• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

میرا گزشتہ کالم اس بات پر ختم ہوا تھا کہ ہمیں بھٹو خاندان کے ملازم عرس نے یہ بتایا کہ ’’وہ رات میں جیسے ہی محترمہ بے نظیر بھٹو کے کمرے کے پاس سے گزرا تو پہلے زور دار آواز آئی اور اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی دھاڑیں مار کر رونے کی آوازیں آنے لگیں‘‘۔ اس مرحلے پر میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ پھانسی کے بعد حکومت نے بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو ذوالفقار علی بھٹو کا آخری دیدار کرائے بغیر ہی بھٹو کی لاش اپنے کارندوں کے ذریعے گڑھی خدا بخش میں بھٹو خاندان کے آبائی قبرستان میں دفن کردی تھی لیکن بھٹو کے چہلم کے موقع پر ہزاروں لوگ جمع ہوگئے تھے۔ اس اجتماع کی کوریج کے لیے کئی اخبارات کے صحافی آئے ہوئے تھے‘ ان میں‘ میَں بھی شامل تھا اور برطانوی نشریاتی ادارے کے اس وقت کےمتعین نمائندے بھی‘ مجھے اور برطانوی نشریاتی ادارے کے نمائندے کو ایک ہی ہوٹل میں کمرہ ملے، برطانوی نشریاتی ادارے کے نمائندے نے مجھے ایک اہم واقعہ سنایا کہ جس رات بھٹو کو پھانسی دی گئی، وہ اس شام کو اپنے آفس میں خبریں بنا رہا تھا ، اچانک ایک نوجوان لڑکا ہانپتا ہوا اس کے کمرے میں داخل ہوا اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنے لگا کہ برطانوی نشریاتی ادارے کے نمائندے آپ ہیں؟ میں نے ہاں میں جواب دیا تو اس نے ایک لفافہ میرے حوالے کیا اور بتایا کہ وہ اپنے کالج سے پیدل چل کر گھر جارہا تھا تو روڈ پر سے گزرتی ہوئی ایک گاڑی جو ملزموں کو لے کر جاتی ہے،میں سے کوئی چیز کسی نے پھینکی جو آکر اس کے چہرے پر لگی‘ اس نے دیکھا کہ وہ ایک لفافہ تھا جو اس گاڑی سے پھینکا گیا تھا، اس نے وہ لفافہ کھولا تو اس میں موجود ایک کاغذ پر انگریزی کے بڑے لفظوں میں لکھا ہوا تھا "Zulfiqar Ali Bhutto is being hanged tonight" ساتھ ہی نیچے بے نظیر بھٹو کا نام لکھا ہوا تھا اور اس کے نیچے ان کی عرضداشت تھی کہ جس صاحب کو بھی یہ لفافہ ملے اسے فوری طو پر اسلام آباد میں متعین برطانوی نشریاتی ادارے کے نمائندے کو پہنچا دے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے بقول، اس نوجوان نے کہا کہ بھٹو صاحب کی پھانسی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا پیغام پڑھنے کے بعد وہ اتنا جذباتی ہوگیاکہ پنڈی سے اسلام آباد کی طرف بھاگنے لگا‘ بعد میں اسے احساس ہوا کہ اسلام آباد تو بہت دور ہے تو اس نے ٹیکسی لی اور بی بی سی کے دفترپہنچا۔

پچھلے کالم میں‘ میں نے بتایا تھا کہ ضیا الحق کی حکومت بے پناہ ظلم ڈھا رہی تھی مگر سندھ کے عوام قربانیاں دینے سے نہ رُکے اور تحریک زور و شور سے جاری رہی۔ آخر کار حکومت بے نظیر بھٹو کو رہا کرنے پر تو مجبور ہوگئی مگر انہیں ملک بدر کردیا گیا‘ اب محترمہ بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو دبئی میں رہنے لگیں‘ کچھ عرصہ کے بعد جب انہوں نے طے کیا کہ اب انہیں واپس پاکستان جاکر عوام کی قیادت کرنی چاہیے تو انہوں نے اعلان کیا کہ وہ فلاں دن دبئی سے کراچی روانہ ہوں گی۔ جس دن محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان روانگی تھی اس سے ایک دن پہلے ان کی بہن صنم بھٹو جو لندن میں رہائش پذیر تھیں دبئی آئیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو سےکہا کہ وہ ایک خاص مقصد کے لیے دبئی آئی ہیں اور اکیلے میں تفصیلی بات چیت کرنی ہے‘ اس طرح دونوں ایک کمرے میں بیٹھ گئیں۔ میٹنگ میں صنم بھٹو نے بے نظیر بھٹو سے التجا کی کہ ابھی پاکستان نہ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری معلومات کے مطابق آپ اگر پاکستان گئیں تو آپ کوزندہ نہیں چھوڑا جائے گا۔ جوا ب میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا کہ ’’یہ اطلاعات درست ہیں اور لوگ بھی اس خطرے کا اظہار کررہے ہیں ۔‘‘ تاہم، انہوں نے پروگرام منسوخ کرنے سے صاف انکار کردیا‘ اس کے بعد اس ایشو پر دونوں بہنوں کی بحث ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ محترمہ بے نظیر بھٹواچانک خاموش ہوگئیں اور سنجیدگی سے صنم بھٹو کو کہا کہ جو اطلاعات آپ کو ہیں وہ اطلاعات خود ان کو بھی مل چکی ہیں مگر وہ اس خطرے کی وجہ سے کسی طور بھی پاکستان واپسی کا پروگرام منسوخ نہیں کریں گی۔ بے نظیر بھٹو نے کہا کہ ان کی پاکستان واپسی کا سن کر ملک بھر سے لاکھوں لوگ کراچی کے لیے روانہ ہوچکے ہیں اور وہ خود ڈرکر کراچی جانے کا پروگرام منسوخ کر دیں تویہ کیسے ممکن ہے؟ انہوں نے کہا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ کل کراچی کے لیے ضرور روانہ ہوں گی۔ یاد رہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اس سے پہلے لندن سے لاہور آئی تھیں‘ اس وقت بھی ان کے استقبال کے لیے لاکھوں لوگ لاہور ایئر پورٹ آئے تھے اور بعد میں انہیں ایک بہت بڑے جلوس کی شکل میں لاہور سے روانہ کیا گیا تھا مگر اس بار ان کا دبئی سے کراچی آنا ہوا تو اس کی تاریخ ہی الگ ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین