• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت پوری دنیا موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہےاور ان موسمیاتی تبدیلیوں کی چند بنیادی وجوہ میں ماحولیاتی آلودگی، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین گیسز کا بڑے پیمانے پر اخراج اور جنگلات میں نمایاں کمی وغیرہ شامل ہیں۔ ترقّی یافتہ ممالک تو اپنے وسائل کے سبب کسی حد تک ان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کررہے ہیں، لیکن ترقّی پذیر ممالک کم زور حکومتوں، مالی بدحالی، تحقیق و تربیت کے فقدان کے باعث ان کے تباہ کُن اثرات کے زیرِ اثر ہیں۔ 

پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے متاثرہ ممالک کی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں غیر معمولی بارشیں، سیلاب، غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی، وبائی امراض میں اضافہ ، خشک سالی، گلیشئرز کے پگھلاؤ ، سطحِ سمندر میں اضافہ اور موسموں کے دورانیے میں تغیّر و شدّت دیکھنے میں آرہی ہے۔ 

یاد رہے، ماہرینِ موسمیات گزشتہ چند ماہ سے ان خدشات کا اظہار کر رہے تھے کہ مُلک میں مون سون سیزن قبل از وقت شروع ہو سکتا ہے اور ان کے یہ خدشات اس وقت درست ثابت ہوئے، جب جون کے پہلے ہی ہفتے میں مُلک کے مختلف حصّوں میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور بعدازاں، اُن کے باعث بڑے پیمانے پرجانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔

بلوچستان، پاکستان کا وہ بد قسمت صوبہ ہے، جہاں بارشیں نہ ہوں، تو خشک سالی کا مسئلہ سر اُٹھا لیتا ہے، لیکن اگر بارشیں معمول سے زیادہ ہوجائیں تو حکومتی بد انتظامی، ڈیمز کی کمی اور برساتی پانی کی گزر گاہوں پر قبضے سے بارانِ رحمت، زحمت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ واضح رہے، بلوچستان میں بارشیں نہ ہونے کے باعث پانی کے ذخائر انتہائی کم رہ گئے ہیں، جس کے سبب پینے کے پانی کی صورتِ حال بھی انتہائی نا گفتہ بہ ہے۔ یہاں کی بمشکل15 فی صد آبادی ہی صاف پانی استعمال کر پاتی ہے کہ لوگوں کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی میسّر نہیں، نتیجتاً ہیپا ٹائٹس، گُردے و پتّے کی پتھری اور دیگر خطرناک امراض کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ 

بلوچستان کا کُل رقبہ 347,190 مربع کلو میٹر ہے،جو مُلک کے کُل رقبے کا 43فی صد بنتا ہے۔ اقوامِ متّحدہ کے مقرر کردہ معیار کے مطابق ایک شخص کو سالانہ چالیس گیلن پانی مہیّا ہونا چاہیے، مگر بلوچستان میں صرف 60فی صد آبادی کو دس گیلن کے تناسب سے پانی مل رہا ہے۔ وسیع و عریض رقبے پر پھیلے صوبے کی معیشت کا انحصار زراعت و مال مویشیوں پر ہے، جن کے لیے پانی کی ضروریات قدرتی چشموں، کاریزوں اور زیرِ زمین موجود پانی سے پوری کی جاتی ہیں۔

ایسے میں بارشوں کی کمی اور خشک سالی سے ہر چہرہ مُرجھا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے بلوچستان میں مینہ برسا اور ایسا برسا کہ گزشتہ 30 برس کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ لیکن حکومتی نااہلی اور پیشگی انتظامات نہ ہونے کے سبب بلوچستان کے عوام کے لیے یہ بارانِ رحمت، زحمت، بلکہ اذیت بن گئی۔اس ضمن میں پی ڈی ایم اے (Provincial Disaster Managemnet Authority) کے ڈپٹی ڈائریکٹر، فیصل طارق کا کہنا ہے کہ ’’ڈیڑھ ماہ سے جاری بارشوں نے ژوب سے گوادر تک صوبے کے تمام 34اضلاع متاثر کیے ۔سرکاری و نجی عمارتوں، ڈیمز، سڑکوں، پُلوں، ریلوے ٹریکس کے ساتھ زراعت اور گلّہ بانی سمیت ہر شعبے کو نقصان پہنچا۔

