• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

198؍ میں سے 101؍ ملکوں میں افراتفری اور بدامنی کا اندیشہ

کراچی (نیوز ڈیسک) ایک بین الاقوامی کنسلٹنگ اور انٹیلی جنس کمپنی نے دنیا کے حالات اور واقعات کو دیکھ کر دعویٰ کیا ہے کہ دنیا کے آدھے سے زیادہ ملکوں میں افراتفری، بے چینی اور بد امنی کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ اپنی رپورٹ میں ادارے نے بتایا ہے کہ آنے والے وقتوں میں مہنگائی، جنگوں اور اشیائے ضروریہ کی قلت کے باعث عدم استحکام میں زبردست اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ ویرسیک میپل کروفٹ نامی برطانوی کمپنی نے دنیا کے 198؍ میں سے 101؍ ملکوں میں افراتفری اور بے چینی کے امکانات معلوم کرنے کیلئے تحقیق کی اور سول ان ریسٹ انڈیکس کو دیکھتے ہوئے بتایا ہے کہ آئندہ 6؍ ماہ کے دوران صورتحال عالمی سطح پر کشیدہ رہنے کا امکان ہے۔ رپورٹ کے مطابق، خطرات کو دیکھا جائے تو رواں سال کی دوسری اور تیسری سہ ماہی کے دوران یہ اپنے عروج پر پہنچے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف 42؍ ممالک ایسے ہیں جن میں اس طرح کے خطرات میں کمی واقع ہوئی ہے، اگرچہ 2022ء کی پہلی ششماہی کے دوران کئی ہائی پروفائل اور بڑے مظاہرے اور احتجاج ہوئے ہیں لیکن آنے والی ششماہی کے دوران بدترین صورتحال پیش آنے کا امکان ہے۔ ویرسیک کی جانب سے تیار کیا گیا انڈیکس کئی مختلف عوامل پر مشتمل ہے جن میں مہنگائی کی شرح، ایک ملک کا مخالفین کی آواز پر رد عمل کا اظہار اور ملکی انفرا اسٹرکچر پر خانہ جنگی کے اثرات وغیرہ شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، پیرو، کینیا، ایکواڈور اور ایران جیسے ملکوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سڑکوں پر بے چینی اور افراتفری موجود ہے جس کی وجہ مہنگائی اور دیگر وجوہات ہیں۔ جدید تاریخ کے سب سے بدترین بحران اور غیر ملکی زر مبادلہ کی قلت کی وجہ سے سری لنکا میں حکومت کو عدم استحکام کا سامنا ہے۔ کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جہاں متوسط آمدنی والا طبقہ زیادہ ہے، ان ملکوں میں کورونا کی وبا کے دوران عوام کو سوشل پروٹیکشن کے نام پر فنڈز فراہم کیے گئے تھے لیکن اب یہ ممالک اُن ضروری فنڈز کو جمع کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں جو انہیں عوام کیلئے درکار ہیں۔ مسائل صرف ترقی پذیر ممالک میں نہیں۔ یورپی یونین کے امیر ترین ممالک کو بھی سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈز، جرمنی اور بوسنیا ہرزیگوینا کو یوکرین جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا ہے۔ کمپنی کی رپورٹ کے مطابق، یوکرین مسئلے کی وجہ سے خوراک کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، زبردست مہنگائی کا دور آ چکا ہے، جبکہ کئی یورپی ملکوں میں ایندھن کے استعمال کی ذمہ دار ایجنسیاں اور وزارتیں عوام سے اپیل کر رہی ہیں کہ وہ بجلی و گیس کے استعمال میں کمی لائیں۔ نیدرلینڈز اپنی ضرورت کی 15؍ فیصد گیس روس سے درآمد کرتا ہے لیکن وہ بھی اس تذبذب کا شکار ہے کہ اپنے گیس کے ذخائر سے بھرے ریجن گورنیجن میں گیس کی ڈرلنگ کرے یا نہ کرے، کیونکہ ڈرلنگ کی وجہ سے اس خطے میں پہلے ہی تباہ کن زلزلے آ چکے ہیں جن کی وجہ سے 26؍ ہزار گھر تباہ ہوئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق، آئندہ چند ماہ کے دوران مہنگائی اپنے عروج پر ہوگی اور 2023ء تک بدتر شکل اختیار کر جائے گی۔ اس خطرے سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ عالمی سطح پر خوراک اور توانائی (بجلی و گیس) کی قیمتوں میں زبردست واقع ہو اور اس اقدام کا عالمی بے چینی اور افراتفری پر منفی اثر مرتب ہو سکتا ہے۔ ویرسیک میپل کروفٹ کے مطابق، صورتحال کی خرابی میں موسم کا بھی عمل دخل ہے۔ اگر رواں موسم خزاں اور موسم سرما کے دوران سردی کی شدت شدید ترین رہی تو اس سے بجلی و گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ صورتحال کی مزید خرابی کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ ہیٹ ویوز کی وجہ سے خشک سالی کے نتیجے میں فصلوں کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور یہ معاملہ بھی خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ دوسری جانب فرانس میں 38؍ ملکوں کے تعاون سے قائم بین الاقوامی تنظیم ’’انجمن برائے اقتصادی تعاون و ترقی یعنی آرگنائزیشن فار اکنامک کو آپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (او ای سی ڈی) نے خبردار کیا ہے کہ روس اور یوکرین تنازع کی وجہ سے کم آمدنی والے ملکوں میں قحط اور سماجی بے چینی کی وجہ سے شدید مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ تنظیم نے اپنی ششماہی رپورٹ میں بتایا ہے کہ عالمی سطح پر جی ڈی پی کی شرح (جو گزشتہ سال اسی عرصہ کے دوران 5.9؍ فیصد تھی) میں رواں سال تیزی سے 3؍ فیصد کمی واقع ہوگی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یوکرین تنازع کی وجہ سے نہ صرف خوراک بلکہ بجلی و گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، کئی یورپی ملکوں کو سست معاشی نمو اور بے قابو مہنگائی کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ایسے کم آمدنی والے ممالک جو اپنی خوراک کا بیشتر حصہ یوکرین یا روس سے درآمد کرتے ہیں؛ کو قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دونوں ملک بین الاقوامی سطح پر گندم کی 30؍ فیصد ضروریات کو پورا کرتے ہیں جبک مکئی اور قدرتی کھاد بھی برآمد کرتے ہیں۔ او ای سی ڈی کے سیکریٹری جنرل متایس کورمن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دنیا یوکرین روس تنازع کی بھاری قیمت چکا رہی ہے، عالمی معیشت کی رفتار سست ہو چکی ہے، جبکہ کئی ملکوں میں نمو رک چکی ہے جبکہ معاشی اشاریوں کو دیکھتے ہوئے طویل عرصہ تک صورتحال باعث تشویش رہنے کا امکان نظر آتا ہے۔
اہم خبریں سے مزید