• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ مَیں واپس آؤں گا‘‘وزیرِاعظم ،بورس جانسن کے یہ وہ آخری الفاظ تھے، جو اُنہوں نے پارلیمان سے الوداعی خطاب میں کہے۔ اِس سے پہلے وہ کنزر ویٹو پارٹی کی سربراہی سے استعفے کا اعلان کر چکے تھے۔ جانسن کے یہ الفاظ مشہور انگریزی فلم’’ٹرمینیٹر‘‘ کے ہیں، جو اُس کے ہیرو نے ایک خاص جذباتی منظر میں ہیروئین سے جُدا ہوتے وقت کہے تھے۔فلم میں تو ہیرو کی واپسی ہوگئی اور وہ اپنے حریفوں کو شکست دینے میں کام یاب رہا،تاہم، دیکھنا یہ ہے کہ کیا بورس جانسن بھی ایسا کچھ کر پائیں گے؟ ویسے یہ کوئی اَن ہونی بات بھی نہیں، کیوں کہ سر ونسٹن چرچل بھی شکست کے بعد دوبارہ اقتدار میں آئے تھے۔

اِس وقت برطانیہ کی صُورتِ حال یہ ہے کہ بورس جانسن نگران وزیرِ اعظم ہیں اور اُن کی کنزرویٹو پارٹی، جس کی ایوان میں بھاری اکثریت ہے، اپنا نیا پارلیمانی لیڈر چُننے میں مصروف ہے، جو برطانیہ کا اگلا وزیرِ اعظم ہوگا۔اِس عُہدے کے لیے پارٹی میں سے دو نام سامنے آئے ہیں۔رشی سوناک اور لز ٹرس۔ دونوں بورس جانسن کے قریبی ساتھی رہے، لیکن اب وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے اپنی وزارتوں سے مستعفی ہوگئے ہیں۔رشی سوناک وزیرِ خزانہ، جب کہ لز ٹرس وزیرِ خارجہ تھیں۔ بورس جانسن چھے سال میں تیسرے وزیرِ اعظم ہیں، جو اپنے عُہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ اُن سے پہلے بھی دونوں وزرائے اعظم کا تعلق ٹوری پارٹی سے تھا۔

ٹوری پارٹی مسلسل بارہ سال سے اقتدار میں ہے۔ ہر انتخابات میں اس کی پوزیشن پہلے سے بہتر ہوجاتی ہے اور اس کی حریف جماعت، لیبر پارٹی بار بار شکست کھا کر کم زور ہوتی جا رہی ہے۔بریگزٹ،یعنی یورپ سے علیٰحدگی کا ریفرنڈم بھی اِسی پارٹی کے دَور میں ہوا۔ اُس وقت ڈیوڈ کیمرون جیسے مقبول کنزریٹو لیڈر وزیرِ اعظم تھے، جو بریگزٹ ریفرنڈم میں شکست کے بعد خاموشی سے گھر چلے گئے اور اس علیٰحدگی کا ڈراپ سین بھی گزشہ سال اِسی پارٹی کے دَور میں ہوا، جب برسلز میں یورپی یونین کے ہیڈ کوراٹر سے برطانیہ کا جھنڈا اُتارا گیا۔ چھے سال میں تین مقبول اور تجربہ کار وزرائے اعظم کے آنے جانے سے کئی سوالات سامنے آتے ہیں۔

مثلاً کیا برطانوی عوام میں کوئی بے چینی ہے، جو ختم ہی نہیں ہوپا رہی، وہاں کی سیاست غیر مستحکم ہو چُکی ہے، کوئی بحرانی کیفیت ہے، وزرائے اعظم نا اہل ہیں، عوام حکم ران جماعت سے بے زار ہیں، برطانیہ کسی معاشی بحران کی زَد میں ہے، جسے سیاسی رہنما سنبھال نہیں پارہے یا پھر کوئی بیرونی سازش ہورہی ہے، جس نے مُلک کی سیاست میں بھونچال برپا کر رکھا ہے۔

وزیرِ اعظم بورس جانسن کو استعفا کیوں دینا پڑا، حالاں کہ وہ تو ایک مقبول لیڈر تھے۔ لندن کے دو مرتبہ مئیر رہے۔بریگزٹ انہی کے ہاتھوں انجام کو پہنچا۔کورونا سے کام یاب حکمتِ عملی کے تحت نبرد آزما ہوئے اور ویکسین بنانے میں کام یاب رہے،جس سے دنیا بھر کے کروڑوں افراد مستفید ہوئے۔وہ کنزر ویٹو پارٹی کے سربراہ تھے۔ تاہم، پارٹی کے 358ارکان میں سے148 اُن کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک لے آئے۔اس عدم اعتماد کی وجہ کوئی سیاسی، مالیاتی یا سازشی ایشو نہیں تھا،بلکہ بات ایک اخلاقی معاملے کے سبب یہاں تک پہنچی۔

