• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تقریباً چالیس برس پر محیط اپنے کیرئیر کے دوران بہت کم مواقع اور سچوئشنز ایسی ہوں گی جب مجھے لفظوں کے قحط کا سامنا کرنا پڑا، قلم لڑکھڑایا اور اس کی رگوں میں سیاہی جمتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ بالخصوص باراک اوباما کے ساتھ فوٹو سیشن پر میری کیفیت کچھ ایسی ہی ہے جسے میں صرف محسوس کرسکتا ہوں، بیان نہیں کرسکتا۔
دونوں کی باڈی لینگوئج ،چہرے کے تاثرات اور آنکھیں بہت کچھ بتارہی تھیں اور پھر اوباما کا مربیانہ اور سرپرستانہ سا لہجہ، لفظوں کا بے نیازانہ اور سپر پاورانہ چنائو کہ یہ گہری پیاس اور پانی کی نہیں بے تحاشہ طاقت اور بے تحاشہ کمزوری کی ملاقات تھی۔
اس ون آن ون ڈیڑھ گھنٹی ملاقات کا نتیجہ وہی ہے جو پانی میں مدھانی چلانے کا ہوتا ہے۔ہم خالی خولی اور کھوکھلے لفظوں پر زندہ رہنے والے لوگ ہیں مثلاً.........
’’ہمیں ایڈ نہیں ٹریڈ چاہئے‘‘
’’برابری کی سطح‘‘
’’بھارت کے ساتھ امن کے لئے بے قراریاں‘‘
’’ڈرونز سے لے کر عافیہ تک جیسے معاملات‘‘
پیکرخاکی میں جان ہو تو ایسی باتیں کرنے کہنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی کیا کبھی امریکنوں نے بھی کہا ہے کہ انہیں ہمارے ساتھ’’برابری کی سطح‘‘ درکار ہے یا انہیں پاکستان سے ایڈ نہیں ٹریڈ چاہئے؟ دراصل یہ ساری لغت ہی لایعنی ا ور فضول ہے ،خود کو اورعوام کو فریب دینے کے مترادف ، البتہ اوباما نے یہ سوفیصد درست کہا کہ’’پاکستان اہم سٹرٹیجک پارٹنر ہے‘‘ کیونکہ چھری اور خربوزہ، کبوتر اور شاہین، بگلا اور مچھلی بھی بہت اہم’’سٹرٹیجک پارٹنرز‘‘ ہوتے ہیں۔
واشنگٹن سے شاہین صہبائی نے کیا خوب خبر دی ہے کہ’’نواز شریف کا بیشتر دورہ امریکہ واقفیت بڑھانے کا دورہ نظرآیا‘‘ تو سچ یہ کہ یہی کچھ ان کے ہر دورہ کا ہائی لائٹ ہوتا ہے۔ رہ گئے ڈرونز اور عافیہ تو بقول شاہین وزیر اعظم نے یہ معاملہ تو ا ٹھایا لیکن امریکی صدر پر دبائو نہیں ڈالا تو بھائی! کہنے اور سننے میں کیا جاتا ہے؟ نواز شریف نے کہا، اوباما نے سن لیا کہ دوکان ہوتے ہی اس لئے ہیں کہ ایک سے سن کر دوسرے سے نکال دو۔ دورے کے حوالہ سے ایک دلچسپ خبر یہ ہے کہ نواز اور اوباما کا لباس ایک جیسا تھا یعنی پیکنگ ایک جیسی تھی، اندر’’میٹریل‘‘ بالکل مختلف تھا کہ اوباما ایک سیلف میڈ غریب پروفیسر جبکہ ہمارا وزیر اعظم ایک کھرب پتی بزنس مین ہے۔ ویسے میرا ذاتی خیال ہے کہ لباس میں مماثلت صرف رنگوں تک ہی محدود ہوگی۔ میاں صاحب کا سوٹ بوٹ ٹائی اوباما کے کپڑوں سے کئی گنازیادہ قیمتی ہوں گے کیونکہ خوش خوراکی اور خوش لباسی اوباما جیسے لوگوں کا ایشو نہیں ہوتے۔
امریکہ گزشتہ64سال میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو68ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے، اس رقم کو پاک روپی سے ضرب دیں تو ہوش اڑجائیں گے، غش پڑجائے گا کیونکہ نتیجہ صفر بلکہ سب کچھ ریورس تو اصل رونا یہ نہیں کہ موجودہ وزیر اعظم کا دورہ کیسارہا؟ اور نہ ہی مجھے ان تجزیہ نگاروں کے اس افلاطونی تجزیے سے کوئی دلچسپی ہے
جو’’اگر مگر چونکہ چنانچہ‘‘ میں لپیٹ کر لوگوں کو یہ گولی دے رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں معلوم ہوگا کہ موجودہ دورہ کامیاب رہا یا ناکام......... اصل بات اور المیہ یہ کہ ہم مدتوں سے غیروں کے، اوروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ اس طفیلیئے پن نے ہماری نفسیات کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ ہم اندر سے اس حد تک ہار چکے ہیں کہ خود اپنے قدموں پر مضبوطی سے کھڑا ہونے کا خواب تک دیکھنے کی جرأت بھی موجود نہیں۔ اچھے خاصے لوگ بھی جب امریکہ کے قدموں سے اٹھ کر چین کے پہلو میں جانے کی بات کرتے ہیں تو روح پر چھریاں چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ ہم ایک’’پخ‘‘ کے طور پر ہی جینا کیوں چاہتے ہیں؟ ہمیں ثانوی بلکہ ایکسٹرا کے کردار سے ہی دلچسپی کیوں ہے؟ کیا’’اسلام کا قلعہ‘‘ والی بات فقط ایک قصہ کہانی اور عوام کے لئے صرف ایک سریلی لوری تھی؟
انحطاط، تنزل اور زوال کی کوئی حد ہے کہ نہیں؟
ہزیمت کا یہ سفرروکنا ہے، رینگنے کی بجائے چلنا ہے تو اپنا چلن بدلنا ہوگا اور چلن بدلنے سے مراد یہ ہے کہ اس ملک کے بوسیدہ، فرسودہ بیہودہ حکمران طبقات کو بدلنا ہوگا۔ زہریلا سچ یہ ہے کہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری پاکستان میں کبھی حکومت تبدیل نہیں ہوئی۔ وہی نام نہاد اشرافیہ، وہی رویے،وہی ترجیحات، وہی مائنڈ سیٹ، وہی اعمال اور وہی نتائج۔فیلڈ مارشل ایوب خان کی ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ بلکہ اس سے بھی پہلے لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ سے لے کر جنرل پرویز مشرف کی ڈرون والی اجازت اور اب نواز شریف کے’’کامیاب‘‘ دورہ امریکہ تک کی اصل کہانی ایک ہی ہے۔ کسی نے خلوص دل اور روشن دماغ کے ساتھ اس ملک اور اس کے عوام کو صحیح معنوں میں بلڈ کیا ہوتا تو مجھے نواز اوباما ملاقات کا وہ منظر نہ دیکھنا پڑتا جسے بیان کرنے کے لئے مجھے لفظوں کے قحط کا سامنا ہے، قلم لڑکھڑارہا ہے اور سیاہی قلم کی رگوں میں جمتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔
اپنے عوام کے سامنے کمزور حکمران ہی مہذب و متمول اقوام کے سربراہوں کا آبرومندانہ سامنا کرسکتے ہیں۔ اوباما اپنوں کے مقابلوں پر کمزور ہے تو باقیوں کے لئے طاقت ور ہے۔ یہی سادہ سی بات ستم گروں کو سمجھ نہیں آرہی۔
تازہ ترین