• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ پولیس کا کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ختم ہونے کا دعویٰ

کراچی (نیوز ڈیسک) سندھ پولیس نے جمعے کو کراچی میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں شہر میں جرائم میں اضافے کا تاثر بعض عناصر کی جانب سے سوشل میڈیا پر جعلی اور غیر متعلق ویڈیوز پیش کرنے کے باعث پیدا ہوا۔آبادی کے حساب سے کراچی میں لاہور اور پشاور سے کم کرائم ہوتا ہے ، شہر میں ٹارگٹ کلنگ اور قتل کی وارداتیں تقریباً ختم ہوگئی ہیں۔ کراچی میں امن و امان کی صورت حال اور جرائم میں مبینہ اضافے سے متعلق آئی جی سندھ پولیس کے نمائندے طارق قریشی اور سی آئی اے سندھ کے سربراہ کریم خان نے آج سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دی۔ پولیس کے سینئر افسران نے کراچی میں موٹرسائیکل کی چوری کے واقعات میں اضافے کی وجہ چینی کمپنیوں کی موٹرسائیکلز کو قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک مخصوص چینی موٹر سائیکل کچھ عرصے سے مارکیٹ میں آیا ہے، جسے کسی بھی چابی سے کھولا جا سکتا ہے۔ ’اس چینی موٹر سائیکل کے آنے کے بعد سے موٹرسائیکل چھینے جانے کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔‘ پولیس افسران نے مزید کہا کہ موٹر سائیکل سنیچنگ کی دوسری اہم وجوہات میں کراچی کی بہت بڑی آبادی اور موٹر سائیکلوں کی انتہائی زیادہ تعداد ہے۔’کراچی میں ہر روز 18 ہزار نئے موٹر سائیکلوں کی رجسٹریشن ہو رہی ہے، جو ایک بڑی تعداد ہے۔‘سینیٹر محسن عزیز کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں دونوں افسران اراکین کمیٹی کے سوالات پر وضاحتیں دیتے رہے کہ شہر کراچی میں جرائم میں کوئی زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماہ رواں کے شروع میں ایک نو بیاہتا جوڑے سے موبائل چھیننے کی واردات کے دوران مرد کو قتل کیا گیا اور ایک قاری صاحب سے موبائل کے چھننے کے باعث کراچی اور اس کے جرائم میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے۔ انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں کراچی میں مجموعی طور پر 21 موبائل فون چھینے گئے، لیکن ان دو واقعات کی وجہ سے بڑا عوامی ردعمل دیکھنے میں آیا۔ سینئر پولیس افسران کا کہنا تھا پہلے ہفتے کے واقعات کے بعد ایک مخصوص گروہ نے سوشل میڈیا پر کراچی کے جرائم سے متعلق ایک منظم پروپیگنڈا شروع کر دیا، جس میں جعلی اور غیر متعلقہ ویڈیوز استعمال کی گئیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پروپیگنڈا کرنے والے ’انڈیا اور لاطینی امریکی کے کسی ملک میں ہونے والے جرم کی ویڈیو‘ کراچی کے نام کے ساتھ سوشل میڈیا پر شیئر کرتے رہے۔ ’اس ساری مہم سے ملک کے دوسرے حصوں میں تاثر گیا کہ شاید کراچی میں جرائم میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔‘ کمیٹی چیئرمین محسن عزیز کے سوال پر سندھ پولیس کے اہلکاروں نے بتایا کہ جعلی اور غیر متعلقہ ویڈیوز شیئر کرنے والوں کی شناخت دریافت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اور ابھی تک اتنا معلوم ہو سکا ہے کہ یہ کام دبئی سے کیا جا رہا ہے۔ سندھ پولیس کے سینئر افسران کا کہنا تھا کہ کراچی تین کروڑ آبادی کا شہر ہے، جس میں جرائم کے کئی عوامل ہیں۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تین سال جرائم کی رپورٹنگ کو بہتر بنانے کی خاطر ایف آئی آرز کی آزادانہ رپورٹنگ کی پالیسی بنائی گئی، جس میں ماضی کے برعکس زیادہ مقدمات درج ہونے پر کسی ایس ایچ او یا تھانہ انچارج کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی۔ ’اس پالیسی کے باعث گذشتہ تین سالوں کے دوران کراچی میں جرائم کی تعداد میں کئی گنا زیادہ نظر آتا ہے۔ تاہم اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اب امن و امان سے متعلقہ واقعات کی درست تعداد معلوم ہو رہی ہے۔‘ سندھ پولیس کے سینیئر افسران کا مزید کہنا تھا کہ کراچی میں قتل کی وارداتیں تقریباً ختم ہو چکی ہیں، جو جرائم کی تعداد میں کمی یا زیادتی کا لٹمس ٹیسٹ سمجھی جاتی ہیں۔