے یہ قربانیاں آج تک زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گی۔شہدائے کربلاؓ کے قافلہ سالار امام حسینؓ اور ان کے رفقاء معرکۂ حق و باطل، اعلیٰ انسانی اقدار کی بقا میں حق و صداقت اور جرأت و شجاعت کا علَم بلند کیے اپنے رب کی رضا، اعلیٰ انسانی اقدار کی بقا، دینِ مبین کی سربلندی اور شریعتِ مصطفٰیؐ کے تحفّظ کے لیے ریگ زارِ کرب و بلا میں جرأت و استقامت کی بے مثال تاریخ رقم کرکے یہ پیغام دے گئے کہ:

شدیم خاک و لیکن زبوئے تربتِ ما

تواں شناخت کزیں خاکِ مردمی خیزد

ہم خاک ہوگئے، لیکن ہماری تربت کی خُوش بو سے ہمیں پہچانا جاسکتا ہے کہ اس خاک سے بھی مردانگی پُھوٹ رہی ہے۔ کسی نے کیا خُوب کہا ہے کہ: ’’شہیدانِ حق کی دنیا میں نواسۂ رسول سیّدنا حسینؓ ابنِ علیؓ کا مقام بہت ہی بلند ہے۔ کسی نے حق کی خاطر خود زہر کا پیالہ پی لیا، کوئی قید و بند کی سختیاں زندگی بھر جھیلتا رہا، کوئی تنہا پھانسی پر لٹک گیا، مگر حسینؓ کا معاملہ ان سب سے مختلف ہے، آپؓ نے اپنے گھرانے کا ایک ایک فرد اپنی آنکھوں کے سامنے کٹوا دیا، اپنے جگر گوشوں کے لاشے خاک و خون میں تڑپتےدیکھے، پیاسی اور بلکتی ہوئی بچیّوں کی صدائیں ان کے سامعہ سے ٹکرا رہی تھیں، مگر وہ صبرو ضبط کا پیکر، وہ ثبات اور استقلال کا ہمالیہ، وہ جرأت و استقامت کا کوہِ گراں، وہ حق و صداقت کا علَم بردار، وہ عزت و ناموس کا سراپا دشمن اور اس کے باطل عزائم کے سامنے گردن جُھکانے پر آمادہ نہ ہوا۔ وہ دشمنوں کے جمِ غفیر میں تنہا رہ گیا، مگر اس کے صبر و وقار کا دامنِ پیکر بےداغ رہا۔ وہ دشمنوں کی صفوں پر ٹوٹ پڑا اور بےجگری سے لڑتا ہوا شہید ہوا۔ اُس نے حق کے لیے جینے اور حق کے لیے مرنے کی عظیم تاریخ رقم کی۔ ’’فی مقعدِ صدقٍ عندَ ملیکٍ مُقتدر‘‘ بلاشبہ، بادشاہِ ذی اقتدار کےدربار میں آپ بلند مقام پر فائز ہوئے۔

دمشق میں واقع روضۂ حضرت بی بی زینبؓ
دمشق میں واقع روضۂ حضرت بی بی زینبؓ 

کربلا کے قافلہ سالار، حسینؓ ابنِ علیؓ اور دیگر شہدائے کربلاؓ نے راہِ حق میں اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے جرأتِ اظہار کا حوصلہ اور باطل کے خلاف احتجاج اور جہاد کا سلیقہ اور ولولہ عطا کیا۔ سیّدنا حسینؓ ابن علیؓ کی صدائے حق نے مظلوم انسانیت کو ظالمانہ نظام کے خاتمے اور ظلم و جبر کے خلاف ڈٹ جانے کا حوصلہ اور حق نوائی کا بے مثال درس دیا۔

آپؓ نے اپنے کردار و عمل سےثابت کردیا کہ حق کی آواز کو بلند کرنا، انسانی اقدار کا تحفّظ اور دین کی سربلندی اسوۂ پیمبری اور شیوۂ شبّیری ہے۔ شہدائے کربلاؓ نے راہِ حق میں تسلیم و رضا، صبر و وفا، اطاعتِ ربّانی اور ایثار و قربانی کا لازوال درس دیا۔ نواسۂ رسولؐ، سیّدنا حسینؓ ابنِ علیؓ کی یہی وہ بےمثال قربانی اور کعبۃ اللہ کی عظمت و حُرمت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے کا عظیم جذبہ اور داستانِ حرم ہے، جس کے متعلق شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے کہا تھا:

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم

نہایت اس کی حُسینؓ، ابتدا ہے اسماعیلؑ

علّامہ محمّد اقبال آپ کے حضور خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا خُوب کہتے ہیں:

موسیٰؑ و فرعون و شبیرؓ و یزید

ایں دو قوت از حیات آید پدید

زندہ حق از قوتِ شبّیری است

باطل آخر داغِ حسرت میری است

تا قیامت قطع استبداد کرد

موجِ خونِ اُو چمن ایجاد کرد

بہرِ حق در خاک و خوں غلطیدہ است

پس بنائے لا الٰہ گردیدہ است

نقشِ الّا اللہ بر صحرا نوشت

سطرِ عنوانِ نجاتِ مانوشت

موسیٰؑ اور فرعون، حسینؓ اور یزید

حق اور باطل کی یہ دو قوّتیں زندگی سے رُونما ہوتی رہتی ہیں، مگر حق ہمیشہ قوتِ حسینی ہی سے زندہ ہے اور باطل آخر کار داغ حسرت لے کر مَر جاتا ہے۔ اس نے قیامت تک کے لیے جبر و استبداد کو فنا کردیا۔ اس کے خون کی ایک موج نے گلستاں پیدا کردیے۔ وہ صرف قیام و استحکامِ حق کے لیے شہید ہوا ہے اور اِسی لیے اُس کی ہستی توحید کی بنیاد ہوگئی۔ اُس نے سینۂ صحرا پر توحید کا نقش ثبت کیا اور گویا ہماری بخشش اور نجات کی سطر لکھ دی۔