صوبے بھر میں اب تک 13ہزار 320مکانات جزوی یا مکمل طور پر تباہ ہو چُکےہیں۔ 23ہزار مال مویشی ہلاک ہوئے اور 500کلومیٹر سے زائد سڑکوں کو نقصان پہنچا۔ پھر 24جولائی سے شروع ہونے والے مون سون کے اسپیل نے لسبیلہ اور جھل مگسی کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، جہاں سیلابی ریلے آبادیوں میں داخل ہونے کی وجہ سے رابطہ سڑکیں بہہ گئیں اور متاثرہ علاقوں تک اب بھی (تادمِ تحریر) زمینی رسائی ممکن نہیں ہو پائی ہے۔ اس لیے سیلاب سے متاثرہ افراد کو کشتیوں اور ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ریسکیو کیا جا رہا ہے۔ 

سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ضلع لسبیلہ میں طوفانی بارشوں کے بعد سیلابی ریلوں نے آبادیوں کا رُخ کرلیا۔ حب ڈیم بھرنے کے بعد دو لاکھ کیوسک سے زائد پانی کا اخراج ہوا، جس سے بڑی آبادی زیرِ آب آئی۔ کوئٹہ، کراچی آر سی ڈی شاہ راہ ،نو مقامات پر پُل اور سڑکیں بہہ جانے سے ایک ہفتےتک ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند رہی، جس کے باعث سیکڑوں گاڑیاں اور ہزاروں افراد کئی روز تک پھنسے رہے۔‘‘ واضح رہے، بلوچستان سے کراچی جانے والے پھلوں، سبزیوں کی ترسیل بھی معطّل ہے، جس کی وجہ سے زمین داروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ 

اس حوالے سے مختلف علاقوں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ’’سیلاب اور بارشوں کے باعث ہونے والے جانی اور مالی نقصان میں اضافے کا خدشہ ہے، جب کہ متاثرین کی مدد کے لیے پاک آرمی، ایدھی فاؤنڈیشن اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ریلیف آپریشن بھی جاری ہے۔‘‘ کوئٹہ کے علاقے، ہنّہ اوڑک میں کچ ڈیم ٹوٹنے سے متعدّد علاقے زیرِ آب آنے کے علاوہ کئی گھر، کچّے مکانات اور درجنوں مویشی بہہ گئے، جب کہ طغیانی کے بعد 40افراد کو بچالیا گیا۔

انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں اس برس پچھلے 40سال کی نسبت 500 فی صد زائد بارشیں ہوئیں۔ واضح رہے، ان بارشوں کے نتیجے میں کئی مکانات منہدم، درجنوں ڈیمز سمیت انفرااسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوگیا ، جب کہ سیلابی ریلوں میں پھنسے سیکڑوں افراد کو ریسکیو کرنے کا آپریشن تاحال جاری ہے۔ اس دوران سندھ اور بلوچستان کے درمیان کئی روز تک زمینی رابطہ منقطع رہا، جب کہ بلوچستان کو دیگر صوبوں سے ملانے والی شاہ راہوں کو بھی سیلابی ریلوں سے بُری طرح نقصان پہنچا۔

وزیرِاعظم، شہباز شریف نے مسلسل دو روز تک سیلاب زدہ علاقوں کا دَورہ کرنے کے ساتھ سیلاب زدگان سے ملاقات بھی کی، جس میں انہوں نے حکومتی امداد نہ ملنے پر وزیرِاعظم کے سامنے شکایات کے انبار لگا دیئے۔ وزیراعظم نے سیلاب متاثرین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’سیلاب قدرتی آفت ہے، اس مشکل وقت میں آپ تنہا نہیں۔ آپ کی امداد کے لیے وفاقی حکومت بھی بھرپور امداد کرے گی۔‘‘ وزیراعظم نے چیف سیکرٹری، بلوچستان اور ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں اور انہیں فوری طور پر راشن، خیمے اور ادویہ فراہم کی جائیں۔ 

