• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا محمّد راشد شفیع

حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ وہ عظیم رہنما اور آخری نبی ہیں کہ جن کی مثال قیامت تک نہیں مل سکتی۔آپﷺکی زندگی کا ہر ہر پہلو قابلِ رشک اور قابلِ تقلید ہے، خواہ اُس کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے۔مفکّرِ اسلام، مولانا سیّد ابوالحسن ندویؒ اپنے رسالے’’اسلامی مزاج وماحول کی تشکیل وحفاظت میں حدیث کا بنیادی کردار‘‘میں رقم طراز ہیں،’’محمّد رسول اللہ ﷺنے جس طرح دنیا کو نیا آسمانی صحیفہ، نئے علوم عطا کیے،اُسی طرح نئے اخلاق، نئے جذبات وکیفیات، نیا یقین وایمان، نیا ذوق وشوق، نئی بلند نظری، نیا جذبۂ ایثار،نیا شوقِ آخرت، نیا جذبۂ زہد و قناعت،دنیا کی متاعِ حقیر اور دولتِ فانی کی تحقیر، نئی محبّت والفت، حُسنِ سلوک وہم دردی، مکارمِ اخلاق، ذوقِ عبادت، خوف وخشیت، توبہ وانابت، دُعا وتضرع کی دولت عطا فرمائی اور انہی خصوصیات کی بنیاد پر وہ نیا اسلامی معاشرہ اور دینی ماحول قائم ہوا، جسے عہدِ رسالتؐ اور عہدِ صحابہؓ کے الفاظ سے عام طور پر تعبیر کیا جاتا ہے۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان مقاصد ونتائجِ بعثت کے کامل ترین نمائندے اور بہترین نمونہ تھے۔اگر ان شعبہ ہائے نبوّت کو عام زندگی میں جلوہ گر دیکھنا ہو، تو صحابۂ کرامؓ کی جماعت کو دیکھ لیں۔‘‘(ص،10)۔

سرکارِ دوعالمﷺ کی حیاتِ طیبہ کا ایک نمایاں پہلو آپﷺکے عظیم اخلاق تھے کہ جن کے سبب عرب کے سخت، کھردرے مزاج ماحول میں انقلاب برپا ہوگیا۔آپﷺ کے کریمانہ اخلاق کی بدولت لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے اور پتّھر دل موم ہوتے چلے گئے۔ کسی نے کیا خُوب کہا ہے کہ’’خود نہ تھے، جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے…کیا نظر تھی کہ جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا۔‘‘ حضرت انسؓ، رسولِ کریم ﷺ کے خادمِ خاص تھے۔ اُن کے دن رات حضورﷺ کی خدمت میں گزرتے۔ ایک بار فرمایا’’مَیں نے پورے دس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی،آنحضرت ﷺنے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا اور میرے کسی کام پر یہ نہیں فرمایا کہ’’ تم نے یہ کیوں کیا؟‘‘ اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ’’ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟‘‘

بلاشبہ، نبی کریمﷺلوگوں میں سب سے زیادہ محاسنِ اخلاق کے حامل تھے۔‘‘ (شمائلِ ترمذی)۔ ایک مرتبہ چند صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ’’ اے اُمّ المومنین! حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کے اخلاق اور معمولات کے بارے میں کچھ بتائیے۔‘‘ اُمّ المومنینؓ نے جواب دیا کہ’’کان خلقہ القرآن( کیا تم لوگوں نے قرآن نہیں پڑھا؟)‘‘(ابوداؤد شریف)۔یعنی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن تھا۔ قرآنی تعلیمات سرکارِ دو عالم ﷺکے اخلاق میں رچی بسی ہوئی تھیں۔ قرآنِ کریم میں آپﷺ کے اعلیٰ اخلاق کی شہادت دی گئی ہے کہ ”بے شک، آپ صلی اللہ علیہ وسلّم اخلاق کے اعلیٰ پیمانے پر ہیں۔“ (سورۃ القلم)۔ 