دراصل، بورس جانسن نے کورونا لاک ڈائون کے دَوران اپنی سرکاری رہائش گاہ، ٹین ڈائوننگ اسٹریٹ پر ایک ڈنر پا رٹی دی، حالاں کہ لاک ڈائون میں لوگوں کے اجتماع پر مکمل پابندی تھی۔ پہلے تو جانسن اور اُن کے ہم خیال ارکان نے اِس الزام کو جھٹلایا، تاہم جب بات زیادہ بڑھی، تو معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ ہوا۔ بعدازاں، ایک سرکاری کمیشن کی پیش کردہ رپورٹ میں ثابت ہوگیا کہ وزیرِ اعظم جانسن نے واقعی پارٹی دی تھی، جو لاک ڈائون کی خلاف ورزی تھی، جسے خود اُن کی حکومت نے لگایا تھا۔ بورس جانسن نے نہ صرف اِس غلطی کا اعتراف کیا بلکہ اس پر بَھرے ایوان میں معافی بھی مانگی۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگئی اور وزیرِ اعظم جیت گئے،کیوں کہ اُن کے حق میں211 ووٹ پڑے، جو تقریباً ساٹھ فی صد تھے، جب کہ اُنہیں پچاس فی صد ووٹس درکار تھے۔قانونی طور پر اب ایک سال تک اُن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نہیں آسکتی، لیکن پارٹی کا کہنا تھا کہ148 ارکان جانسن کی مخالفت کر رہے ہیں،جو ایک بڑی تعداد ہے،لہٰذا، اُنھیں عُہدے سے مستعفی ہوجانا چاہیے۔ اِس معاملے پر پارلیمان میں بحث مباحثہ ہوتا رہا،جس کے دوران کسی کو غدّار، نااہل، لوٹا، چور یا سازشی قرار نہیں دیا گیا۔ جلسے جلوس ہوئے اور نہ ہی ضمنی انتخابات۔

مُلکی معاملات معمول کے مطابق چلتے رہے۔اِن دنوں دنیا کے دیگر ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی شدید منہگائی ہے،جس سے عوام پریشان ہیں،پھر یوکرین جنگ بھی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے، لیکن باغی ارکان کی توجّہ صرف اِسی اخلاقی جرم کی طرف رہی۔ کئی وزرا کابینہ سے مستعفی ہوگئے، جن میں وزارتِ عظمیٰ کے دونوں امیدوار رشی سوناک اور لز ٹرس بھی شامل تھے۔ آخر کار بورس جانسن نے جمہوری روایات برقرار رکھتے ہوئے عُہدے سے استعفا دے دیا۔ آپ حیران ہوں گے کہ اِس پورے عمل میں کسی نے مخالفین کو گالیاں بکیں ،نہ ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑے۔

کسی نے عدالت جانے کا سوچا اور نہ ہی برطانوی عوام کو مقدمے بازی کی کہانیاں سُننے کے لیے سارا سارا دن ٹی وی چینلز کے سامنے بیٹھنا پڑا۔ جیت کے جشن منائے گئے اور نہ ہار پر ماتم ہوا۔گو کہ بورس جانسن کے پاس عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے بعد ایک سال تک عُہدے پر رہنے کا قانونی جواز موجود تھا، لیکن وہ ایک مہینے میں استعفا دے کر گھر چلے گئے۔ جمہوریت میں پارلیمان کی بالادستی اور منتخب نمایندوں پر عوام کے اعتماد اور یقین کی اِس سے بہتر مثال موجودہ حالات میں شاید ہی کہیں ملے۔