وبائی امراض پھیلنے کے پیش نظر میڈیکل کیمپس کا انعقاد کیا جائے اور انفرا اسٹرکچر کی بحالی ہر صُورت ممکن بنائی جائے۔ یہ میرا وعدہ ہے، جب تک بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ ہر گھر آباد نہیں ہوگا، ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر بحالی کے کام کروائے گی۔‘‘ وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ’’جھل مگسی سمیت لسبیلہ، لورالائی، ژوب، چمن و دیگر اضلاع بارشوں سے شدید متاثر ہوئےہیں۔ 

 پورے مُلک میں طوفانی بارشوں سے تین سو افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 150 کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ گو کہ مالی معاوضہ انسانی جان کا نعم البدل نہیں، تاہم، وفاقی حکومت نے این ڈی ایم اے کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو دس دس لاکھ روپے، جن کے گھر گر گئے ہیں، اُنھیں پانچ لاکھ،زخمی ہونے والوں کو دو دو لاکھ اور جزوی نقصان اُٹھانے والوں کو دولاکھ روپے دئیے جائیں گے۔ 

وفاقی حکومت، وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، میر قدوس بزنجو و صوبائی حکومت سے مل کر بحالی کے کام کرے گی۔ چوں کہ حالیہ ریکارڈ توڑ بارشوں سے بلوچستان میں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے، تواس بجٹ میں زیادہ حصّہ بلوچستان کے لیے رکھا ہے اور وفاق کی پوری کوشش ہے کہ بلوچستان کو دیگر صوبوں کے برابر لایا جائے۔‘‘وزیرِ اعلیٰ بلوچستان، میر عبدالقدوس بزنجو کا کہنا ہےکہ ’’سیلابی صورتِ حال کے پیش نظر سیاسی قائدین کی مشاورت سے بلدیاتی الیکشن ملتوی کردیں گے۔ 

ہم سیلاب متاثرین کو فوری ریلیف فراہم کرنے کےلیے تمام تروسائل استعمال کررہے ہیں۔ شدید خراب موسم کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں میں دشواری کا سامنا ضرور ہے، تاہم عوام کی ہر ممکن مدد کی کوشش کر رہے ہیں۔ متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ نیز، ہم نے متعلقہ حکام کو بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی مکمل رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت بھی کی ہے ۔‘‘

اسی طرح حکومتِ بلوچستان کی ترجمان، فرح عظیم شاہ کا کہنا ہے کہ ’’صوبائی حکومت نے سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کے لیے فنڈ ریزنگ پروگرام کے آغاز کا فیصلہ کیا ہے، جس میں وزیرِاعلیٰ بلوچستان ،میر عبدالقدّوس بزنجو اور صوبائی وزرا اپنی آدھی تنخواہیں دیں گے۔ نیز،اس پروگرام کے تحت ملکی اور غیر ملکی اداروں اور شخصیات سےبھی امداد کی اپیل کی جائے گی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ’’ مشکل کی اس گھڑی میں پوری پاکستانی قوم سیلاب متاثرین کی بھرپور امداد کرے۔

علاوہ ازیں، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بے بنیاد اور غیر ضروری خبروں کو بنیاد بنا کر ریسکیو اور ریلیف سرگرمیوں پر تنقید سے گریز کیا جائےکہ بلا جواز اور بے بنیاد تنقید سے سیلاب متاثرین کی مشکلات میں اضافہ اور عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ موجودہ ہنگامی صورتِ حال میں تمام ادارے ریسکیو اور ریلیف سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لے رہے ہیں، تو ہمیں مثبت رجحانات ہی کو فروغ دینا چاہیے۔ 

