• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیسی دلچسپ حکومت ہے جسے اب خیال آیا کہ دہشت گردی اور خوف پھیلانے والے ملک دشمن تصور ہوں گے۔ بہرحال دیر آید درست آید لیکن جیسی دہشت گردی اور خوف خود اس حکومت نے پھیلا رکھی ہے وہ کس کھاتے میں لکھی جائے گی؟ حکومت نے اقتصادی دہشت گردی کی انتہا کردی ہے۔ میں نے گزشتہ کالم میں ہلکا سا اشارہ اس خبر کی طرف کیا تھا کہ یہ جنم جلی، ڈالروں پلی حکومت جو آئی ایم ایف کے اشاروں پر ناچ رہی ہے دسمبر تک70اشیاء پر سیلز ٹیکس ٹھوک کر عوام سے مزید انتقام لے سکتی ہے۔ احباب پوچھ رہے ہیں کہ کون کون سی اشیاء اس نحوست کی لپیٹ میں آسکتی ہیں تو کھاد سے لے کر فارماسیوٹیکل تک سب کچھ نحوست کی زد پر ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ معاشی دھماکہ کا چین ری ایکشن شروع ہوچکا جو کتنی تباہی لائے گا، ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یوسف رضا گیلانی کے اس دعوے سے اختلاف کرنا بہت مشکل ہے کہ ....... ’’عوام ہمارے دور کی مثالیں دینے لگے ہیں‘‘۔ چودھری شجاعت حسین کی اوبزرویشن کو بھی کون چیلنج کرے گا کہ شیر پر مہر لگانے والے سب سے زیادہ شرمسار ہیں۔ وجہ بہت سادہ ہے کہ شیر نے جواباً ان کی پشتوں پر مہنگائی کی مہر لگادی ہے۔ شیر شاہ سوری انتظامی ضرورتوں کے تحت گھوڑے داغتا تھا........شیر نے عوام کو داغنا شروع کررکھا ہے اور ڈھٹائی کی انتہا ملاحظہ فرمائیے کہ دودھ جلیبی، دہی بھلے، ربڑی فیم ممنون صدر بھی عوام کو مہنگائی کے حوالہ سے صبر کی تلقین فرمارہے ہیں۔ آئندہ یہ بیان بھی آسکتا ہے کہ
’’روٹی نہیں ملتی تو ربڑی کھائو‘‘
ہماری قسمت میں بھی کیسی کیسی’’اشیاء ‘‘لکھی ہیں۔
تجھ سے شکوہ تو نہیں کاتب تقدیر مگر
رو پڑے تو بھی، اگر میرا مقدر دیکھے
کاتب تقدیر سے اس طرح کے شکوے شاعرانہ جہالت کے سوا کچھ بھی تو نہیں کیونکہ کاتب تقدیر نے انسانوں کو دماغ بھی عطا کیا ہے اور آنکھوں کی نعمت سے بھی نوازا ہے سو کبھی کبھار خود اپنے کرتوتوں پر بھی غور کرلینا چاہئے۔ اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہئے اور اپنی چارپائی پر لیٹ کر خراٹے مارنے کے ساتھ ساتھ کسی وقت اس چارپائی کے نیچے ڈانگ بھی پھیر لینی چاہئے۔ ہم بھی عجیب لوگ ہیں مثلاً ہماری فیورٹ ترین دعائوں میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ پاک ہمیں سیدھے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ بہت عمدہ دعا ہے لیکن بندہ پوچھے بھائی! تو اندھا ہے جسے سیدھے اورٹیٹرھے رستے میں تمیز نہیں۔ سچ یہ ہے کہ سب کو سب کچھ پتہ ہے۔ میں نے آج تک کسی پاگل کو بھی نوالہ منہ کی بجائے کانوں میں ٹھونستے ہوئے نہیں دیکھا تو ووٹ دیتے ہوئے عقل کہاں گھاس چرنے چلی جاتی ہے؟ ذلیل مفاد اور گھٹیا مجبوریاں محرومیاں بن جاتی ہیں۔
کاتب تقدیر نے تقدیر کا بہت ہی گہرا تعلق تدبیر کے ساتھ جوڑ رکھا ہے ورنہ گناہ و ثواب کا حساب کیسا؟ سعی کے مطابق ہی ملتا ہے۔ تھور کاشت کرکے ٹیوب روزز کی فصل کا انتظار کوئی پاگل کاشت کار ہی کرے گا۔ کاتب تقدیر نے عزت و ذلت، عروج و زوال، کامرانی و ناکامی، فتح اور شکست کے بے لچک اور لازوال اصول طے کررکھے ہیں سو جو کوئی ا ن سے انحراف کرے گا، اختلاف کرے گا.........کاتب تقدیر اسے معاف نہیں کرے گا خواہ وہ کوئی بھی ہو۔
سوچ لو، پہلے کبھی نہیں سوچا تو اب سوچ لو........اللہ صحت زندگی دے تو آئندہ الیکشن بھی کچھ زیادہ دور نہیں۔ چاہو تو گزشتہ سب گناہوں کا کفارہ ادا ہوجائے گا۔ وطن ایک ہی بار ملتا ہے، اب اس کے بعد قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ یہ گنجائش صرف ان کے پاس ہے جنہوں نے اس وطن کی بوٹیاں نوچ کر ، خون پی کر اپنے لئے دوسرے وطن تلاش کئے اور وہاں کھربوں روپوں کی جائیدادیں خریدیں، تمہارے وطن کیCostپر بین الاقوامی پبلک ریلیشننگ کے ذریعہ ذاتی تعلقات بنائے اور ناقابل یقین مفادات حاصل کئے......... ان کا ہر کاروبار ہمیشہ ہی زبردست منافع بخش رہا اور تمہارا وطن ہمیشہ مسلسل گھاٹے کا شکار اور یہاں تک کہ تم اپنی اگلی نسلیں بھی قرضوں کی شکل میں ہار گئے تو اب ہی ہاتھ کھینچ لو۔ وہ تو ان کے نعرے ضرور ماریں جنہیں یہ مختلف شکلوں میںObligeکرتے اور ہڈیاں ،بوٹیاں، چھیچھڑے دیتے ہیں........تمہیں تو ان سے مزید مہنگائی، مزید اہانت کے سوا کبھی ملتا بھی کچھ نہیں تو پھر کیوں انہیں اپنے خمیدہ کندھوں پر بٹھاتے ہو؟
واہ کیا خبر آئی ہے کہ امریکہ اور پاکستان میں اس بات پر مکمل اتفاق پایا گیا کہ دونوں مل کر دہشت گردی کے خلاف کام کرتے رہیں گے اور ڈرون حملوں کا فیصلہ’’زمینی حقائق‘‘ کی روشنی میں ہوگا۔یہی کچھ پہلے اور اس سے بھی پہلے ہورہا تھا تو بھک مرتے عوام کو تھک لگانے کی کیا ضرورت تھی؟
کشکول شکن وزیر اعظم نے واشنگٹن میں ڈالروں کے علاوہ منڈیوں تک رسائی اور توانائی بحران کے حل کی مد میں بھی مدد مانگ لی یعنی ’’دے جا سخیا راہ خدا ترا اللہ ای بوٹا لاوے گا‘‘ ۔یہ تو کشکول کنگ ہے۔
’’ڈالر بھی دو‘‘
منڈیوں تک رسائی بھی دو‘‘
توانائی بھی دو‘‘
پھر روتے ہیں ساورنٹی المعروف خود مختاری کو اور بھول جاتے ہیں کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے کہیں بہتر اور برتر ہوتا ہے جن سے بھیک در بھیک دربھیک مانگنا انہی کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کی خواہش پالنا بھی ہم جیسوں کا ہی شوق اور شغل ہوسکتا ہے۔
وطن کا وقار عزیز ہے تو جاگیردار، تجار اور دستار سے نجات حاصل کرو ورنہ بہت جلد معاملات وہاں پہنچ جائیں گے جہاں سے ریورس کرنا بھی ناممکن ہوگا اور یاد رہے جس نپولین بونا پارٹ کی اساطیری ڈکشنری میں’’ناممکن‘‘ کا لفظ نہیں تھا وہ سینٹ ہلینا میں بے بس قیدی کی موت مرا۔ غلاموں کی غلامی اور کمیوں کا کمی ہونے سے انکار کرو ورنہ مزید پھٹکار درِیار پر دستک دے گی۔
تازہ ترین