زید بن سعنہ ایک مشہور یہودی عالم تھا، وہ حق کا متلاشی تھا۔ اُس نے تورات میں اللہ کے رسولؐ کی جو صفات پڑھ رکھی تھیں، نبی کریمﷺ کو اُن صفات کی روشنی میں دیکھا، تو اُسے یقین ہوگیا کہ آپﷺ اللہ کے سچّے رسول ہیں، البتہ وہ دو مزید صفات کی تصدیق کرنا چاہتا تھا۔ایک یہ کہ تحمّل غصّے پر غالب ہوگا اور دوسری صفت یہ کہ شدید جہالت کے سلوک کے باوجود آپﷺ کے حلم میں اضافہ ہی ہوتا چلاجائے گا۔اُس کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کھجوریں بطور قرض خریدیں اور قرض کی ادائی کی ایک مدّت مقرّر کی۔

تاہم، مَیں مقررّہ وقت سے چند دن پہلے ہی آپﷺ کے پاس پہنچ گیا۔اللہ کے رسولﷺ، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عُمر فاروقؓ اور دیگر صحابۂ کرامؓ کے ساتھ ایک جنازے میں شرکت کے لیے بقیع الغرقد میں تشریف لے گئے تھے۔ جب آپؐ جنازے سے فارغ ہوئے، تو مَیں بھی وہاں پہنچ گیا۔ مَیں نے اپنے منصوبے کے مطابق اچانک آپؐ کی چادر پکڑلی اور اُسے خُوب زور سے کھینچا۔چادر آپؐ کے کندھے سے اُتر گئی۔ مَیں نے نہایت کرخت لہجے میں کہا،’’ میرا قرضہ واپس نہیں کروگے؟ تم بنو عبدالمطلب قرض واپس کرنے میں اچھے نہیں ہو۔ادائے قرض میں بہت دیر کرتے ہو۔‘‘آپﷺ یہ باتیں سُن کر ذرا سے بھی مشتعل نہیں ہوئے، آپﷺ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ 

سیّدنا فاروقِ اعظمؓ نے یہ ہر زہ سرائی سُنی، تو خاموش نہ رہ سکے، بولے’’اے اللہ کے دشمن! تمہاری یہ جرأت کہ تم اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ اِس قسم کی گفتگو کررہے ہو۔ اُس ذات کی قسم، جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اگر مجھے اللہ کے رسولﷺ کا خیال نہ ہوتا، تو مَیں اِس بدتمیزی پر تمہاری گردن اُڑا دیتا۔‘‘ آپﷺ نے سیّدنا عُمر فاروقؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا’’ عُمرؓ! ایسی بات نہ کرو۔ تمہیں چاہیے تھا کہ مجھ سے کہتے کہ مَیں اس کا قرض خوش اسلوبی سے ادا کردوں اور اسے سمجھاتے کہ قرض کا تقاضا بھلے طریقے سے کرو۔‘‘پھراُنھیں کہا کہ’’ جاؤ اور اس کا قرض واپس کردو اور اسے 20 صاع یعنی50 کلو کھجوریں زیادہ ادا کرو۔‘‘سیّدنا عمرؓ نے پوچھا کہ ’’کھجوریں زیادہ کیوں دیں؟‘‘

آپﷺ نے فرمایا’’چوں کہ تم نے اُسے ڈرایا دھمکایا ہے، اِس لیے اس کے بدلے میں زیادہ کھجوریں ادا کرو۔‘‘ زید بن سعنہ، اللہ کے رسولﷺ کی گفتگو پوری توجّہ سے سُن رہا تھا۔ حضرت عُمر فاروقؓ اُسے ساتھ لے کر بیت المال گئے اور قرض واپس کرنے کے ساتھ حسبِ ہدایت 20صاع کھجوریں زیادہ دیں۔ جب اُس نے کھجوریں وصول کرلیں، تو سیّدنا عُمر فاروقؓ سے کہا’’ مَیں حق کا متلاشی تھا اور مَیں نے آپؐ میں نبوّت کی تمام صفات دیکھ لی تھیں۔ صرف دو باقی رہ گئی تھیں، آج وہ بھی دیکھ لیں۔ پھر وہ حضرت عُمرؓ کے ساتھ مسجدِ نبویؐ آیا اور آپﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرلیا۔حضرت زید بن سعنہؓ اسلام قبول کرنے کے بعد کئی غزوات میں آپﷺ کے ساتھ رہے اور اللہ کی راہ میں دل کھول کر مال خرچ کرتے رہے۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ’’ آپ ﷺ نے کبھی کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا، بجز جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘( مسلم شریف)۔آپؓ نے یہ بھی فرمایا کہ’’آپ ﷺ فحش گو تھے اور نہ ہی اِس طرح کے کاموں کے قریب جاتے۔ نہ بازاروں میں شور و شغل کیا کرتے تھے۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے، معافی اور درگزر کا معاملہ فرماتے‘‘(شمائلِ ترمذی)۔جب آپﷺ مکّہ مکرّمہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے، تو مکّی زندگی کی وہ ساری تکالیف اور اذیتیں آپﷺ کے سامنے تھیں،جو دشمنوں نے آپﷺ اور آپﷺ کے جاں نثاروں کو پہنچائی تھیں۔آپﷺ نے اہلِ مکّہ کو اکٹھا کر کے پوچھا،’’ آج کے دن تم لوگ مجھ سے کس سلوک کی توقّع رکھتے ہو؟‘‘ 

