• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جنھیں دیوتا تباہ کرنا چاہتے ہیں، اسے عقل سے محروم کردیتے ہیں۔‘‘ (یوری پیڈیس)

پی ٹی آئی کے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کاسنایاگیافیصلہ مفروضوں، تضادات اور من پسند اخذ کردہ نتائج کا امتزاج اور عمران خان کو بدنام کرنے کی سازش دکھائی دیتا ہے۔ عمران خان بلاشبہ ملک میں فیصلہ کن طور پر اب تک کے مقبول ترین لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں۔ اُنھیں بدعنوان اور مجرمانہ حکومتوں، جن کے پرچم شریف اور زرداری خاندانوں کے ہاتھ میں ہیں، نے اپنے لئے خطرہ سمجھا۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ نہ صرف پارٹی کے ساتھ غیر ملکی فنڈنگ کا کوئی تعلق قائم کرنے میں ناکام رہا بلکہ یہ اس کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کی براہ راست نگرانی میں فیصلہ دینے کے اصل ارادوں کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔

آئیے سب سے پہلے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ تحریکِ انصاف وہ جماعت ہے جس نے پاکستان میں سیاسی فنڈ ریزنگ کے تصور کو فروغ دیا جو پوری دنیا میں ترقی یافتہ جمہوریتوں کا ایک قائم کردہ معمول ہے۔ ملک کی دیگر تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے نامعلوم اور غیر ظاہر شدہ ذرائع سے رقم جمع کرنے کی بجائے مہذب دنیا میں مستعمل اس طریقے کو ترجیح دی گئی۔ 40,000 سے زیادہ عطیہ دہندگان کی مکمل تفصیلات کے ساتھ ان کے نام الیکشن کمیشن آف پاکستان کو کسی بھی ممکنہ تصدیق کے لئے فراہم کئے گئے۔ اور ایسا ہی کیا جانا بھی چاہئے تھا۔ اس کے بجائے وہ نقول کے ذریعے تلاش کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے دکھائی دیے تاکہ پہلے سے طے شدہ فیصلے کے لئے جرم کا ثبوت ہاتھ لگ جائے ۔

قانونی حوالے سے کیس 2008-13 ء کی مدت سے متعلق ہے جو پولیٹکل پارٹیز ایکٹ 2002 کے تحت زیر سماعت تھا، نہ کہ الیکشن ایکٹ جو کہ 2017 میں نافذ کیا گیا۔ ’’ممنوعہ ذرائع‘‘ بشمول افراد، کمپنیاں، کثیر ملکی شہریت رکھنے والے افراد اور غیر ملکی افرادسے متعلق ترامیم تحریک انصاف کے خلاف کیس شروع ہونے کے بعد متعارف کرائی گئیں۔ الیکشن ایکٹ کے تحت تقاضوں کو سابقہ طور پر لاگو کرنا الیکشن کمیشن کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ سوالات جو ایک خلیجی ملک سے فنڈز کی وصولی کے بارے میں اس بنیاد پر اٹھائے گئے ہیں کہ متعلقہ مقامی قوانین اس نوعیت کی فنڈ ریزنگ کی اجازت نہیں دیتے لیکن یہ سوال حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ تحریک انصاف نے اگرخلیجی ملک کے قوانین کی خلاف ورزی کی تو بھی مقدمہ صرف وہاں درج ہو سکتا ہے، نہ کہ پاکستان میں۔ اس کے علاوہ، کیا الیکشن کمیشن نے یہ جانچ کرنے کی زحمت کی کہ آیا اس خلیجی ملک کےحکام سے فنڈ ریزنگ کیلئے اجازت لی گئی تھی یا نہیں ؟

