’’چِین کے ایک بڑے لکھاری، شین جیانگانگ( Chen Jiangong ) نے ایک بار کہا تھا، ’’بیجنگ کے لوگ انجوائےکرناپسند کرتے ہیں اور لُطف کی بات تو یہ ہے کہ یہ انجوائمنٹ تلاش کرنے میں بھی بڑی مہارت رکھتے ہیں۔یہ ہر دل چسپ شوق یا مشغلے سے بھر پور لُطف اندوز ہوتے ہیں۔جیسے،پتنگ اڑانا،پرندے پالنا، گانے گانا یا سُننا وغیرہ۔‘‘ تنگ شیاؤ نے ہماری معلومات میں اضافہ کیا۔ ’’ارے واہ تنگ! تم نے تو میرے پرانے لاہور کا نقشہ کھینچ دیا۔ لاہوریوں کے بھی یہی رنگ ڈھنگ ہیں۔ بس اس میں سالوں پہلے چائے کی جگہ پیڑوں والی لسّی ڈال لو۔ رہن سہن، پہننےاوڑھنے کا ذرا فرق ہے، رنگوں کا آمیزہ گھول دیں تولُطف اور فراغت کے کلچر میں گندھی بہت دل کش تصویریں بنیں گی۔‘‘
ہم نے کہا۔ ’’پرانا بیجنگ چائے خانوں کے لیے بہت شہرت رکھتا ہے۔ روزمرّہ زندگی سے متعلق کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا، جس سے تعلق رکھنے والا یہاں نہ آئے۔ مزے کی بات آنے کے انداز بھی بڑے دل چسپ ہوتے تھے۔کچھ تو آرام کرنے کے لیے آتے، توکچھ کی اپنے پالتو جانوروں کے پنجروں کے ساتھ تشریف آوری ہوتی۔ایک ڈنڈے پرپنجرے لٹکا دیتے یامیز پر رکھ دیتے، پھرخود چائے پیتے رہتے اور پرندے اپنی بولیاں بولتے رہتے۔ ایسا ہنسنے ہنسانے والا منظر ہوتا کہ دیکھنے والے کا دل خوش ہوجاتا۔دراصل، چینی زندگی میں چائے خانہ عوامی جگہ ہے۔ لوگوں کی سماجی سرگرمیوں کا مرکز، جہاں بیٹھ کر وہ اپنے دُکھ سُکھ ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔ کبھی ہنستے، تو کبھی افسردہ ہوکر آنسو بھی بہاتے ہیں۔ اور پتا ہے، اسیQianmen اسٹریٹ میں لاؤشی ٹی ہاؤس بھی واقع ہے۔اصل میں لاؤشی (ایک مشہور آرٹسٹ اور ٹی وی ڈراما نگار) نے’’ٹی ہائوس‘‘ کے نام سے ایک شان دار اور کام یاب ڈراما لکھا تھا، جسے بہت پذیرائی ملی۔اسے بہترین کلاسیکل شاہ کار بھی شمار کیا جاتا ہے۔‘‘ تنگ شیاؤ نے بتایا۔
ایک تو وہ گلی بڑی شان دار تھی،داخل ہوتے ہی جس طرح کے رنگ رنگیلے شو خ و چنچل رنگوں سے اُن کے دروازے، پگوڈا نما چھتیں،بالکونیاں ، معلّق محرابی جنگلے سجے ہوئے تھے،وہ سب آنکھوں اور ہونٹوں پر بچّوں کی سی معصوم ہنسی بکھیرنے کو کافی تھے۔ ہم دونوں ایک عمارت کے سامنے رُکے، جس کے فرنٹ پر ایک نام جگمگارہا تھا، مگر اندر جانے کی بجائے تنگ سیدھا چلنے لگی اور ہمارے استفسار پر اس نے کہا’’مَیں نے سوچا ،پہلے آپ کو اس کی مختلف اسٹریٹس میں گھمائوں پھرائوں، تاریخ سے بھی آشنائی کروائوں، پھر یہاں آئیں گے۔‘‘
تیزی سے باتیں کرتے کرتے اس نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے آگے مڑنے والی گلیوں کی طرف اشارہ کیا اور اس کے ساتھ ہی ہم بھی مُڑ گئے۔اُف! کیا منظر تھا، نیچی چھتوں، دو منزلہ عمارتوں، چوباروں اور تنگ گلیوں والے گھر کیسے کیسے نمونوں کا پیرہن پہنے کھڑے تھے۔کیا دنیا تھی، جہاں رات کے باوجود، گھروں کی قدامت کے باوجود اُن کے لِپے تُھپےچہرے برقی روشنیوں میں خُوب لشکارے مارتے نظروں کو لبھا رہے تھے۔ پھر وہ اندر ہی اندر پھیلتی گنجان گلیوں میں داخل ہونے لگی۔ ہمارے لیے یہ مناظر قطعاً نئے نہ تھے کہ ہمارے سامنے لاہور کا چھتّا بازار، سوہا،گمٹی، اعظم مارکیٹ کی گلیاں اور ٹکسالی بازار رقصاں تھے۔کبھی کے گھر، جو اب کاروباری مرکز بن گئے ہیں۔دُکھ کی لہر نے ضرور اندر بھگویا کہ جدّت کے وہ تڑکے، وہاں نہیں ہیں، جو یہاں ہیں یا ہم نے دنیا کے بیش تر ملکوں کے ڈائون ٹائون کی گلیوں میں دیکھے ہیں۔
وہ ایسے ہی ایک سجی ہوئی گلی کے بطن سے نکلتی ایک اور گلی کا شیشے والا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔عام سا چوبی دروازہ، جسے کھولا تو اندر جیسے آرایش و زیبایش کا ایک جہاں اُبل رہا تھا۔ لوگ میزوں کے گرد بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔ایک چھوٹی سی میز کے گرد بیٹھتے ہوئے اس نے کہا’’یہی وہ گھر ہیں، جن کی ڈھلانی چھتوں پر کبوتروں کے غول پُھدکتے، اُچھلتےکودتے، ناچتے، چہلیں کرتے نظر آتے تھے۔پرانے بیجنگ کے رہایشیوں کو کبوتر بازی سے عشق تھا۔وہ جب اڑانیں بھرتے، تو لوگ بےخود ہوجایا کرتے اور بعض لوگ تو اِن کے پَروں یا دُموں کے ساتھ سیٹی باندھ دیتے تھے۔
وانگ سکسیانگ(Wang Shixiang )نے، جو بیسویں صدی کی اوائل دہائیوں کا ایک بہت بڑا فوک گائیک تھا، ایک بار ایک محفل میں اپنے فن کے مظاہرےکے دوران کہا تھا کہ ’’کبوتروں کے پَروں کی پھڑپھڑاہٹ اور سیٹیاں دراصل بیجنگ کی خُوب صُورت زندگی کی علامت ہیں۔موسم خواہ بہار کا ہو یا بیجنگ کی فضائیں گرمی سے تپ رہی ہوں۔سرد ترین دن ہوں یا ہرسُو خزاں کا راج، ہوائوں میں،فضائوں میں اِن کی اڑانیں ، پَروں کی پھڑ پھڑاہٹیں،سیٹیاں، غٹرغوں کی آوازیں آسمانوں پر تیرتی کبھی بہت نزدیک، تو کبھی کہیں دُور سے کانوں میں رس گھولتی خوشی و مسرّت کا پیغام دیتی، کسی سرمدی نغمے جیسی محسوس ہوتی ہیں۔‘‘ تنگ معلومات کا دریا بہا رہی تھی۔’’یہ سب تو میرے بچپن کی یادیں اور میرے لاہور کے گلی کُوچوں کے قصّے کہانیاں ہیں۔یوں بھی بچپن کا کیا ذکر، یہ تو میری جوانی اور اب بڑھاپے کے بھی مناظر ہیں، جو لاہور کیا، پورے پاکستان کے شہروں میں بکھرے پڑے ہیں۔ہماری تو شاعری بھی ان کی رنگینی سے لب ریز ہے۔یہاں تک کہ ڈھول ماہیاکو چٹّھی پہنچانے کا کام بھی انہی کے سپرد (بڑے ترلےمنّتوں سے) ہوتا تھا۔‘‘ ہم بے اختیار بول پڑے۔
