اکتوبر کے پہلے ہفتے میں کراچی کے 3 شہری اسٹریٹ کرمنلز کے ہاتھوں قتل جبکہ 9 زخمی ہوگئے۔
کراچی میں اسٹریٹ کرائم روکنے میں پولیس ناکام نظر آرہی ہے، اکتوبر کا پہلا ہفتہ بھی شہریوں پر بھاری گزرا ہے، ابتدائی سات روز کے دوران بے رحم اسٹریٹ کرمنلز نے تین افراد کی زندگی کے چراغ گل کر دیے۔
لوٹ مار کی مختلف وارداتوں میں 9 شہری زخمی بھی ہوئے، ہزاروں کی پولیس نفری کے باوجود ڈاکوؤں کا حوصلہ اور شہریوں کا خوف کئی گنا بڑھ رہا ہے۔
کراچی میں لگ بھگ 42 ہزار کی پولیس کی نفری اور 35 ہزار اہلکار دستیاب ہیں، مگر شہری پھر بھی ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر ہیں، کیونکہ ہزاروں پولیس اہلکار وی آئی پیز کی رکھوالی پر تعینات ہیں۔ رہ گئے ڈھائی کروڑ شہری۔ تو ان میں سے ہر 715 پر فقط ایک پولیس والا ہے۔ ایسے میں جرائم پیشہ عناصر کا حوصلہ اور شہریوں کا خوف کئی گنا بڑھ گیا ہے۔
رواں ماہ کے پہلے ہفتے بھی ڈاکو دن رات دندناتے رہے، اس دوران جس نے مزاحمت کی اسے زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا یا بیچارا زخمی ہوا۔
3 اکتوبر کو شادمان ٹاؤن میں موبائل فون چھیننے پر مزاحمت کے دوران ڈاکوؤں نے فائرنگ کرکے طالب علم حافظ اسامہ کو قتل کر دیا۔
6 اکتوبر کو ناردرن بائی پاس پر ڈکیتی کے دوران فائرنگ سے 20 سال کا بلال جبکہ اسی روز بلدیہ ٹاؤن میں 28 سال کے میاں خان موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔
ایک طرف تو شہر میں اسٹریٹ کرائمز بڑھتے گئے جبکہ دوسری جانب پولیس کے مطابق صرف 9 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے ضلع شرقی میں چار، وسطی، غربی، کیماڑی، کورنگی اور ملیر میں اسٹریٹ کرائم کا ایک، ایک واقعہ رپورٹ ہوا۔