• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل مصنوعات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یہ شعبہ نہ صرف پاکستان میں زرِمبادلہ کے حصول کا سب سے اہم ذریعہ ہے بلکہ روزگار کی فراہمی میں بھی اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔ محکمۂ شماریات کی طرف سے جاری کر دہ اعداد وشمار کے مطابق مالی سال 22-2021ء کے دوران پاکستان کی مجموعی برآمدات تقریبا 32 ارب ڈالر رہیں۔ ان میں ٹیکسٹائل برآمدات کا حصہ 19.4 ارب ڈالر ہے۔ اس طرح مالی سال 22-2021ء میں پاکستان کی مجموعی برآمدات میں گزشتہ مالی سال کی نسبت 27 فیصد جب کہ ٹیکسٹائل برآمدات میں 26 فیصد کا تاریخی اضافہ ہوا ہے۔ برآمدات میں یہ اضافہ اگرچہ اپنے حجم کے اعتبار سے خوش آئند ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی برآمدات اب بھی درآمدات کی نسبت کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مالی سال 22-2021ء میں 31.85 ارب ڈالر کی برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کا حجم 80.51 ارب ڈالر رہا ہے یعنی اس وقت بھی پاکستان کی درآمدات کا مجموعی حجم برآمدات کی نسبت 49 ارب ڈالر زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں، نئے مالی سال کے آغاز پر ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ توانائی کے بحران اور عالمی کساد بازاری کے اندیشوں نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو نئے خدشات سے دوچار کر دیا ہے۔ توانائی بحران کی وجہ سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ یہ کہ بیرونِ ملک سے ملنے والے برآمدی آرڈرز کو کس طرح بروقت پورا کیا جائے اور بیرونِ ملک سے نئے برآمدی آرڈرز کیسے حاصل کئے جائیں؟اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام کی طرح عالمی معیشت پر چھائے بے یقینی کے بادلوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ جیسی عالمی معیشت بھی گزشتہ چھ ماہ سےمعمولی مگر مسلسل تنزلی کی طرف گامزن ہے جس کی وجہ سے وہاں اشیائے خور و نوش، پیٹرول اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 1981 ءکے بعد سے اب تک کا تیز ترین اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ امریکہ چوں کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور اس کی کرنسی کو عالمی ریزرو کرنسی کی حیثیت حاصل ہے اس لئےاس کی معیشت پر مرتب ہونے والے منفی اثرات دنیا کی دوسری معیشتوں پر بھی محسوس کئے جاتے ہیں۔پاکستان کے لئے امریکی منڈی کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ پاکستان کی برآمدات کا بڑا حصہ امریکہ جاتا ہے اور دو طرفہ تجارت کا جھکائو پاکستان کے حق میں ہے یعنی گزشتہ 25 برسوں سے امریکہ کی پاکستان سے درآمدات ہمیشہ برآمدات سے زیادہ رہی ہیں۔ امریکی محکمۂ شماریات کے مطابق رواں سال پاکستان کی طرف سے امریکہ کو 2.6ارب ڈالر کی منصوعات برآمد کی گئی ہیں جب کہ گزشتہ سال یہ حجم 5.2ارب ڈالر سے زائد تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ میں اگرمعیشت کساد بازاری کا شکار ہوتی ہے تو پاکستان سے امریکہ کو ہونے والی برآمدات کو بھی دھچکا لگے گا۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ 2008 ءمیں بھی امریکہ کساد بازاری کی زد میں تھا اور وہاں کئی مالیاتی ادارے اور کمپنیاں دیوالیہ ہو گئی تھیں لیکن پاکستان کے مالی مسائل اس وقت بھی ملکی سیاست اور اقتصادی حالات کے باعث پریشان کن تھے اور آج بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہے۔ان حالات کا سامنا کرنے کے لئے پاکستان کے پاس زرِ مبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر کی سطح پر ہیں ۔ان میں سے صرف ساڑھے آٹھ ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کے پاس ہیں جب کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17 ارب ڈالر کی بلند سطح پر ہے تاہم، روپے کی قدر میں اضافے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ان حالات میں چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر معاشی مسائل کا سامنا کرنے کے لئےمیثاقِ معیشت کرتے لیکن تاحال سیاسی محاذ آرائی میں کمی ہوتی نظر نہیں آ رہی ۔ اس سلسلے میں جو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ان میں انرجی ایمرجنسی کا نفاذ سرفہرست ہے ۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بجلی اور گیس کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی قیمتوں کا بھی خطے کے دیگر ممالک سے مسابقت کی بنیاد پر طے کیا جانا ضروری ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ قیمتوں میں تاریخی اضافے کے باوجود جون 2022 ءمیں پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اس مد میں خرچ ہونے والے زرمبادلہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے گزشتہ ایک سال کے دوران 24 ارب ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کی تھیں۔اس مد میں خرچ ہونے والے زرِمبادلہ کو بچانے کے لئے اگر توانائی کے استعمال کو بہتر بنایا جائے تو کم ازکم پانچ ارب ڈالر سالانہ کی بچت کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح گھریلو صارفین کو فراہم کی جانے والی گیس کے استعمال کو بہتر بنانے کے لئے کھانا پکانے والے چولہوں کی بہتر کیلیبریشن کر کے تقریباً 200 ملین میٹرک کیوبک فٹ گیس یومیہ بچائی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں، معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے لئے بھی فوری اور موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ برآمدات کی قدر بڑھانے کے لئے ویلیو ایڈیشن پر توجہ دینا بھی اہم ہے۔ قومی قیادت کواس باب میں برآمدات پر فوکس کر کے اقتصادی ترقی کو ہدف بنانا چاہئے۔ یہ اقدامات کرنا اس لئے بھی ضروری ہیں کہ ٹیکسٹائل سیکٹر نے گزشتہ دو برسوں میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل انڈسٹری نے اپنی پیداواری استعداد بڑھانے کے لئے پچھلے کچھ برس میں نئے پلانٹ، مشینری اور اپ گریڈیشن کی مد میں پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے بھی گزشتہ چند برسوں کے دوران مسابقتی شرائط پر توانائی فراہم کرکے اور دیگر اقدامات کے ذریعے برآمدات میں اضافے کو ممکن بنایا تھا۔اس پالیسی کو مستقبل میں مستقل طور پر برقرار رکھا جانا چاہئے تاکہ معاشی استحکام کو یقینی بنا کر ترقی کے سفر کو جاری رکھا جا سکے۔

تازہ ترین