تنگ نے آرڈر کیا ،تو تھوڑی ہی دیر بعد چھوٹی سی میز پر کچھ کھانے پینے کی چیزیں سج گئیں۔ اُس نے وضاحت کی’’مَیں نسبتاً سَستے ٹی ہائوس میں آپ کوسب کچھ دکھانا چاہتی تھی، لائوشی میں تو کھال اُتار لیتے ہیںاور کچھ مجھ سے بھی غلطی ہوگئی کہ مَیں نے ٹکٹ کا بندوبست نہیں کیا۔ چلیں،اِسے اگلی مرتبہ پر رکھتے ہیں کہ اس کا اوپراہی تواصل دیکھنے کی چیز ہے،ساتھ ٹی ہائوس کی بھی سیر ہوجائے گی۔‘‘ بہر حال، کڑوے کسیلے قہوے کے گھونٹ بھرتے، پرانے بیجنگ کے رہایشیوں کے کچھ اور انوکھے شوق بھی سُنے۔’’ وہ لوگ بڑے دیوانے تھے، گولڈ فِش پالنا، ان کا بےحدخیال رکھنابہت سےلوگوں کا جنون تھا۔شاہی گھرانے کے لوگ بھی اِس شوق میں مبتلا تھے۔
اُن کے محلوں میں تو اس مقصد کے لیے باقاعدہ تالاب بنائے جاتےاور شاہی خاندان کے افراد اِس کی بناوٹ وسجاوٹ میں بھی خصوصی دل چسپی لیتے۔اطراف میں پرسی من درخت بھی لگائے جاتے،یوں صحن کی سجاوٹ ہی منفرد نظرآتی۔‘‘ تنگ نے بتایا۔ خیر، کچھ دیر بعد ہم دونوں وہاں سےاُٹھے اور باہر آگئے۔ اب پھر آوارہ گردی شروع ہوگئی۔ دفعتاً تنگ ایک جگہ رُکی’’اوہو!یہ ٹیان قیا ( Tianqiao) فوک کلچرا سٹریٹ ہے۔ چلیں، اِسے بھی تھوڑا سا دیکھ لیں کہ یہ بھی دیکھنے کی چیز ہے۔‘‘ اس نے ہمیں ٹیان قیاکے ایسے ایسے قصّے سُنائے کہ چند لمحوں کے لیے ایسا محسوس ہوا، جیسے واقعتاً اُس ٹنل میں چلے گئے ہیں، جہاں تفریح کے یہ سب انداز تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہمارے جیسے ہی ہیں۔
ہمارے سوال پر کہ ’’یہ ٹیان قیا کیاچیز ہے؟‘‘پتاچلا کہ قدیم بیجنگ ہی کا ایک علاقہ ہے،جو بیجنگ کے لوک کلچر کی مختلف شاخوں کے لیے،جن میں ذہنی چسکوں کے ساتھ ساتھ ذہنی تفریح کی بھی بہت سی اقسام ہیں، خصوصی شہرت رکھتا ہے۔کھانے کے ہوٹل، کھوکھے، چائے خانوں کے ساتھ ساتھ تھیڑ ہال، پیکنگ اوپرا،پُتلی تماشے، مزاحیہ خاکے،مزاحیہ ڈرامے، بازی گری کے تماشے،جادوئی کھیل اور دیگر بے شمار سرگرمیاں کل بھی ہوتی تھیں اور آج بھی ہیں، بس فرق اتنا ہے کہ آج ذرا زیادہ شان دار انداز میں ہوتی ہیں۔
بازار بھی سجتے ہیں، جہاں ضروریاتِ زندگی کی چیزیں سستے داموں ملتی ہیں۔ اور سچی بات ہے یہاں گھومنا پھرنا، آوازوں کا شوروغل ،فضامیں رچی کھانوں کی مہک، سب کچھ بہت پُرلطف تھا۔ دراصل قدیم بیجنگ کی سب سے زیادہ اہم اور یاد رکھنے والی بات صرف ایک ہی تو ہے اور وہ اس کی خوراک ہے۔ کہتے ہیں’’یہ اس کے انواع و اقسام کے کھانے ہی تو ہیں، جن کے ساتھ ایک تہذیب جڑی ، روایات منسلک ہیں، طور طریقے منسلک ہیں اور زمانوں سے چلے آرہے ہیں۔‘‘
