• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا،‘‘ اپنی مقبولیت کے عروج پر ہونے کے باوجود سابق وزیراعظم عمران خان پچھلے چار ماہ میں نہ موجودہ حکومت کو جلد عام انتخابات کروانے پر مجبور کر سکے اور نہ ہی کوئی منظم احتجاجی تحریک چلا پائے، گو ان کے بہت سے حامیوں کو توقع تھی کہ 17جولائی کو پنجاب کے ضمنی الیکشن میں کامیابی اور بڑے صوبے میں حکومت بننے کے بعد 13 اور 14 اگست کی شب کسی بڑی احتجاجی تحریک کا آغاز ہوگا مگر بات مزید جلسوں سے آگے نہ جا سکی۔

حکمتِ عملی میں یہ اچانک تبدیلی کسی ’’بیک ڈور‘ ‘ڈپلومیسی کا نتیجہ ہے یا کوئی انجانا خوف؟ بادی النظر میں بات اب الیکشن کے مقررہ وقت پر یعنی آئندہ سال اگست تک جاتی نظر آرہی ہے۔

25 مئی کو اسلام آباد ’’لانگ مارچ‘‘ میں ریاستی جبر کے سامنے ڈٹ جانے کے بجائے دفاعی حکمتِ عملی اپنائی گئی، پھر الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرہ کرنے کے بجائے انتظامیہ کی دی ہوئی جگہ F-9 پارک میں جلسے پر اکتفا کیا گیا اور آخر میں پریڈ گرائونڈ اسلام آباد کے بجائے جلسہ لاہور کے ہاکی اسٹیڈیم منتقل کر دیا گیا۔ پھر بڑے بڑے اعلانات ہوئے، ’حقیقی آزادی‘ تحریک کا جلسہ بھی شاندار تھا اور جوش و خروش بھی تھا بس ’اعلان‘ کا انتظار تھا پر جو اعلان ہونا تھا وہ نہ ہوا۔ حکمتِ عملی میں اس تبدیلی سے بظاہر حکومت کو تو کوئی پیغام دینا مقصود نہیں تھا شاید کہیں اور یہ اشارہ دیا جا رہا ہے کہ معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔

 کچھ ایسا ہی اشارہ صدر پاکستان جناب عارف علوی نے یہ کہہ کر دیا کہ وہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’پل‘ کا کردار ادا کر سکتے ہیں، دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے گورنر محترم جناب بلیغ الرحمان کا پنجاب حکومت کی کابینہ سے حلف لینا بھی صورتِ حال کو ٹھہرائو کی طرف لے جانے کی جانب ایک قدم کہا جاسکتا ہے۔

ان چند ہفتوں میں یہ تبدیلی تو آئی ہے کہ وفاق اور پنجاب حکومتوں کو کوئی سخت اقدام کرنے سے اجتناب کا مشورہ دیا گیا ہے۔ رہ گئی لفظی جنگ تو وہ جاری رہے گی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی آج صرف عمران خان کے وزیراعلیٰ نہیں ہی ورنہ وہ اتنے دوٹوک انداز میں خان صاحب کے چیف آف اسٹاف کی مذمت نہ کرتے، اب تو خیر خان صاحب نے بھی دبے الفاظ میں اعتراف کرلیا ہے کہ شہبازگل کے بعض ریمارکس غلط تھے اورالفاظ کا چنائو درست نہیں تھا۔

ستمبر میں 9 حلقوں میں ضمنی الیکشن جن میں عمران خان خود حصہ لے رہے ہیں ،پنجاب، خیبر پختونوا اور کراچی میں بڑی سیاسی سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں گی اور اسی ماہ کے آخر میں کراچی، حیدرآباد اور بدین میں بلدیاتی الیکشن کا دوسرا مرحلہ۔ اب یہ سارے الیکشن موجودہ الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہی ہوں گے

 17جولائی کے بعد اگر 25 ستمبر کے ضمنی الیکشن کے نتائج بھی خان صاحب کیلئے ’مثبت‘ آئے تو عین ممکن ہے کہ وہ موجودہ الیکشن کمیشن کے تحت ہی عام انتخابات کیلئے بھی تیار ہو جائیں۔

