• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بارش سے بپھرے ہوئے برساتی نالوں اور شاہراہوں پر ’ڈوبتے تیرتے ‘کراچی کے عوام کوقومی اسمبلی کی نشست پر27جولائی کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں ووٹ کے حق کے استعمال سے روکتے ہوئے آئندہ تاریخ انعقاد تک انتظار کا ٹکٹ تھمادیا گیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن نے صوبہ سندھ کے 16اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات بھی ملتوی کردئیے ہیں ۔ ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق بارشوں کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات ملتوی کئے ہیں جبکہ ایک وجہ ماہ محرم الحرام کوبھی قراردیا گیا ہے ۔ بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے تمام انتظامات مکمل کرلئے گئے تھے جبکہ بیلٹ پیپرز اور دیگر انتخابی سامان کی بھی متعلقہ علاقوں میں ترسیل کی جا چکی تھی اور اسی روز الیکشن کمیشن کی جانب سے فوج اور رینجرز کو پولنگ کے دن قیام امن کیلئے خصوصی اختیارات بھی تفویض کردئیے گئے تھے۔ سندھ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے انتخابات اگست کے آخر میں ہوں گے۔بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ اسٹیک ہولڈرز متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، چیف سیکرٹری، جی ڈی اے اور صوبائی الیکشن کمشنرکی درخواست پرکیا جس کے مطابق سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ اب 28اگست 2022ءکو ہوگا ،جب کہ این اے 245کا ضمنی انتخاب 21اگست کو ہو گا ۔ دوسرے مرحلے میں کراچی اور حیدرآباد ڈویژن کے 16 اضلاع میں انتخابات ہونے تھے اوراس حوالے سے سندھ میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کی سمری چیف سیکرٹری سندھ نے الیکشن کمیشن کو بھیجی تھی ،مراسلے میں کہا تھا کہ سندھ میں 22 جولائی سے شدید بارشوں کا امکان ہے۔ دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات 24 جولائی کو شیڈول تھے۔ جب کسی بھی حلقے میں انتخاب کرانے کا فیصلہ کیا جاتاہےخواہ وہ قومی ہوں صوبائی یا بلدیاتی الیکشن تو تاریخیں طے کرتے وقت موسم کی صورتحال بھی دیکھی جاتی ہے اور دیگر اسلامی ایام، تہوار اور تعطیلات بھی لیکن اس بار کیا ہوا کہ الیکشن شیڈول دینے اور ساری تیاریاں مکمل کرنے کے بعد بھی عذر لنگ گھڑا گیا ہے ۔قوم کے بیس کروڑ روپے پھونک دیئے گئے لیکن نہ کوئی افسوس اور نہ معذرت ؟ سا رے انتظامات مکمل تھے پھر اسٹیک ہولڈرز کی درخواستوں کو بنیاد بناکر ان انتخابات کا التواقومی خزانے پر ڈاکہ نہیں تو اور کیا ہے ؟کیاکوئی قوت ،کوئی اتھارٹی یہ بیس کروڑ روپے ان لوگوں سے لے گی ؟۔ اب جب دوبارہ ضمنی الیکشن ہوگا اور بلدیاتی الیکشن ہونگے تو ایک بار پھر قومی خزانے سے بیس پچیس کروڑ روپے خرچ کئے جائیں گے اس کا ذمہ دار کون ہوگا ؟۔اس جمہوری ریاست میں سرکاری وسائل جو عوام کا پیٹ کاٹ کر ٹیکسوں کی صورت میں اکھٹے کئے جاتے ہیں ان کا ضیاع روکا جائے گا ؟ سخت حیرت ہوتی ہے ہمارے پالیسی سازوں پر ،اقتدار کو قوم کی امانت قرار دینے کا ڈھونگ رچانے والوں پر ۔