اس پر مکّے والوں نے کہا کہ’’ ہم آپؐ سے ایک شریف آدمی اور ایک شریف آدمی کے بیٹے کے سلوک کی توقّع رکھتے ہیں۔‘‘ اِس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ’’ آج کے دن تم سے کوئی انتقام نہیں لیا جائے گا، جاو،ٔ تم سب آزاد ہو۔‘‘ حضور ﷺ کے پاس اختیار اور طاقت تھی، اِس موقعے پر دشمنوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کر سکتے تھے،مگر آپؐ نے سب کو معاف کردیا۔ حضورﷺ کے سب سے بڑے دشمن، ابو جہل کا بیٹا، عکرمہ، جس کے بارے میں کوئی تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اُسے بھی معافی مل جائے گی، مکّے سے بھاگ کر جدہ چلا گیا اور وہاں سے کسی دُور دراز علاقے کی طرف جانے کا ارادہ کر رہا تھا۔اِسی اثنا، اُس کی اہلیہ، حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور پوچھا کہ’’ یا رسول اللہؐ! کیا عکرمہ کے لیے بھی معافی ہے۔‘‘ 

آپؐ نے فرمایا’’ ہاں۔‘‘ اُس نے پھر پوچھا ’’وہ عکرمہ، جو ابو جہل کا بیٹا ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا،’’ ہاں جانتا ہوں، اُس کے لیے بھی معافی ہے۔‘‘ پوچھا’’ کیا مَیں عکرمہ کو ڈھونڈ کر لے آؤں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا’’ ہاں لے آؤ۔‘‘ چناں چہ وہ جدہ گئی اور اپنے خاوند کو واپس لے آئی۔ جس کے بعد عکرمہ نے اسلام قبول کرلیا۔حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ’’ مَیں ایک سفر میں رسول اللہﷺ کے ہم رکاب تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر زیب تن فرمائی تھی، جس کی کور موٹی تھی، ایک اعرابی(دیہاتی) آدھمکا، اور چادر کا کنارہ پکڑ کر اس زور سے جھٹکا دیا کہ چادر کی کور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن اور شانوں پر نشان پڑگئے۔ 

آپﷺ اُس کی طرف متوجّہ ہوئے، تو اُس نے بدویانہ لہجے میں کہا”اللہ کا دیا ہوا جو مال آپﷺ کے پاس ہے، اُس میں سے میرے دونوں اونٹ لاد دیں اور یہ بھی سُن لیں کہ جو کچھ مجھے دیں گے، وہ آپؐ کا یا آپؐ کے والد کا مال نہیں ہے۔“ اس بدوی کی تلخ نوائی کو بھی آپﷺ نے دامنِ عفو میں جگہ دی اور خاموش رہے۔ اُسے صرف اِتنا کہا کہ’’بے شک، مال تو اللہ ہی کا ہے اور مَیں اُس کا بندہ ہوں۔ مگر اے اعرابی! تُو بتا، کیا تیرے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے، جو تُو نے میرے ساتھ کیا ہے؟‘‘ اُس نے کہا”نہیں۔“ آپﷺ نے پوچھا،’’ کیوں نہیں؟‘‘ اُس نے بے باکانہ کہا”اِس لیے کہ آپؐ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے۔“ یہ سُنتے ہی رسول اللہﷺ کو ہنسی آگئی اور آپﷺ نے حکم دیا کہ اس کے ایک اونٹ پر جَو اور دوسرے پر کھجوریں لاد دی جائیں۔