یہ کہنا تو مشکل ہوگا کہ برطانیہ کے اعلیٰ ترین عُہدے کے لیے کون سا امیدوار کام یاب ہوگا، لیکن طے ہے کہ یہ حکم ران پارٹی ہی کا رُکن ہوگا۔کہا جاسکتا ہے کہ عوام کو حکم ران پارٹی یا اس کی پالیسیز سے کوئی اختلاف نہیں،وہ تو صرف بورس جانسن کو اُن کی اخلاقی غلطی کی سزا دینا چاہتے تھے۔ سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں نے سیاسی جماعتوں کو پارلیمان ہی میں فیصلہ کرنے کا موقع دیا۔ہمارے ہاں بورس جانسن جیسے اقدام کو ذاتی فعل کہہ کر بات ختم کردی جاتی، لیکن برطانیہ میں عوام اور پارٹی اِس طرح کے جواز قبول کرنے پر تیار نہیں اور وہ اپنے وزیرِ اعظم کی ذاتی غلطی کو، جس پر وہ معذرت بھی کر چکے ہیں، معاف کرنے پر آمادہ نہیں۔

معافی مانگنا اچھی بات ہے، لیکن اس سے غلطی یا جرم ختم نہیں ہوتا، اس کی سزا ضروری ہے۔ہمارے مُلک میں تو یہ کہہ کر معاملہ ختم کردیا جاتا ہے کہ غلطی تسلیم کرنا بڑے حوصلے کا کام ہے یا یہ اس کا ذاتی فعل ہے،بس معاف کردو۔یہ کہنے والے بقراطوں کی بھی قطار لگ جاتی ہے کہ وزیرِ اعظم کو صرف اُن کے سرکاری کام ہی پر سزا دی جائے، باقی سب معاف ہونا چاہیے۔ وہ زندگی میں کچھ بھی کرتے رہیں۔

وزارتِ عظمیٰ کے امیدواروں میں سے رشی سوناک ایک پنجابی ہندو خاندان کے فرد ہیں،جو جنوبی افریقا سے آکر برطانیہ میں آباد ہوئے۔سوناک اعلیٰ تعلیم یافتہ سیاست دان ہیں۔ آکسفورڈ اور امریکا سے تعلیم حاصل کی۔اُن کی اہلیہ، اکسیا مورتی بھی اعلیٰ تعلیمی بیک گرائونڈ کی حامل ہیں اور برطانیہ کے ارب پتی تاجر، نریانا مورتی کی صاحب زادی ہیں۔

خود رشی سوناک اور اکشا کا بھی برطانیہ کے 200 ارب پتی خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔اُن کی دولت 730 ملین پائونڈ سے زاید بتائی جاتی ہے۔اگر سوناک برطانیہ کے وزیرِ اعظم منتخب ہوجاتے ہیں، تو وہ اِس عُہدے تک پہنچنے والے پہلے ہندو اور غیر برطانوی ہوں گے۔یاد رہے، کملا ہیرس، جو ایک امریکن ہندو ہیں، اِس وقت امریکا کی نائب صدر ہیں۔ اگر امریکا کے صدر کسی وجہ سے اپنے فرائض ادا کرنے کے قابل نہ رہیں،تو وہ قائم مقام صدر ہوں گی۔اِس سیاسی منظرنامے میں ہمارے لیے کئی پیغامات موجود ہیں۔برطانیہ میں12 لاکھ سے زاید پاکستانی آباد ہیں۔

گو کہ ایک پاکستانی نژاد اِن دنوں لندن کے میئر ہیں، جو یقیناً ہمارے لیے خوشی کی بات ہے، لیکن قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ بھارت کا برطانیہ میں اندازِ سیاست کیا ہے؟ کیا وہ بھارت کی اندرونی سیاست برطانیہ میں لے آئے، کیا مُلک کی بڑی سیاسی جماعتیں اور اُن کے رہنما وہاں کے بھارتی نژاد باشندوں کو اپنی جماعتی سرگرمیوں اور مخالف رہنماؤں کو رسوا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، یا برطانوی ہندو اعلیٰ ترین عُہدوں اور دولت مندوں کی فہرست میں شمار ہونے پر توجّہ دے رہے ہیں۔ یاد رہے، بھارت میں دُہری شہریت کی ممانعت ہے۔

ہمارے ہاں برطانیہ میں کاروبار کرنے والوں کو بُرا بھلا کہنا عام بات ہے،تو کیا ہم سمجھتے ہیں کہ صرف پس ماندہ پاکستانی یا کھلاڑی ہی ہمارے مُلک کے نمائندے ہوسکتے ہیں۔ اگر وہ وہاں تجارت کریں یا اعلیٰ عُہدوں پر فائز ہوجائیں، تو یہ ناقابلِ معافی گناہ ہے؟ہم وطنوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ اپنے مُلک کی سیاست اور جمہوریت کا جو ملیدہ بنایا گیا ہے، کیا وہ خود اُن کے لیے فائدہ مند ہے؟جو پاکستانی بیرونِ ممالک آباد ہیں، اُنہیں اُن ممالک میں نام روشن کرنے کی بجائے اپنی گھٹیا سیاست میں گھسیٹ لیا گیاہے۔کاش !یہ پاکستانی اِس فریب سے باہر نکل کر دیکھ سکیں کہ اُن کے اردگرد دوسری کمیونٹی کس طرح ہر شعبے میں ترقّی کر رہی ہے۔