مُلک دشمن عناصر سوشل میڈیا کے ذریعے فرقہ واریت، لسانیت اور قومیت کو بنیاد بنا کر ہمارے درمیان تفریق ڈالنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں، لہٰذا،عوام ان مُلک دشمن عناصر کی باتوں میں آنے سے گریز کریں۔ خصوصاً نوجوان محض جھوٹی ویڈیوز شیئر کرنے کے بجائےآگے بڑھ کر امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیں۔ اس وقت بھی تمام اسٹیک ہولڈرز فیلڈ میں موجود ہیں اور ہم مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے بہن، بھائیوں کو بالکل اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔‘‘

چیف سیکرٹری بلوچستان، عبدالعزیز عقیلی کا بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے متعلق میڈیا بریفنگ میں کہنا تھا کہ ’’بلوچستان میں 6077 مکمل اور 10ہزار سے زائد گھر جزوی طور پر تباہ ہوئے، 16ڈیمز میں سے کچھ کو زیادہ اور کچھ کو کم نقصان، جب کہ 2لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی پر فصلوں اور باغات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ 

یاد رہے، رواں مون سون سیزن کے دوران 500 فی صد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔بارشوں کے مزید امکانات کے پیشِ نظر متعلقہ محکموں کےتمام ملازمین کی چھٹیاں بھی منسوخ کر دی ہیں۔ اب تک سیلابی پانی میں پھنسے 17000 افراد کو ریسکیو کیا جا چُکا ہے، جب کہ 2000 مزید افراد کو ریسکیو کرنے کے لیے آپریشن جاری ہے۔ اور اس ریسکیو اور ریلیف آپریشن میں پاک فوج، ایف سی اور سوِل ادارے مل کرکام کر رہے ہیں۔‘‘ 

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’کراچی شاہ راہ ہیوی ٹریفک کے لیے بند ہے، عوام چند روز تک غیر ضروری سفر نہ کریں، جب کہ بارشوں کی وجہ سے کئی متاثرہ جگہوں تک رسائی میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ حکومتی عہدیداروں کے امدادی سرگرمیوں سے متعلق اعلانات و تشہیر اپنی جگہ، لیکن اکثر اضلاع میں متاثرین، حکومتی عدم توجّہی اور امدادی سرگرمیاں شروع نہ ہونے کا شکوہ کر رہےہیں۔ بلوچستان کے وسیع حصّے میں آفت کی صورتِ حال ہے، بارشوں اور سیلاب کے باعث معمولاتِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں اور متاثرین شدید پریشانی سے دوچار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متاثرین کی بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر وسائل درکار ہیں کہ صوبائی حکومت کے محدود وسائل میں نقصانات کا ازالہ ممکن ہوتا نظر نہیں آرہا۔‘‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور چیف آف جھالاوان ،نواب ثناء اللہ زہری نے شدید بارشوں اور سیلابی ریلوں سے جانی و مالی نقصانات پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ صوبائی حکومت اور پی ڈی ایم اے ہنگامی بنیادوں پر متاثرین کی مدد کے لیے امدادی کارروائیاں شروع کرے، مشکل کی اس گھڑی میں متاثرہ خاندانوں کو ریسکیو کر کے ریلیف پہنچایا جائے۔ مَیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ رابطہ سڑکیں فوری طور پر بحال کرکے سیلاب میں پھنسے لوگوں کو نکالا جائے اور جو خاندان بے گھر ہو چُکے ہیں ،ان کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔‘‘ 

مسلم لیگ (نون) بلوچستان کے صوبائی صدر و سابق اسپیکر، جمال شاہ کاکڑ کا کہنا ہےکہ ’’بلوچستان میں مون سون بارشوں سے بہت زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت امدادی سرگرمیوں میں تیزی لائے۔بارشوں میں اب تک ڈیڑھ سو کے قریب افراد زندگی کی بازی ہارچُکے ہیں، تودوسری جانب زمین داروں کو بھی بڑے پیمانے پر نقصانات کاسامنا ہے۔‘‘ 

پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے ترجمان کہنا ہے کہ ’’حالیہ مون سون سیزن کے دوران متعلقہ حکاّم کی غفلت کا خمیازہ لاکھوں معصوم لوگوں کو بھگتنا پڑا، جب کہ ڈیڑھ سو سے زائد قیمتی جانیں بھی ضایع ہوئیں۔ صوبے کے طول و عرض میں سیکڑوں مکانات منہدم اور مال مویشی ہلاک ہوگئے، جب کہ زراعت بھی بُری طرح متاثر ہوئی۔ کوئٹہ، پشین، قلعہ عبدللہ، چمن، زیارت ہرنائی، قلعہ سیف اللہ، ژوب، شیرانی، لورالائی، دکی، موسیٰ خیل، سبّی اور دیگر اضلاع میں اب بھی ہزاروں افراد کُھلے آسمان تلے امداد کے منتظر ہیں، جب کہ پی ڈی ایم اے کی جانب سے امداد بھی متعلقہ علاقوں میں وزرا اور ارکان اسمبلی کی پسند و نا پسند کی بنیاد پر تقسیم کی جا رہی ہے۔ ہم متاثرین کے نقصان کے فوری ازالےکا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘ 

بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے کہا گیا کہ ’’شدید بارشوں سے صوبے کے مختلف علاقوں میں بھاری نقصان ہوا۔ ہزاروں گھر، فصلیں، باغات تباہ اور مال مویشی مرگئے۔ جب کہ حکومت کی جانب سے متاثرین کی بحالی کی کوششیں نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کے باعث پانی میں پھنسے ہزاروں افراد بےیار ومدد گار، مایوسی اور پریشانی کی حالت میں ہیں۔ اگر حکومت نے جلد موثر اقدامات نہ کیے، تو بڑا انسانی المیہ بھی جنم لے سکتا ہے ۔‘‘ 

الخدمت فاؤنڈیشن، بلوچستان کے صدر، انجینئر جمیل احمدکرد کا کہنا تھا کہ ’’حکومت کی طرف سے بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ اضلاع کوصرف آفت زدہ قرار دےدینا کافی نہیں، بلکہ متاثرین کی بھرپور مددکی بھی ضرورت ہے۔ الخدمت فائونڈیشن کے رضاکار و ذمّے داران متاثرہ علاقوں میں پہلے دن سے امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ پانی میں پھنسے افراد کی محفوظ علاقوں میں منتقلی، نکاسیٔ آب، راشن، خیمے ودیگر ضروریات کی فراہمی کے لیے وسائل کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ بارش اللہ تعالی کی رحمت ہے، لیکن بروقت انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے یہ بلوچستان کے عوام کے لیے ایک امتحان اور زحمت بن گئی ہے۔‘‘

امدادی سرگرمیوں میں مصروف، پاک فوج کا ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار …

امدادی سرگرمیوں کے دوران مُلک کو ایک بڑے سانحے کا اُس وقت سامنا کرنا پڑا، جب امدادی سرگرمیوں کی نگرانی میں مصروف کور کمانڈر 12، کور لیفٹیننٹ، جنرل سرفراز علی کا ہیلی کاپٹر لاپتا ہوگیا۔ اور پھر اگلے چند گھنٹوں میں پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامّہ نے بلوچستان کے ضلع خضدار میں پاک فوج کے لاپتا ہیلی کاپٹر کے کریش کی تصدیق کردی۔ واضح رہے، ہیلی کاپٹر میں سوار کور کمانڈر 12،کور لیفٹیننٹ جنرل، سرفراز علی سمیت تمام چھے افسران اور جوان شہید ہوگئے ہیں۔

پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامّہ کا کہنا ہے کہ ’’شہدا میں ڈی جی پاکستان کوسٹ گارڈ، میجر جنرل امجد، کمانڈر انجینئر 12 کور، بریگیڈیئر محمّد خالد، میجر سعید احمد، میجر محمد طلحہٰ منّان اور کریو چیف نائیک، مدثر فیاض شامل ہیں۔‘‘ آئی ایس پی آر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ہیلی کاپٹر سیلاب زدگان کے ریلیف آپریشن میں مصروف تھا، جب کہ حادثے سے متعلق مزید تفصیلات تحقیقات کے بعد منظرِ عام پر لائی جائیں گی۔ ‘‘یاد رہے، ہیلی کاپٹر کا ملبہ خضدار میں موسیٰ گوٹھ سے ملا،جب کہ حادثہ خراب موسم کے باعث پیش آیا۔

حکومتی بدانتظامی کی بدترین مثال…طوفانی بارشوں کے باوجود ہنّہ جھیل خشک پڑی ہے

دوسری جانب، حیرانی کی بات یہ ہے کہ غیر معمولی بارشوں کے باوجود کوئٹہ کے نواح میں واقع تفریحی مقام، سیاحتی مرکز، ہنّہ جھیل میں پانی جمع نہیں کیا جا سکا۔ کوئٹہ شہر سے قریباً 18کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ،پہاڑوں میں گِھری ہنہ جھیل قدیم تفریحی مرکز ہے، جہاں مُلک بھر سے لوگ سیّاحت کے لیے آتے ہیں، لیکن گزشتہ چند برسوں سے بارشیں نہ ہونے کے باعث جھیل مکمل طور پر خشک ہوچکی تھی، مگر حالیہ طوفانی بارشوں کے باوجود جھیل کا بیش تر حصّہ خشک ہی ہے اور جھیل ہنوزچٹیل میدان کا منظر پیش کررہی ہے۔

اس حوالے سے سابق صوبائی وزیر، شیخ جعفر خان مندوخیل کا کہنا ہے کہ ’’ہنہ جھیل میں پانی جمع ہونے سے قدرتی طور پر زیرِ زمین پانی کی سطح بلند ہوجاتی ہے، جس سے علاقے کے عوام، سیاح اور زمین دار بھی مستفید ہوسکتے ہیں، لیکن سیلابی پانی کا رُخ موڑ کر نہ صرف آس پاس کی آبادی کو متاثر کیا گیا بلکہ میٹھا پانی بھی ضایع کردیا گیا۔‘‘ 

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہنّہ جھیل کوئٹہ کے پانی کی سطح قدرتی طور پر بلند کرنے کا اہم ذریعہ ہے، حالیہ بارشوں کے پانی سے ہنہ جھیل کو نہ صرف بھرا جاسکتا تھا بلکہ کئی ہزار کیوسک پانی ضایع ہونے سے بھی بچایا جاسکتا تھا، مگر ایک زیرِ تعمیرواٹر چینل کو بچانے کی خاطر بڑی مقدار میں پانی ضایع کردیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہنّہ، اوڑک سمیت دیگر علاقوں سے آنے والا پانی اپنے پرانے راستے سے ہوتا ہوا، جھیل میں جانے کی بجائے کَچھ موڑ سے نواں کلی تک آگیا، جس سے کئی گھروں کو نقصان پہنچا۔

انتظامیہ کا یہ فیصلہ انتہائی عاقبت نااندیشانہ ہے کہ ایک زیرِ تعمیر منصوبے کی خاطر پانی کا اہم ترین ذخیرہ ضایع کردیاگیا۔ حالاں کہ حالیہ بارشوں سے ہنّہ جھیل میں بآسانی پانی ذخیرہ ہوسکتا تھا، لیکن متعلقہ حکاّم نے دانستہ طور پر اسے بھرنے اور پانی ذخیرہ کرنے کی بجائے پانی کا رُخ موڑ دیا، جس سے عوام فوائد حاصل کرنے کے بجائے، اُلٹا نقصان اُٹھانے پر مجبور ہوئے۔‘‘ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’’اب بھی بارشیں جاری ہیں،تو ہنّہ جھیل کو سیلابی پانی سے بھرنے دیا جائے کہ واٹرچینل پر کام بعد میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت قدرتی فوائد سے مستفید ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ‘‘

سنڈے میگزین سے مزید