نبی کریمؐ کی تواضع کا حال یہ تھا کہ انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ جب مجلس میں تشریف لاتے، تو ہمارا جی چاہتا کہ احتراماً کھڑے ہو جائیں، لیکن ہم کھڑے نہیں ہوتے تھے کہ حضورﷺ کو یہ بات پسند نہیں تھی۔صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضورﷺ سے زیادہ نرم کلام کرنے والا نہیں دیکھا،آپؐ کے چہرے پر تبسّم رہتا۔ جب بات کرتے، تو مسکراتے۔اپنے ساتھیوں کے ساتھ خوش طبعی کا معاملہ بھی فرماتے تھے۔زاہرؓ نامی ایک دیہاتی صحابی تھے، جو آپؐ کے لیے کبھی گاؤں سے کوئی تحفہ وغیرہ بھی بھیجا کرتے تھے، اِسی طرح حضورﷺ بھی اُنہیں تحفے دیا کرتے تھے۔ 

زاہرؓ ایک دفعہ بازار میں تھے کہ حضورؐ نے اُنھیں پیچھے سے اِس طرح دونوں بازوؤں میں جکڑ لیا کہ وہ حضور ؐ کو نہ دیکھ سکیں۔ اُنہوں نے پوچھا کہ’’ کون ہے؟‘‘ حضورؐ نے جواب نہیں دیا کہ وہ خود ہی بُوجھیں۔چناں چہ دوسری یا تیسری دفعہ پوچھنے پر حضورﷺ نے اُنہیں چھوڑا۔آپؐ کی خدمت میں ایک بڑھیا آئی اور کہنے لگی،’’ یا رسول اللہ ﷺ! میرے لیے دُعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنّت عطا فرمائے۔‘‘آپؐ نے فرمایا،’’ کوئی بڑھیا جنّت میں نہیں جائے گی۔‘‘ اس پر وہ پریشان ہوگئیں کہ مَیں تو دُعا کے لیے آئی تھی، لیکن حضورﷺ یہ کیا ارشاد فرما رہے ہیں؟ 

اُس کی پریشانی دیکھ کر حضورﷺ نے بتایا کہ’’ سب لوگ جوان ہو کر جنّت میں جائیں گے۔‘‘اِسی طرح ایک شخص آیا اور حضورﷺ سے درخواست کی کہ’’ میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے، آپﷺ مجھے بیت المال سے ایک اونٹ عنایت کر دیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا،’’ اچھا مَیں تمہیں اونٹ کا بچّہ دے دیتا ہوں۔‘‘ وہ فکرمند ہو کر کہنے لگا’’ یا رسول اللہﷺ! مَیں اونٹ کا بچّہ لے کر کیا کروں گا، مجھے تو سفر کے لیے سواری چاہیے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا، ’’بھئی، ہر اونٹ کسی اونٹ کا بچّہ ہی ہوتا ہے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنی بعثت کا مقصد یہ بیان فرمایا کہ’’ مَیں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے آیا ہوں اور دنیا کو اخلاق کا بہترین نمونہ دکھانے آیا ہوں۔‘‘ آپﷺ نے اپنے ساتھیوں کی اعلیٰ اخلاقی تربیت کی اور علمائے کرام نے آپﷺ کی تربیت کی شاہ کار صحابہ کرامؓ کی جماعت کو آپﷺ کا ایک معجزہ قرار دیا ہے۔ اِس وقت ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم بھی اپنے اخلاق و کردار کا نبی کریمﷺ کی سیرتِ مبارکہ کی روشنی میں جائزہ لیں اور خود کو اُن اوصاف سے مزیّن کریں،جو نبی کریمﷺ کے حقیقی امّتی ہونے کے شایانِ شان ہیں۔یہی سیرتِ طیّبہ اور ماہِ ربیع الاوّل کا پیغام ہے۔