ابراج ایک معروف کمپنی تھی جب فنڈ ریزنگ کے پروگرام منعقد کئےگئے تھے۔ یہ صرف 2018 میں ہوا کہ کمپنی پر دھوکا دہی کا الزام لگایا گیا ۔ کیا تحریک انصاف کی قیادت کو کچھ آسمانی طاقتوں سے نوازا گیا تھا کہ وہ برسوں پہلے جان جاتی کہ ابراج پر دھوکا دہی کا الزام عائد کیا جائے گا؟ یہ بات منطق اور استدلال کے دائرے سے تو باہر ہے، شاید الیکشن کمیشن کے پاس ایسی کوئی عجیب و غریب دانائی ہو۔ مزید یہ کہ عارف نقوی پر صرف دھوکہ دہی کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی ہے، لیکن ابھی تک مجرم قرار نہیں دیا گیا ہے۔ جرم کے محض الزام کو سزا یافتہ ہونے کے مترادف کیسے لیا جاسکتا ہے ؟

اس بات کا تعین کرنے کے لئے مستعمل پیمانہ کہ عطیہ دہندہ غیر ملکی ہے، مزاح کن ہے۔ ایک معاملہ جو سامنے آتا ہے وہ ایک شریف آدمی، ناصر عزیز کا ہے، جس کی بیوی، رومیتا شیٹی بھارتی نژاد ہیں۔انہوں نے اپنے مشترکہ اکاؤنٹ سے 27,500ڈالر کا عطیہ دیا۔ الیکشن کمیشن کی دانش مندی پر آفرین کہ اس نے نصف رقم (13,750 ڈالر) کو جائز تسلیم کیا اور باقی نصف کو ’’ممنوع‘‘ قرار دے دیا کیونکہ یہ بھارتی نژاد خاتون کی طرف سے آیا تھا۔ بعض دیگر معاملات میں، اسکروٹنی کمیٹی نے محض اس مفروضے پر فیصلے کیا کہ آیا کوئی خاص نام غیر ملکی لگتا ہے۔

اس کے بعد ایسے عطیہ دہندگان کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے جنہوں نے اپنی انفرادی حیثیت میں عطیہ دیا تھا، لیکن تحریک انصاف کو رقوم کی منتقلی کے لیے کمپنی کے اکاؤنٹس کا استعمال کیا۔ الیکشن کمیشن یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ اسے کسی بھی طرح سے ممنوعہ فنڈنگ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان میں سے زیادہ تر کمپنیاں ڈونرز کی ملکیت میں واحد فرد کے منصوبے ہیں۔الیکشن کمیشن نے دعویٰ کیا کہ عمران خان نے بیان حلفی جمع کرایا جس کے مندرجات درست نہیں تھے۔ کمیشن ایک ’’حلف نامے‘‘ (جو جمع نہیں کیا گیا تھا) اور ’’سرٹیفکیٹ‘‘(جو حقیقت میں جمع کرایا گیا تھا) کے درمیان فرق بھی واضح نہیں کر سکا۔ یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے اپنے کچھ اکاؤنٹس چھپائے۔ پارٹی کو صرف ایسے اکاؤنٹس کا اعلان کرنا تھا جہاں چندہ جمع کیا گیا تھا، جو پی ٹی آئی نے کیا۔ دیگر اکاؤنٹس مختلف پارٹی تنظیموں کو فنڈز کی تقسیم کیلئے استعمال کئےگئے تھے اور وہاں کوئی عطیہ جمع نہیں کیا گیا تھا جسے متعلقہ قوانین کے تحت ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔یہ فیصلہ سپریم کورٹ (2018) اور اسلام آباد ہائی کورٹ (2021) کے حکم امتناع کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں الیکشن کمیشن کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی فنڈنگ کیسز سے متعلق فیصلے بیک وقت سنائے۔

مذکورہ بالا خامیاں کیس میں حتمی فیصلے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے طرزِ عمل پر سوال اٹھانے کیلئے معقول بنیاد ہیں۔ معاملے کو مزید قانون کی عدالت میں لے جانے کی دو بڑی بنیادیں ہیں: ایک توہین عدالت سے متعلق ہے اور دوسرا ان قانونی سوالات سے متعلق ہے جو فیصلے کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کا فیصلہ اس عجیب وغریب صورت حال کا مظہر ہے جس کا حتمی شکار پاکستان ہے۔

تازہ ترین