اقوامِ متحدہ کی جانب سے دُنیا بَھر میں11اکتوبر کو’’انٹرنیشنل ڈے آف دِی گرل چائلڈ‘‘منایا جاتا ہے،جس کا مقصد دُنیا بَھر میں بیٹیوں کے ساتھ ہونے والی صنفی نا انصافی کے خلاف آواز بُلند کرنا اور اس سے متعلق شعور و آگہی اُجاگر کرنا ہے۔ جب کہ دینِ اسلام کی تو بنیادی تعلیمات میں بیٹیوں کی پرورش میں نرمی، محبّت اور برابری کے سلوک کے ساتھ اُن کی زندگی کی حفاظت کا حکم شامل ہے۔ اسلام میں بیٹی کی پیدایش پر اظہارِ افسوس کی شدید مذمت اور ان سے حُسنِ سلوک کی خاص تاکید کی گئی ہے۔ حضورِ پاکﷺ نے بیٹیوں کی پرورش پر والدین کو جنّت کی خوش خبری سُنائی ہے۔
عموماً گھر آنگن میں پھول کِھلنے کی خبر مکینوں کے لیے نوید بن کر آتی ہے۔سو، بیٹا ہو یا بیٹی، اس کی زندگی، صحت و تن درستی کے لیے دُعا کریں۔ جیسی خوشی کا اظہار بیٹے کی پیدایش پر کیا جاتا ہے، بیٹی کی آمد پر بھی اُسی خوشی کا اظہار ہونا چاہیے۔ بیٹی ایک ہو یا ایک سے زائد کبھی اُنہیں اپنے لیے مسئلہ نہ سمجھیں، نہ اُن کی پیدایش پر اپنا دِل تنگ کریں۔ دوسروں کو مبارک باد دینے میں دیر کریں، نہ افسوس کے جملے زبان سے نکالیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے یہاں عموماً بیٹی کے اچھے نصیب کی روایتی دُعا دی جاتی ہے اور بہت حسرت کا ظاہر کی جاتی ہے ۔
ایسا ہر گز نہ کریں کہ اس سے منفی سوچ کا اظہار ہوتا ہے۔بیٹی کی پیدایش پر خوشی و مسّرت کے جذبات ایک دوسرے تک منتقل کریں۔ اُن کے لیےاپنےدِل کے دروازے کھولیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹیوں کے والدین ہونے کا اعزاز بخشاہے، تو فخر کے ساتھ سَر اُٹھا کر جیئں اور بچیوں کو بھی یہی فخر و اعتماد دیں۔ان سے مساوی سلوک اختیار کریں، شفقت سے پیش آئیں، ان کی تعلیمی سرگرمیوں میں دِل چسپی لیں۔ زمانے کے نشیب و فراز سے نبرد آزما ہونے اور شعور کی سیڑھیاں چڑھنے میں ان کی مدد کریں ۔
بلاشبہ بچیاں بہت حسّاس، نازک دِل ہوتی ہیں۔ پھر اُن کی پرورش میں بھی بہت سی نزاکتوں کا خیال رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ اُنہیں آئندہ ایک گھر کی بنیاد، ایک خاندان کی تشکیل میں اپنا حصّہ ڈالنا اور بحیثیت خاتون اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اُنہیں نہ صرف اپنی ذمّے داریاں ادا کرنے کا احساس دلائیں، بلکہ خوش اسلوبی سے نبھانے کے لیے ان کی ذہن سازی بھی کریں۔
نیز، ایک اچھی انسان، ایک با عمل مسلمان اور معاشرے کی کار آمد فرد بنائیں۔ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کےلیے بھی امکانات کی ایک دُنیا موجود ہے، اپنی بیٹیوں کو اس دُنیامیں اپنا مقام بنانے دیں۔ بچیوں کو فیصلوں میں شریک رکھیں ۔انہیں مشورہ کرنا بھی سکھائیں اور ان سے مختلف ذاتی اور معاشرتی معاملات میں مشورے لیا بھی لیں۔ یاد رکھیں، والدین کا دیا ہوا اعتماد بچیوں کو جذباتی طورپر مضبوط تر بناتا ہے۔ پھر وہ قدم جماکر چلتی ہیں اور سخت حالات کا مقابلہ کرنے سے ہرگز نہیں گھبراتیں۔ نیز، گھر کا دیا ہوا اعتماد بچیوں کو کوئی بھی غلط قدم اُٹھانے سے بھی روکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ وقت بدل گیا ہے،زمانے کی قدریں تبدیل ہوگئی ہیں، لہٰذا بچّیوں پر زیادہ روک ٹوک نہ کی جائے، اُنہیں اپنے مطابق زندگی گزارنے اور طور طریقے اختیار کرنے کی اجازت دی جائے، تو حقیقت یہ ہے کہ زمانہ چاہے کتنا ہی بدل جائے، لیکن اپنے بچیوں کو دین کے اصولوں اور تہذیبی قدروں کی پاس داری کا سبق ضرور دیں، ان کے لباس اور رویّے میں حیا شامل رکھیں۔ بچیاں نرم دِل کی مالک ہوتی ہیں۔ اس لیے بعض اوقات محبّت کے نام پر ٹریپ ہوکر خود بھی نقصان اُٹھاتی ہیں اور والدین کے لیے بھی دُکھ کا سبب بنتی ہیں۔سو، والدین، خاص طور پر ماں کو چاہیے کہ ان کے ساتھ دِلی تعلق گہرا اور مضبوط رکھیں۔ انہیں یہ احساس دلائیں کہ اس دُنیا میں والدین سے بہتر کوئی دوست نہیں ۔
سچ تو یہ ہے کہ بیٹیاں گھر آنگن میں اُڑنے پِھرنے والی رنگ برنگی تتلیوں کی مانند ہوتی ہیں، تو یہ والدین کا فرض ہے کہ ان کے پَروں کے رنگ اُترنے دیں، نہ ہی ان کی اُڑان کم شور پڑنے دیں۔ انہیں کچھ حدود و قیود کا پابند ضرور کریں۔ آزادی کے نام پر گم راہی کے راستے پر چلنے نہ دیا جائے، مگر اپنی بَھرپور توجّہ، محبّت اور اچھی تعلیم و تربیت سے ان کے پَروں کو اعتبار کا رنگ اور اونچا اُڑنے کا اعتماد ضرور دیں ۔