ہمارے مصلحین اور قائدین میں سے جن اکابر نے اپنے افکار و خیالات ضرورتاً اردو نثرمیں تحریر کیے، اُن میں سیّد احمد خان (1817ء-1898ء) شاید سب سے نمایاں ہیں،جن کی تقریباً ساری ہی تحریریں (اداریے، مضامین و مقالات، مکاتیب و خطبات) اُن کی زندگی ہی میں شائع ہونا شروع ہوئیں اور اخبارات و رسائل اور کتابوں میں محفوظ بھی ہوتی رہیں۔ ان ہی تحریروں میں اُن کے وہ خطوط بھی ہیں، جو وہ اپنی زندگی کے ہر عملی اور علمی دَور میں اپنے دوست احباب، اعزا و افسران اور عُہدے داران و نظما کو لکھتے رہے۔
یہ اُس وقت سے اب تک مختلف صُورتوں جیسے مجموعوں، کتب و رسائل اور تحقیق و تدوین کے اہتمام سے مرتّب و شائع ہو رہے ہیں۔چوں کہ یہ ساری تحریریں سرسیّد احمد خان کی زندگی اور اُن کی خدمات کے تفصیلی جائزے و مطالعے اور تحقیقات کے لیے ناگزیر ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں، اِس لیے محقّقین و مصنّفین نے بھی انھیں کماحقہ اہمیت دے کر استعمال کیا ہے اور ادارتی حوالے سے بھی جائز طور پر اہمیت حاصل کرتی رہیں۔ اس طرح کے علمی و طباعتی ادارے، جنھوں نے سرسیّد پر کسی بھی نوعیت کے تحقیقی و تدوینی کام کیے، بھارت، بالخصوص علی گڑھ میں تو موجود ہیں، لیکن پاکستان میں لاہور کے ادبی ادارے ’’مجلسِ ترقّیٔ ادب‘‘ نے بھی سیّد احمد خان کے احوال و آثار پر متنوّع اور مثالی کام کیا ہے۔
اس ادارے کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ یہاں سے سرسیّد کی تمام نثری تصانیف کے متون نہایت اہتمام سے مرتّب ہوکر شایانِ شان طریقے سے شائع ہوئے، جن میں ’’مقالاتِ سر سیّد‘‘، ’’خطباتِ سرسیّد‘‘،’’مکاتیبِ سرسیّد‘‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں اور ان میں سے بیش تر کام تحریکِ علی گڑھ و اکابر علی گڑھ سے متاثر ایک پاکستانی رفیق، مولانا محمّد اسمٰعیل پانی پتی (۱۸۹۳ء-۱۹۷۲ء) نے تنہا بھی انجام دے کر تلاش و تحقیق اور تدوین و جمع آوری کی ایک عُمدہ مثال پیش کی۔جب کہ اب اس اہم اور بنیادی اہمیت کے حامل کام کی جانب علی گڑھ ہی کے ایک فیض یافتہ اور لائق و فاضل مصنّف و محقّق، ڈاکٹر عطا خورشید کی پوری توجّہ مرکوز ہے۔
تب ہی انھوں نے ایک وقیع کام’’کلیاتِ خطباتِ سرسیّد‘‘ کی جمع آوری اور تحقیق و تدوین کی صُورت انجام دیا ہے۔نیز، وہ’’مکاتیبِ سرسیّد‘‘ کی جمع آوری اور تحقیق و تدین کے بھی ڈاکٹر عطا خورشید کے مرتبہ’’ کلیاتِ خطباتِ سرسیّد‘‘ کی جلد اوّل کے مقدمے میں خطبات کی مختلف وقتوں اور متنوّع نوعیتوں کی اشاعتوں کی جو تفصیلات پیش کی گئی ہیں، وہ بنیادی تعارف کے لیے کافی ہیں۔اِس ضمن میں سرسیّد کی زندگی میں1890ء میں منشی سراج الدّین احمد کے مرتبہ مجموعے سے جو روایت شروع ہوئی، وہ منشی محمّد امام الدّین گجراتی کے مرتبہ وقیع و ضخیم مجموعے’’مکمل مجموعہ لیکچرز و اسپیچز‘‘ مطبوعہ ۱۹۰۰ء لاہور تک پہنچی۔
یہ اس طرح کے تدوینی اہتمام کے دورِ اوّل کا کارنامہ تھا، پھر جس کے آس پاس اور بعد میں سرسیّد کی تقاریر اور خطبات کے متعدّد مجموعے یا انفرادی تقاریر و خطبات مختلف صُورتوں میں مرتّب و شائع ہوتے رہے، جب کہ اِس سلسلے کا اب تک کا یہ آخری مجموعہ’’کلیاتِ خطباتِ سرسیّد‘‘ ہے، جو عطا خورشید کی تلاش و جستجو اور تحقیق و ترتیب کے حُسن و سلیقے کے ساتھ تین جِلدوں میں مرتّب ہوکر منظرِ عام پر آیا ہے۔
اس سے قبل یہ مولانا محمداسمٰعیل پانی پتی کا مرتّب کردہ مجموعہ دو جِلدوں میں شائع ہوا تھا، لیکن چوں کہ زیرِ تذکرہ مجموعے میں104 اسے خطبات شامل ہیں، جو اس سے قبل کسی مجموعے میں نہیں تھے،تو یہ تین جلدوں میں شایع ہوا ہے اور یہ ایک نہایت اہم محقّقانہ کوشش کے سبب اِس کلیات کا حصّہ بنے ہیں۔ اس سنجیدہ مساعی کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ سرسیّد کی شخصیت، ان کی قومی و سیاسی اور علمی و ادبی خدمات کے عقیدت مندوں کی کوئی کمی نہیں۔
گرچہ مصنّفین و محقّقین اور اہلِ علم و دانش نے اپنی اپنی استعداد اور صلاحیتوں کے مطابق سرسیّد کی تصانیف، تحریروں اور خطبات و مکاتیب وغیرہ کی جمع وترتیب اور عمدہ تحقیق و تدوین کے ذریعے سارے ہی تحریری آثار نہایت سلیقے و اہتمام سے مرتّب و شائع کردیے ہیں، لیکن اب بھی ان کوششوں پر نظرِ ثانی اور ترتیبی لحاظ سے ترامیم و اضافتوں کا عمل جاری ہے، جو سرسیّد کی عظمت و حیثیت کے علمی اعتراف کا ایک واضح ثبوت ہے۔ اس ضمن میں زیرِ تذکرہ خطبات بھی ایک منفرد و مثالی کارنامہ ہے ،جو’’ سرسیدیات‘‘ کے باب میں یقیناً ایک بنیادی وسیلہ اور ناگزیر ماخذ شمار ہوتا رہے گا۔