اسلام آباد( اسرار خان ) پاکستان نے اپنی خسارے میں چلنے والی قومی ایئرلائن، پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (PIA) کی نجکاری آئندہ دو سے تین ماہ میں مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے، جبکہ نیویارک میں واقع تاریخی روزویلٹ ہوٹل کے لیے دلچسپی کی درخواستیں (EOIs) اگست میں طلب کی جائیں گی۔روزویلٹ ہوٹل کے لیے مالی مشیر ٹرانزیکشن اسٹرکچر کو حتمی شکل دے رہا ہے، جبکہ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل حتمی مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔ اب تک پانچ پارٹیوں نے ایئرلائن کے لیے دلچسپی ظاہر کی ہے، جن میں سے چار کو سکروٹنی کمیٹی نے جانچ پڑتال کے لیے اہل قرار دے دیا ہے۔ ان شارٹ لسٹڈ بولی دہندگان کو منگل کے روز پی آئی اے کے مالیاتی اور عملیاتی ریکارڈ تک رسائی دے دی گئی ہے۔نجکاری کمیشن کے سیکریٹری عثمان باجوہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کو بریفنگ دی، جس کی صدارت رکنِ اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار نے کی۔حکومت کا مقصد ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری سال 2025 کی آخری سہ ماہی تک مکمل کر لی جائے، تاہم باجوہ نے زور دیا کہ جب تک سرمایہ کار مکمل طور پر مطمئن نہ ہوں، کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ اُن کے مطابق، "کامیاب بولی دہندہ کو پی آئی اے کے بیڑے کو موجودہ 19 طیاروں سے بڑھا کر کم از کم 45 طیاروں تک توسیع دینا ہو گی۔کمیٹی کے چیئرمین اور اراکین نے پی آئی اے کے ملازمین کی ملازمتوں کے تحفظ پر زور دیتے ہوئے تین سے پانچ سال تک نوکری کی ضمانت دینے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا، "ملازمین کی فلاح کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔باجوہ نے ارکانِ اسمبلی کو یقین دلایا کہ نجکاری کے معاہدے میں ملازمین کے تحفظ کو مدنظر رکھا گیا ہے، اور یہ بھی بتایا کہ ایئرلائن کے عملے کی تعداد پہلے ہی 11,000 سے کم ہو کر 6,000 کر دی گئی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان کے معروف بزنس گروپس نے ایئرلائن میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے کیونکہ اُن کے پاس آپریشنز کو بہتر بنانے کے لیے سرمایہ موجود ہے۔ اُن کے مطابق، "ہم نے علاقائی ایئرلائنز کو بھی بولی میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔پی آئی اے کے سی ای او نے کمیٹی کو بتایا کہ ایئرلائن نے فرانس کے لیے پروازیں بحال کر دی ہیں اور مانچسٹر کے لیے پروازیں بھی جلد دوبارہ شروع ہونے کی توقع ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا، "پی آئی اے کی کارکردگی پچھلے سال کی نسبت کافی بہتر ہوئی ہے۔کمیٹی نے پاکستان پوسٹل لائف انشورنس کے معاملات کا بھی جائزہ لیا، جو کہ چھ ارب روپے کی کلیم ادائیگیوں کی منتظر ہے۔ وزارتِ خزانہ کے حکام نے بتایا کہ تین ارب روپے پہلے ہی وزارت کے پاس دستیاب ہیں تاکہ انشورنس ادائیگیاں کی جا سکیں۔ سینیٹر سحر کامران اور دیگر اراکین نے زور دیا کہ یہ رقم وزارتِ خزانہ میں منتقل نہ کی جائے، اور کہا، "یہ حکومت کی رقم نہیں — یہ پینشنرز اور پالیسی ہولڈرز کی امانت ہے۔ڈاکٹر فاروق ستار نے مطالبہ کیا کہ بنگالی مہاجرین کی چھوڑی ہوئی متروکہ جائیدادوں کو نیلام کیا جائے۔ اُنہوں نے کہا، "ان میں سے کچھ پر نجی معاہدوں کے تحت کرایہ لیا جا رہا ہے، اور وزارتِ خزانہ خوشی سے کرایہ وصول کر رہی ہے حکومت کو ان جائیدادوں کی فروخت کے لیے لکھنے پر زور دیا۔