• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یومِ آزادی: ماضی کی غلطیوں کے احتساب، مستقبل کی پیش بندی کا دِن

نادیہ ناز غوری، کراچی

ماہِ اگست کے آغا زہی سے؎’’ہر سُو ہے بہارِ ماہِ اگست‘‘سا سماں ہوتا ہے۔ ہری بَھری جھنڈیوں سے آراستہ پیراستہ سقف و بام، دَر و دریچے، گلی کوچے، محلّے، بازار، برقی قمقموں سے سجی عمارتیں آنکھوں کو بہت بھلی لگتی ہیں، تو چہار سُو سبز ہلالی پرچموں کی بہار، فضا میں بکھرے سبز گیتوں کی گونج سے جذبۂ حُبّ الوطنی فُزوں تر ہوجاتا ہے۔

آج پیارے پاکستان کا 75واں جشنِ آزادی ہے۔ زندہ قومیں اپنے قومی دِن فخر سے مناتی ہیں۔ سلور، گولڈن یا ڈائمنڈ جوبلی منا کر جہاں خوشی کا اظہار کرتی ہیں، وہیں ان ایّام کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے اور اصلاح کے موقعے کے طور پر بھی دیکھتی ہیں۔ اپنا محاسبہ کرتی ہیں کہ گزشتہ برسوں کیا کیا غلطیاں، کوتاہیاں ہوئیں، کون کون سے مقاصد حاصل کیےاور کون کون سے عزائم پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔ قائدِ اعظمؒ نے فرمایا تھا’’ پاکستان ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست ہوگی، جہاں عوام کو بنیادی حقوق، شخصی آزادی اور جان و مال، عزّت و آبرو کاتحفّظ حاصل ہوگا۔‘‘

جب کہ اگر ہم بحیثیت قوم اپنی گزشتہ 75برسوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے حکم ران تو آج تک اس مُلک کو ایک مربوط نظام تک نہیں دے سکے۔اس لیے ہم آج بھی ایک نو آموز اور ترقّی پذیر قوم کی طرح مختلف تجربات سے گزر رہے ہیں۔ منہگائی کا منہ زور طوفان ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ آئے دِن پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے عوام چکّی کے دو پاٹوں میں بُری طرح پِس رہے ہیں، مگر چکّی چلانے والے ہاتھ ہیں کہ چلتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ مال و منال کی ہَوس میں مبتلا حکم رانوں نے غریب کے منہ کا نوالہ تک چھین لیا ہے۔ 

کتنے ہی سفید پوش گھرانے رواں برس عید الاضحٰی پر اپنی سفید پوشی کا بھی بھرم نہ رکھ سکے۔ آٹا، دال، چینی اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے نرخ آسمانوں سے باتیں کرنے لگے ہیں۔ افراطِ زر کے ناگ نے غریب تو غریب، اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کو بھی ڈس لیا ہے۔ منہگائی، لاقانونیت، معاشی بدحالی، سیاسی ابتری، بےروزگاری، اقرباء پروری، تعصّب، سفارش، نااہلی، رشوت ستانی، دھونس، دھاندلی اور بے راہ روی جیسی معاشرتی بُرائیوں نے ہمارے نام نہاد نظام کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے۔

قوموں کے عروج و زوال کی کہانی میں تعلیم کا کردار خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ جس قوم نے اس میدان میں عروج حاصل کیا، باقی دُنیا آپ ہی آپ اس کے آگے سر نِگوں ہوتی چلی گئی، مگر بدقسمتی سے پاکستان کا نظامِ تعلیم بھی انتہائی ناقص ہے۔ یہاں تک کہ ہمارا تعلیمی نصاب اب اس قابل بھی نہیں رہا کہ جس کے ذریعے نسلِ نو تاریخِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان میں برِّصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد ہی کے متعلق جان سکے۔ دوسری طرف، انفرادی حیثیتوں میں بھی ہم اپنی ذمّے داریوں، فرائض سے غافل ہیں۔ 

اچھائی، بُرائی، حلال و حرام میں تمیز چھوڑ کر، صحیح و غلط کا فرق بُھلا کے بس مسابقت کی دوڑ میں بلا سوچے سمجھے بَگ ٹُٹ بھاگے جا رہے ہیں۔ سُستی و کاہلی، سود خوری، ٹیکس چوری اور رشوت پرستی جیسی مُہلک بیماریوں میں مبتلا ہم محض ایک ہجوم ہی ہیں، قوم تو ہرگز نہیں کہلا سکتے۔ بقول علّامہ اقبال؎منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک … ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک …حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک…کچھ بڑی بات تھی ،ہوتے جو مسلمان بھی ایک … فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں …کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔

قوموں کی زندگی میں ترقّی کسی ایک طبقے کا ثمر ہوتی ہے، نہ تنزّلی۔ مملکت، قوم سے تشکیل پاتی ہے اور قوم، افراد کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ایک فرد کی انفرادی زندگی، پوری قوم کی اجتماعی زندگی متاثر کرتی ہے۔ سو، ہر اِک فرد کو چاہیے کہ وہ مُلکی ترقّی میں اپنا اپنا کردار ادا کرے۔ اگر ایک فرد اپنی اصلاح کرے گا، تو اس کے اثرات پورے معاشرے پر مرتّب ہوں گے اور جب کوئی معاشرہ صحیح رستے پر چل پڑے، تو پھر اُس کے مثبت اثرات پوری قوم میں منتقل ہوتےہیں، پر افسوس کہ فکرِ معاش میں انفرادیت، اجتماعیت پہ غالب آگئی ہے۔ ہم اپنے فرائض بھول کر محض حصولِ حقوق میں سرگرداں ہیں۔ 