کل برطانیہ، ہندوستان پر حکومت کرتا تھا، عین ممکن ہے کہ اب کوئی بھارتی برطانیہ کا حکم ران بن جائے۔ اِن حقائق کو سامنے لانے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں کوئی نیا محاذ کھول لیں،درحقیقت اُن کے سامنے سب سے بڑا محاذ تو خود اپنی کمیونٹی کی پس ماندگی دُور کرنا اور وہاں یک جہتی پیدا کرنا ہے۔ اپنا امیج بہتر کرنا ہے۔ جس ملک کو اپنا مستقبل مانا ہے ،اس کے ہر شعبے میں بھرپور کارکردگی دِکھانا ہے۔ اُنہیں برطانوی شہریوں کی طرح کی سوچ پیدا کرنا ہوگی۔ ہر وقت احتجاج کے موڈ میں رہنا کوئی اچھی حکمتِ عملی نہیں۔ اس سے اُن کی توانائی ضائع ہوگی اور وہاں کی نوجوان نسل کی منزل بھی کھوٹی ہوگی۔

ہم نے مضمون کے آغاز میں برطانیہ سے متعلق چند سوالات رکھے تھے، جن کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ کیا برطانیہ کسی بڑے بحران کا شکار ہے، جس کی وجہ سے مسلسل وزرائے اعظم تبدیل ہو رہے ہیں۔ایسا بالکل نہیں ہے۔یہ ضرور ہے کہ برطانیہ نے بھی باقی دنیا کی طرح کووِڈ کے ہاتھوں نقصانات اُٹھائے اور اس کی معیشت شدید دباؤ میں ہے۔ وہاں کے عوام کو منہگائی کا سامنا ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ ان کا نظامِ حکم رانی، سیاسی جماعتیں اور انتظامی معاملات نہ صرف اُن کے مکمل کنٹرول میں ہیں، بلکہ مناسب طریقے سے چل بھی رہے ہیں۔وہاں کسی کو کسی ادارے کے حد سے تجاوز یا دخل اندازی کی کوئی شکایت نہیں۔

پارلیمان سپریم ہے اور سیاسی جماعتیں قائدانہ کردار انجام دے رہی ہیں۔برطانیہ کا گزشتہ چھے سال میں سب سے بڑا مسئلہ بریگزٹ تھا،جسے پُرامن سیاسی طریقے سے حل کرلیا گیا۔یاد رہے،اس معاملے میں ایک طرف یورپی یونین کے 28 ممالک اور دوسری طرف اکیلا برطانیہ تھا۔جس طرح یورپی یونین کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر معاملہ حل ہوا، یہ برطانیہ کی سیاسی قیادت کی بصیرت کی دلیل ہے۔ وہ بریگزٹ کر گئے اور یورپ کا حصّہ بھی ہیں۔ یوکرین کی جنگ میں جس طرح اُنہوں نے روس کے خلاف یورپ اور امریکا کا ساتھ دیا، وہ اس کا بہترین ثبوت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اُنہیں اور عوام کو واضح طور پر پتا ہے کہ اُن کی سمت کیا ہے۔

برطانیہ نے بریگزٹ اِس لیے کیا تھا کہ وہ اپنی اقتصادی طاقت کو یورپ سے الگ کرکے آزمانا چاہتا تھا۔ اُس کے عوام کا خیال تھا کہ یورپ کے پس ماندہ ممالک کے لوگ اس کی اکانومی پر بوجھ بن گئے ہیں۔ برطانیہ، تارکینِ وطن اب صرف اس حد تک قبول کرنا چاہتا ہے، جو اس کی معیشت میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اِسی لیے کنزر ویٹو پارٹی کے دونوں امیدوار اسی نکتے پر اپنی پالیسی عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ ماضی میں کیا ہوا، یہ ان کا موضوع نہیں، مستقبل میں کیسے ترقّی ہوگی، ان کا اصل ہدف یہ ہے۔ اس پر پالیسی پر اختلافات کے باوجود تمام رہنما اور جماعتیں متفّق ہیں۔