ہو ا کیا ہے سمجھ لیجئے۔ پیپلز پارٹی بلا شرکت غیرے کئی دہائیوں سے سندھ کے عوام کی زبردست خدمت کرتی چلی آرہی ہے ،شک تھاکہ کہیں کراچی کی نظامت کا تاج نہ چھن جائے، التواکی درخواست دےدی ،ایم کیو ایم کراچی کو اپنی سلطنت سمجھتی ہے۔ ماضی میں ان کا دبدبہ تھا آج نہیں رہا تو کیا ہوا ۔ خدمت کا جذبہ تو ہے، سو وہ میئر شپ کا تاج اپنے سر سجانا چاہتی ہے ، جماعت اسلامی بھی حاجی نعمت اللہ خان کی بے مثل خدمت کا تسلسل آگے بڑھانے کیلئے اس کی متمنی تھی ،ن لیگ اور پی ٹی آئی تو کسی کھاتے میں نہیں ۔ دینی جماعتیں بھی خال خال ہی اس طرف نظریں جماتیں کہ عددی اکثریت ملنے کا دور دور تک امکان نہ تھا نہ ہی ہوسکتا ہے کیونکہ عوام پی پی پی ،ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کی طرف ہی راغب ہیں ،دیگر جماعتیں’ شریک ِفیصلہ‘ تو ہوسکتی ہیں فی الوقت فیصلہ ساز قوت نہیں ۔

دراصل بلدیاتی ادارے کسی بھی سیاسی جماعت کی عوام میں مقبولیت کا گراف بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔ ماضی قریب میں جب دورِ مشرف تھا تو کسی بھی ضلع کی نظامت دراصل وزارتِ اعلیٰ سے بھی بڑا عہدہ تصور کیاجاتا تھا ۔ بڑے بڑے نامور سیاستدان ایم پی اے،ایم این اے بننے کی بجائے ضلعی ناظم بننے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کرتے تھے اس عہدے کی برکات ہی اس قدر زیادہ تھیں کہ ایم این اے اور اور ایم پی اے بھی ملاقات کیلئے منتظر باریابی رہا کرتے تھے ، پھر اس نظام کو نظر لگ گئی ۔پرانا نظام پھر آگیا ،اقتدار نچلی سطح تک منتقل کرنے کا یہ تجربہ بھی ناکام رہا ۔ایوب دور میں بی ڈی ممبرز کا کیا کروفر اور شان ہوتی تھی ،ضیاءالحق کے دورِ مارشل لامیں بھی میئر شہر کےوزیر اعلیٰ کی طرح سمجھا جاتا تھا ،پھر اس نظام پر تجربات کئے گئے اب بھی ہورہے ہیں ، کبھی سیاسی اور کبھی غیر سیاسی بنیادوں پر الیکشن کرانے کے ’مضر ‘ اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر الیکشن ہوئے تو کس کا فائدہ کس کا نقصان ہوگا ، غیر سیاسی بنیادوں پر الیکشن کرائے گئے تو پھر بھی بغیر پارٹی کے سب کو ہی پتہ ہوتا ہے کہ کون کس پارٹی کا ہے کس کیلئے کام کرے گا کس کی مضبوطی کا باعث بنے گا ؟۔امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا بھر کے بڑے شہروں اور دارالحکومتوں کے میئرز ہی اس ملک کے سب سے طاقتور اور بااثر ’حکمران ‘ سمجھے جاتے ہیں ۔ نیویارک ،اور لندن کے میئرز اسکی واضح مثال ہیں ۔سوچیں !کیا کراچی ،لاہور ،اسلام آباد ، پشاور اور کوئٹہ کے میئرز بھی کسی ملک کے میئر یا لارڈ میئرز کیلئے قابل تقلید بنے یا سمجھے گئے ہیں ؟ کب غیر ملکی یہ کہیں گے کہ پاکستان کے شہروں کی ترقی میں ان کے میئرز کا کلیدی کردار ہے ۔

تازہ ترین