اب ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔ اگر قوم کا ہر فرد اپنی ذمّے داری کماحقّہ نبھائے، اپنی جگہ اپنی اصلاح کرکے محنت کو اپنا شعار بنالے، تو وہ دِن دُور نہیں، جب قوم میں ایسے لوگوں کی کثرت ہوگی، جو مثبت سوچ کے حامل ہوں گے اور ایسے ہی لوگ قوموں کو ترقّی سے ہم کنار کرتے ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ قوموں پر جب بھی کبھی آزمایش کا دَور آتا ہے، تو نوجوان نسل اس آزمایش سے نکلنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ تحریکِ آزادئ پاکستان میں بھی نوجوانوں کا کردار ناقابلِ فراموش رہا۔ 

ہمیں نسلِ نو کو ’’نئے پاکستان‘‘کے جھانسے سے نکال کر محنت و جفاکشی کے راستے پر چلتے ہوئے مُلک کو خُوب سے خُوب تر کی طرف لے جانے کی تحریک دینا ہوگی، تاکہ قوموں کی برادری میں پاکستان سربُلند رہے۔ نیز، پاکستان میں لیڈر شپ بلڈنگ کی ٹریننگ میں بھی نوجوانوں کے لیے دِل چسپی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان کو ابتدائی چند برسوں کے بعد ہی سے لیڈر شپ کے فقدان کا سامنا رہا ہے۔

ہر’’یومِ آزادی‘‘ ایک نئی اُمید، نئے جوش و جذبے اور نئی آس کی روح پھونکتا ہے۔ خود احتسابی، مواخذے اور جائزے کے ساتھ، آگے بڑھنے کی لگن ہر گزرتے دِن ایک نئے ولولے سے اُبھرتی ہے، جب کہ وقت کا برق رفتاری سے گزرنے کا احساس، قوموں کی زندگی کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم اپنا بہت وقت ضایع کرچُکے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے مستقبل کے لیے کچھ اہداف مقرّر کیے جائیں، تاکہ درست سمت سفر ممکن ہو۔ یہ پٹاخے پھوڑنا، چراغاں کرنا اور جھنڈے لہرانا ہی حُبّ الوطنی نہیں ۔ ہمیں غور و خوض کرنا ہوگا کہ ہم اس حال تک کیوں کر پہنچے اور ان لامسائل کا حل کیا ہے۔ ماضی اور حال کی قومی غلطیوں کے پیشِ نظرمستقبل کی محتاط پیش بندی اب ناگزیر ہے۔ 

ہمیں اپنی ترجیحات ، سوچ بدلنی ہوگی، منتشر ہجوم سے ایک قوم بننا ہوگا، نظم و ضبط، جہدِ مسلسل اور اتّحاد کے ساتھ منزلِ مقصود تک رسائی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانی ہوگی کہ اگر ہم درست منصوبہ بندی کر کے، اس پر عمل پیرا بھی ہوں، تو مُلک کو باآسانی ترقّی کی جانب گام زن کر سکتے ہیں۔ یاد رہے، مختلف رنگ و نسل کے افراد، لسانی طبقوں کو اسلام اور نظریۂ پاکستان ہی نے ایک قوم بنایا تھا،لیکن ہماری غفلت، سہل پسندی اور مادّیت نے ہمیں ایک بار زمین پر دے مارا ہے۔

ہم اپنی قومیت، اپنا تشخّص کھو رہے ہیں، جب کہ اپنی بقا کے لیے ہمیں بہرصُورت اپنا تشخّص برقرار رکھنا ہوگا ۔ انفرادی طور پر تو ہمارے اہداف الگ، چیلنجز مختلف ہوسکتے ہیں، لیکن بحیثیت قوم ہمارے مقاصد و اہداف مشترک ہی ہیں۔ ضرورت صرف منصوبہ بندی اور عزمِ جزم کی ہے۔ محض اسلاف کے کارناموں پر فخر کی بجائے اپنے اپنے حصّے کی شمع روشن کریں اور تجدیدِ عہد کریں کہ ؎ اے ارضِ وطن! ہم تجھے تعمیر کریں گے…ہم تیرا مقدّر، تِری تقدیر لکھیں گے…ڈالی ہے کَمند ہم نے ستاروں پہ ہمیشہ…ہم راہِ ثُریّا کی بھی زنجیر کریں گے…خورشیدِ وطن کو انہی ہاتھوں سے اُجالا…ہم چاند ستاروں کو بھی تسخیر کریں گے…اقبالؔ کے شاہین ہیں، شہباز اسی کے…دیکھے ہوئے ہر خواب کی تعبیر بنیں گے…پرچم کے ستارے میں بھریں اپنی ضیائیں…ہم اپنے جُنوں سے، تجھے تنویر کریں گے…غمگین مناظر نہ خدا دیکھے، دکھائے…ہم پیار محبّت سے یہ تصویر بَھریں گے…پھر فصلِ گُل و لالہ سے مہکے گا چمن یہ…ہم نوکِ صبا سے تجھے تحریر کریں گے۔