وہاں سے نکل کر ہم کسی اور طرف جانکلے۔ جہاں ہر دوسرے قدم پر مجسّمے اپنی جانب متوجّہ کرتےاور اِن سے وابستہ کہانیاں کسی دوسری دنیا میں لے جاتی تھیں۔انہی کہانیوں کو بڑے بڑے ہالز میں تمثیلی انداز میں پیش کیا جاتا ہے، جن کے ٹکٹ کی قیمت چند لمحے کے لیے سوچ میں ڈال دیتی ہے کہ ’’خریدیں یا نہیں…‘‘یہ قنگ اور منگ بادشاہوں کا عظیم تحفہ ہیں۔وقت نے کتنی کروٹیں لیںاور کروٹیں ہمیشہ تبدیلیوں کا مظہر ہوتی ہیںکہ اب یہ تو ممکن نہیں کہ تبدیلیاں آئیںاور طرزِ زندگی ویسے کا ویسا ہی رہے۔ بیجنگ کے لوگوں کا طرزِ زندگی بھی بدل چُکا ہے۔ 20 ویں صدی کے اختتام اور21 ویں صدی کے آغاز پرسنلیٹن میں بار اسٹریٹ منظرِ عام پر آئی۔
ڈونگریم میں ایک گیجی اسٹریٹ اور ایک بار اسٹریٹ بنی، تاکہ لوگ اپنے فارغ اوقات میں یہاںآکر لُطف اُٹھا سکیں۔Shichahaiجھیل ایک ویران جگہ تھی، لیکن یہ اچانک پُرکشش بن گئی ۔ہم اس ساری سیر و تفریح میں ’’لائوشی ٹی ہاؤس‘‘ کو تو بھول ہی گئے تھے۔ ہمیں تو ان اسٹریٹس نے ایسی جپّھی ڈالی کہ باقی سب ذہن سے نکل گیا۔ تاہم، اُسے تو دیکھنا ہی ہے۔ تنگ ہمیں چھوٹی چھوٹی گلیوں سے گزارتی، اُن کے بارے میں بتارہی تھی۔’’اُن گلیوں میں چھوٹے چھوٹے شراب خانے تھے۔’’شکر ہے،کہ مَیں نے ڈرنک کرنا چھوڑ دیا۔ان گلیوں کے ساتھ اور بھی بڑی دل چسپ اور ڈھیروں ڈھیر کہانیاں جُڑی ہیں۔‘‘ تنگ شیاؤ کہہ رہی تھی۔
شب کا پہلا پہر اور دوسرا پہر تو جانے کب کاگزر چُکاتھا کہ پتا ہی نہ چلا اور اب تیسرے پہر نے سانسیں بھرنی شروع کردی تھیں۔ تنگ ہمارے چہرے پر برستی تھکن دیکھنے کے بعد بولی ’’میرے خیال میں آپ کو مزید پھرانا، آپ پر ظلم کرنے کے مترادف ہوگا۔ لائوشی ٹی ہائوس پھر کبھی دیکھ لیں گے۔‘‘’’ارے، ارے تنگ مَیں تو خُوب لُطف اندوز ہو رہی ہوں۔‘‘ ہم نے جھٹ جواب دیا، لیکن اس نے میری ایک نہ سُنی اور ہم گھر لَوٹ آئے۔
ہماری تو رات کچھ سوتے، کچھ جاگتے ہی گزری تھی۔ ویسے بھی آتے آتے ڈیڑھ بج گیا تھا۔ سونےلیٹے ،تو لگا جیسے پرستان سے لوٹے ہوں۔ سوچا ،’’اگر ہم اشرف صبوحی کے سیّدانی بی ہوتے تو کیا کیا نہ قصّے گھڑتے، پر اُس جیسی کوثر و تسنیم میں دُھلی زبان کہاں سے لاتے؟ وہ اندازِ بیان کا تحیّر اور سنسنی، ہمارے بس کی بات کہاں۔‘‘ ہم دل ہی میں بڑبڑائے۔ یہی سب سوچتے سوچتے جانےکب آنکھ لگی، کچھ پتا ہی نہ چلا ۔صبح ناشتے کی میز پر ہم بےحد مسرور تھے۔ رات کی تھکاوٹ کا ذرّہ برابر بھی احساس نہیں ہو رہاتھا۔شاید انسان کا اندر خوش ہو، تو اس کاظاہر بھی مطمئن اور سرشاری میں بھیگا رہتا ہے۔ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہو رہا تھا اور ہمیں خوش و مطمئن دیکھ کر سعدیہ بھی بےحد خوش تھی۔ (جاری ہے)