سارہ انعام قتل کیس میں سینئر صحافی ایاز امیر کو شہزاد ٹاؤن پولیس نے رہا کر دیا۔
اس سے قبل سینئر سول جج نے ایاز امیر کو آج ہی مقدمے سے ڈسچارج کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ایاز امیر کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔
سارہ انعام قتل کیس میں سینئر صحافی ایاز امیر کو اسلام آباد پولیس کی جانب سے ایک روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد آج صبح سول جج کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
اسلام آباد پولیس نے عدالت سے ایاز امیر کے مزید 5 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ رات کو مزید تفتیش کی، مرکزی ملزم شاہ نواز کا ان سے رابطہ ہوا تھا، مقتولہ سارہ انعام کے والد بھی اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔
عدالت نے پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ آپ کے پاس بادی النظر میں ایاز امیر کے خلاف کیا ثبوت ہیں؟
پراسیکیوٹر نے کہا کہ سارہ انعام کےقتل کے بعد مرکزی ملزم شاہنواز کا اپنے والد سے رابطہ ہوا ہے، مقتولہ سارہ انعام کے والدین کے پاس تمام ثبوت موجود ہیں۔
اس پر ایاز امیر کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد پولیس ایک بٹن دبائے تو سی ڈی آر نکل آتی ہے، ایاز امیر کا بیٹے شاہنواز سے رابطہ واقعے کے بعد ہوا ہے، باپ کا بیٹے سے رابطہ ہوجائے تو کیا دفعہ 109 لگتی ہے؟
وکیل ایاز امیر نے مزید کہا کہ پھر تو جس جس سے رابطہ ہوا پولیس ان کو ملزم بنا دے گی، ابھی تو اسلام آباد پولیس ثبوت جمع کر رہی ہے اور ایاز امیر کو گرفتار کر لیا گیا ہے، مقتولہ کے والدین کا ایاز امیر کے خلاف کوئی بیان سامنے نہیں آیا، اسلام آباد پولیس گرفتار کرنے کے بعد ثبوت جمع کر رہی ہے۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ واٹس ایپ کال کا سی ڈی آر نہیں آتا، فون کو فارنزک کے لیے بھیج دیا ہے۔
اس پر ایاز امیر کے وکیل نے کہا کہ جب ثبوت آ جائیں تو پھر وارنٹ لے کر گرفتار کر لیں۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ ثبوت بنانے ہوتے تو ہم بنا دیتے، ہم ایمانداری سے کام کر رہے ہیں۔
ایاز امیر کے وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم ایاز امیر کا اس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، پولیس نے عدالت سے وارنٹِ گرفتاری حاصل کر کے انہیں گرفتار کیا۔
وکیل نےسوال اٹھایا کہ ملزم ایاز امیر کے خلاف اسلام آباد پولیس کے پاس ثبوت کیا ہیں؟ بیرونِ ملک سے اگر کوئی شخص آ رہا ہے تو وہ اس کیس کا گواہ نہیں ہو سکتا۔
ایاز امیرکے وکیل نے دلائل میں کہا کہ واقعے کے وقت ملزم ایاز امیر چکوال میں موجود تھے، انہوں نے واقعہ پتہ چلنے پر پولیس کو اطلاع دی۔
وکیل نے دلائل دیتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ 35 برس سے ایاز امیر کا فارم ہاؤس سے کوئی تعلق نہیں، انہیں مقدمے سے ڈسچارج کیا جائے۔
واضح رہے کہ جمعہ 23 ستمبر کو اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں سینئر صحافی ایاز امیر کے بیٹے شاہ نواز نے نہایت سفاکی سے اپنی اہلیہ سارہ کو ڈمبل کے وار کر کے قتل کر دیا تھا۔
ملزم شاہ نواز کو پولیس نے جائے واردات سے گرفتار کر لیا تھا۔
ملزم کی والدہ ثمینہ شاہ اور والد ایاز امیر کو مقتولہ سارہ کے چچا اور چچی نے بطور ملزم نامزد کیا تھا، جس کے بعد ایاز امیر کو اعانتِ جرم کی دفعہ 109 میں گرفتار گرفتار کر لیا گیا تھا۔
اسلام آباد کی عدالت نے ایاز امیر کو گزشتہ سماعت کے موقع پر ایک روز کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دیا تھا۔