• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفتاح اسماعیل اس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ اپنی جماعت میں بھی ایک متنازع شخصیت بن چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی ہی جماعت کے ایک حصے کے لئےپنچنگ بیگ بن گئے ہیں۔

مفتاح اسماعیل جس آئی ایم ایف پروگرام میں ملک کو دوبارہ شامل کر رہے ہیں اور اس وقت وہ جس قسم کے مشکل فیصلے کر رہے ہیں ، کیا وہ واقعی اتنے غلط ہیں کہ اگلے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹرز کی ناراضی کا باعث بن سکتے ہیں؟پاکستان مسلم لیگ (ن)اس وقت کسی حد تک مکافاتِ عمل کا شکار بھی ہے۔ 2018ء میں جب مسلم لیگ (ن)نے اپنا دورِ اقتدار پورا کیا، اُس وقت تک پاکستان کے زرِ مبادلہ کے بیرونی ذخائر کو روپے کی قدر بحال کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا۔ جب روپیہ قدرے مستحکم تھا اور درآمدات نسبتاً سستی پڑتی تھیں تو ہم اشیائے تعیش سمیت بے شمار ایسی اشیا بھی درآمد کرنے لگے جو مقامی سطح پر بھی تیار کی جا سکتی تھیں جس کا نتیجہ غیرمعمولی کرنٹ اکائونٹ خسارے کی صورت میں نکلا۔ اور جب تحریک انصاف برسر اقتدار آئی تو اُس نے آئی ایم ایف کے پاس جانے میں تاخیرکی اور دوست ممالک سے قرض لینے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ اگر (ن)لیگ نے کرنٹ اکائونٹ بلند ترین سطح پر چھوڑا تھا تو تحریک انصاف کے معاشی فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے معاشی صورتحال مزید گمبھیر ہو گئی تھی۔ پھر تحریک انصاف کو کورونا کی صورت میں ایک قدرتی آفت کا بھی سامنا کرنا پڑا جیسا کہ آج کل اتحادی حکومت سیلاب کا کر رہی ہے۔ لیکن سیلاب ایک ایسی قدرتی آفت ہے جس نے صرف پاکستان کو متاثر کیا ہے جب کہ کورونا ایک عالمی وبا تھی جس نے پوری دنیا کو شدید متاثر کیا تھا جس کے نقصانات کے ازالے اور اُس پر قابو پانے کےلئے تحریک انصاف کو عالمی مالیاتی فنڈ کی طرف سے فنڈ بھی ملا تھا، قرضوں میں چھوٹ بھی ملی اور عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے کی صورت میں معاشی آسانیاں بھی میسر آئیں جب کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ بھی کچھ عرصہ کے لئے سرپلس میں بدل گیا تھا لیکن بجائے اس کے کہ ان معاشی آسانیوں سے معیشت کو استحکام پہنچایا جاتا، تحریکِ انصاف پھر سے گروتھ کی طرف چلی گئی جس سے کرنٹ اکائونٹ خسارے میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ اس معاشی گروتھ کو آگے بڑھانے کے لئے حفیظ شیخ کو چلتا کیا گیا اور شوکت ترین کو نیا وزیر خزانہ مقرر کر دیاگیا۔ شوکت ترین نے عوام کوبہ ظاہر ’’ریلیف‘‘ دینے کی کوشش کی لیکن اُنہیں بالآخر آئی ایم ایف کے پاس ہی جانا پڑا۔اس مرتبہ آئی ایم ایف نے قرض پروگرام کی بحالی کےلئے سخت شرائط حکومت کے سامنے رکھیں جن میں سے ایک پٹرولیم مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کرنا بھی تھا۔

اس آئی ایم ایف پروگرام میں سخت شرائط کی ایک بڑی وجہ کسی حد تک امریکہ کا افغانستان پر غصہ تھا لیکن بالآخر تحریک انصاف اور آئی ایم ایف کے مابین معاہدہ ہو گیااور خان صاحب کی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا لیکن جب عمران خان کو تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں اپنا اقتدار ختم ہوتا نظر آیا تو انہوں نے ملکی مفادات پر ذاتی اور سیاسی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات پر بڑی رعایت دینے کا اعلان کر دیا، جس کا سارا بوجھ (ن)لیگ یا اتحادی حکومت پر پڑا۔ پھر حکومت میں آنے کے بعد سَوا سال کے دورِ حکومت میں (ن)لیگ نے دو مہینے تو اسی سوچ بچار میں ضائع کر دئیے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کےلئے جو سیاسی قیمت چکانا پڑے گی وہ چکائی جانی چاہئے یا نہیں۔آخر کار اب جب کہ آئی ایم ایف کی مزید سخت شرائط کے بعد ،جن میں پٹرولیم مصنوعات پر لیوی عائد کرنا اور مہنگی بجلی سرِ فہرست ہیں، قرض پروگرام بحال ہو چکا ہے تومسلم لیگ (ن)کے اندر سے ہی آوازیں بلند ہونا شروع ہو چکی ہیں کہ مفتاح اسماعیل نے تو جماعت کی تباہی کی بنیاد رکھ دی ہے، اس سے جماعت کا ووٹ بینک متاثر ہوگاجب کہ مفتاح اسماعیل کا مؤقف یہ ہے کہ ووٹ بینک کی خیر ہے، میں اس وقت پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا رہا ہوں۔

پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن)کی اس روداد سے جو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ جو اقدامات پاکستان اور اس کی معیشت کے لئے اچھے ثابت ہو سکتے ہیں، وہ سیاسی جماعتوں کے مفاد میں نہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ملکی معیشت کی بحالی کے لئے جو اقدامات کررہی ہیں، اول تو اُس کی قیمت عوام ادا کرتے ہیں اور دوسرا منفی پہلو یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے ان اقدامات پر فوراً ریورس گیئر لگا دیتی ہیں اور اُن کی اصل روح کے مطابق اُن پر عملدرآمد کروانے سے کتراتی ہیں جن کی وجہ سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ اگلی آنے والی حکومت بھی اپنی معاشی پالیسیوں کا سارا بوجھ عوام پر ڈالتی ہے۔ ہماری اشرافیہ جس معاشی ترقی پر جشن مناتی ہے وہ معاشی ترقی نہیں بلکہ معاشی تباہی ہے۔ جیسے درآمدی اشیا کی عام دستیابی، مہنگی گاڑیوں اور موبائل فونز پر کم ڈیوٹی اور روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر کم رکھنا۔

معیشت کی یہ کم یا غلط سمجھ صرف اشرافیہ کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کا مسئلہ بھی ہے۔ اب جیسے (ن)لیگ والے یہ باتیں کر رہے ہیں کہ اسحٰق ڈار کو اگرواپس لایا جاتا ہے تو وہ نہ صرف ڈالر سستا کر دیں گے بلکہ مہنگائی میں بھی کمی لے آئیں گے، وہ شاید یہ بھول رہے ہیں کہ ملکی تاریخ کے سب سے بڑے کرنٹ اکائونٹ خسارے کے پیچھے بھی اسحٰق ڈار ہی کا ہاتھ ہے۔ اسحٰق ڈار صاحب جس طرح کی معاشی پالیسی چلاتے رہے ہیں ماہرینِ معیشت اُسے اکنامکس کے بجائے ’’ڈار-و- نامکس‘‘ کہتے ہیں، جس میں بظاہر یہی لگتا ہے کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں لیکن در حقیقت ملکی معیشت مزید تنزلی کی طرف گامزن ہوتی ہے۔ شاید ہی کوئی قابل اور معیشت کی درست سوجھ بوجھ رکھنے والا ماہرِ معاشیات مفتاح اسماعیل کی موجودہ معاشی پالیسیوں کو غلط قرار دے گا۔ عوام اِن معاشی پالیسیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ضرور ہیں، آئی ایم ایف کی شرائط بھی پہلے سے زیادہ سخت ہیں، سیلاب نے کام مزید مشکل اور خراب کر دیا ہے لیکن ملکی معیشت کی جو صورتحال مفتاح اسماعیل کے سامنے ہے اُس میں اس کے علاوہ اور کیا چارہ ہے؟ پاکستان پھر سے روپے کی قدر کی مصنوعی بحالی اور مزید کرنٹ اکائونٹ خسارے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب مفتاح اسماعیل کو ہٹانے یا اُن کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے تمام اسٹیک ہولڈرز کو یہ سوچنا چاہئے کہ جس مشکل سے ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں واپس شامل ہوئے ہیں یا جو قربانیاں ہم نے دی ہیں اُس سے آگے کیسے بڑھیں، ملکی برآمدات کیسے بڑھائیں، ریاستی اخراجات کیسے کم کریں تاکہ ہم پھر سے اس نہج پر آ کر کھڑے نہ ہوں۔ہماری تباہ حال معیشت کے زمینی حقائق وزیر خزانہ تبدیل کرنے سے تبدیل نہیں ہو سکتے وہ پھر چاہے اسحٰق ڈار ہوں یا کوئی اور۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین