• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سجاد حسین قریشی کے روحانی خانوادے کی پہلی خاتون کی سیاست میں آمد موضوع بحث

اسلام آباد(تجزیاتی رپورٹ/ فاروق اقدس) یوں تو پاکستان کی سیاست روایتی اور موروثی سیاسی کرداروں سے اَٹی پڑی ہے اور نسل در نسل اس ورثے کی ایک خاص ماحول اور انداز سے پرورش کر کے احتیاط اور اہتمام سے منتقل کرنے کا عمل ہوا ہے جو ابھی تک جاری ہے اس سے وطن عزیز کی سات دہائیوں کی تاریخ بھری ہوئی ہے ۔


بالخصوص ماضی قریب میں اس حوالے سے نواز شریف، بینظیر بھٹو اور شہباز شریف سمیت دیگر رہنمائوں کی نئی نسل سیاست کی اگلی فصل کاٹنے کیلے تیار ہوچکی ہے ایسے میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور جنوبی پنجاب کی سیاست کے حوالے سے ملکی سیاست کے اہم سیاستدان مخدوم شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی مہر بانو قریشی کی سیاست میں انٹری سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور سیاست میں انکی آمد پر طرح طرح کے تبصرے اور تجزئیے پیش کئے جارہےہیں اور موروثی سیاست کیخلاف آواز بلند کرنے والی جماعت کے اہم رہنما کی صاحبزادی کو ملتان کے ضمنی انتخاب میں پارٹی ٹکٹ دینے کو فیصلے کو پارٹی، شخصیات اور پالیسی سے متصادم قرار دیا جارہا ہے، انکے والد شاہ محمود قریشی نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں اپنے صاحبزادے زین قریشی کی خالی نشست پر ضمنی انتخاب کیلئے انکی بہن کو امیدوار نامزد کیا ہے اور اب مہربانو اس نشست پر امیدوار ہیں ،شاہ محمود قریشی کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی جو پنجاب کے گورنر بھی رہے، کا خاندان جو مذہبی پس منظر اور پیری مریدی کے مسلک سے وابستہ ہے، شاہ محمود قریشی جو خود بھی گدی نشین ہیں کی صاحبزادی اس خانوادے کی پہلی خاتون ہیں جو سیاست کے میدان میں منظر عام پر آئی ہیں، مہربانو قریشی کا نام سیاسی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ عام سطح پر بھی اس حد تک نامانوس اور اجنبی ہے کہ لوگوں کے علم میں یہ بات بھی پہلی مرتبہ آئی ہے کہ شاہ محمود قریشی کی کوئی صاحبزادی بھی ہیں، مہربانو قریشی کا کہنا ہے کہ وہ صحافت کے شعبوں سے وابستہ رہی ہیں اور پنجاب یونیورسٹی کی جنرلزم اور پولیٹیکل سائنس کی ڈگری ہولڈر ہیں، انکے بھائی زین قریشی کو قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر پنجاب اسمبلی میں آنے کا حکم بھی عمران خان نے دیا تھا،وہ2018 سے تحریک انصاف کی سرگرم اور فعال رکن ہیں اور اس عرصہ میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سے وابستہ ہیں جو بہت سے لوگوں کیلئے کسی انکشاف سے کم نہیں ، پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کو صرف سیاسی مخالفین کی کردار کشی کیلئے ہی نہیں بلکہ سماجی اور اخلاقی گراوٹ اور معاشرے میں متنازعہ اور منفی رویوں کو فروغ دینے کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے اور بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس عرصے میں سوشل میڈیا پر ایسے رجحانات نے بھی جنم لیا جو قومی مفاد کے منافی عام ہوئے اور سوشل میڈیا کو اس مقصد کیلئے بھی دانستہ یا غیر دانستہ طور پر استعمال کیا گیا جس کی حساسیت اور دور رس نتائج کا شاید خود ذمہ داران کو بھی اندازہ نہ ہو ، بہر حال مہربانو کو قومی سیاست میں خوش آمدید وہ ایک سنجیدہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور انہیں اس بات کا یقیناً ادراک ہوگا کہ کسی بھی سیاسی جماعت بالخصوص پی ٹی آئی کیلئے سوشل میڈیا اور پارلیمانی ایوانوں میں کام کرنا کس طرز عمل کا متقاضی ہوتا ہے۔

اہم خبریں سے مزید