 ویسے بھی اب موجودہ کمیشن کے سربراہ راجہ سکندر سلطان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں جانے کا ارادہ ترک کر دیا گیا ہے کیونکہ پچھلے دو ہفتوں سے وہ پٹیشن جو واپس لے لی گئی تھی دوبارہ دائر نہیں کی گئی۔رہ گئی بات ’ممنوعہ‘ فنڈنگ کیس اور توشہ خانہ ریفرنس کی تو بظاہر اس میں بھی کوئی خاص پیش رفت ہوتی نظر نہیں آ رہی البتہ ایک طویل قانونی جنگ شروع ہونے کا امکان ہے۔

اس ملک میں ’نظریۂ ضرورت‘ کی ضرورت کبھی ختم نہیں ہوئی لہٰذاعمران پر نااہلی کی تلوار لٹکتی تلوار ہو یا میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی خبریں، یہاں سب ہو سکتا ہے۔ عمران نے خود اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اسے نااہل کروا کے میاں صاحب کی نااہلی سے جوڑ کر اس پر دونوں کی نااہلی کا سمجھوتہ کرنے کی سازش ہو رہی ہے جس کیلئے وہ تیار نہیں۔یہ بات ٹھیک ہے کہ عمران کا ’جہاد‘ کا بیانیہ موجودہ حکمرانوں کے خلاف اب احتجاج میں تبدیل ہوگیا ہے تاہم شہباز گل کے انٹرویو نے اس ساری صورتحال کو مزید خراب کر دیا۔

اس وقت اہم ترین سوال یہ ہے کہ ’نیوٹرل‘ کیا سوچ رہے ہیں؟ سیاست دانوں میں اتفاقِ رائے پیدا کروانے کی کوششیں تو جاری ہیں اور یہ بھی کہ الیکشن ’فری اینڈ فیئر‘ ہوں۔ عمران اب الیکٹرونک مشینوں اور بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کے حق پر بھی بہت زیادہ زور نہیں دے رہے تو عین ممکن ہے وہ موجودہ الیکشن کمیشن کے تحت عام انتخابات میں بھی چلے جائیں۔ پنجاب کی تبدیلی کے بعد وہ وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی سے متفق ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ عام انتخابات سے پہلے صوبے میں پوزیشن مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔حکومتی اتحادیوں میں بظاہر اتحاد نظر آتا ہے عمران کے خلاف بڑے فیصلے کے سلسلے میں بھی اعلیٰ سطح پر مشاورت شروع ہو گئی ہے جس کے بارے میں امکان یہی ہے کہ اعلان اکتوبر کے وسط میں کر دیا جائے گا ۔

اگر کوئی ’نئی سوچ‘ آتی ہے تو نئی حکمتِ عملی بھی سامنے آئے گی اور نیا بیانیہ بھی۔ گو کہ عمران خان کو ان چار ماہ میں حکومت مخالف توکوئی بڑی کامیابی حاصل نہ ہو سکی مگر انہوں نے یقینی طور پر عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ جوڑ لیا ہے۔

ویسے یہ بات کم لوگوں کو پتا ہے کہ خان صاحب پرانے لاڈلے ہیں۔ ایک واقعہ تو خود انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہےکہ ’’یہ جولائی 1988کی بات ہے جب جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے انوار الحق نے حکومت میں شمولیت کی دعوت دی جس پر میں نے معذرت کرلی کیونکہ سیاست میں آنے کا شوق نہیں تھا۔‘‘

 ایک ماہ بعد 17اگست 88 کو ضیاء ایک پراسرار فضائی حادثہ میں جاں بحق ہوگئے۔ لاڈلے تو شریف بھی تھے اور اب بھی بننے کو تیار ہیں لیکن ایک وقت میں ایک ہی ہو سکتا ہے۔ دیکھتے ہیں اس بار کون ہوتا ہے؟

تازہ ترین