• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرانس کے معروف ادیب سارتر نے’’ نو ایگزٹ‘‘ کے نام سے ایک ڈرامہ تحریر کیا تھا ۔ جس میں تین افراد ایک پراسرار کمرے میں مقفل ہو جاتے ہیں اور تینوں ایک دوسرے کے حوالے سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے گناہ گار ہیں ۔ اسی ڈرامے کو سامنے رکھتے ہوئے ڈینیل مارکی جو معروف امریکی دانشور ہے اور میری ان سے برسوں کی شناسائی ہے ،نے 2013ءمیں اپنی چھپنے والی کتاب

" No Exit from Pakistan America's tortured Relationship with Islamabad"

کے عنوان سے شائع کی تھی ۔ اس کتاب میں ان گنجلکوں کا ذکر ہےجو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو الجھادیتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے شکوے ، شکایات کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کو امریکہ سے کیا شکایات ہیں ان کا ذکر تو پاکستان میں ہوتا ہی رہتا ہے مگر امریکہ کو پاکستان سے کیا شکایات ہیں اور ان کا تدارک کیسے ہو اس کتاب میں اس کی تفصیل موجود ہے ۔ پاکستان میں اپنایا جانے والا غیر ذمہ دارانہ رویہ بھی مسائل کا باعث بن جاتا ہے اور یہ شکایت کوئی ایسی بے جا بھی نہیں ہے ۔ ابھی ماضی قریب میں عمران خان کی حکومت ہی کی بات ہے کہ افغان طالبان کو امریکا سے مذاکرات میں سہولت فراہم کی گئی ، اور پھر جب امریکہ افغانستان سے رخصت ہونے لگا تو اس کو پاکستان سے گزرنے کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کی گئی تا کہ ان کی اور ان کے ساز و سامان کی پرامن واپسی ممکن ہو سکے ۔ تاہم یہ سب کچھ کرنے کے باوجود پاکستان کو جواب میں کیا حاصل ہوا ؟ جواب آئے گا کچھ بھی نہیں ۔ یہاں تک کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کے معاملات کو درست نہ کروا سکا اور اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ خارجہ تعلقات کو پاکستان کے قومی مفاد کی بجائے صرف سیاسی نفع نقصان میں دیکھا جا رہا تھا کہ عوامی جذبات کا کیسے استعمال کیا جائے۔امریکی مفادات کو امریکیوں کی توقع سے بھی زیادہ پورا کردیا مگر اس کے باوجود کچھ حاصل نہ کیا جا سکامگر جب حکومت لڑکھڑانے لگی تو جو رہے سہے تعلقات تھے ان پر بھی تلوار چلا دی گئی اور حکومت کی رخصتی کا الزام امریکہ کے سر دھر دیا گیاتاکہ عوام کارکردگی پر سوال کرنے کی طرف جانے کا سوچ بھی نہ سکیں۔عوام کو سائفرکا کیا پتا،خط اور سائفر میں کیا فرق ہوتا ہے کون جانتا ہے ۔ جیسی حکمت عملی اختیار کی گئی ۔ یہ غیر ذمہ داری صرف امریکہ تک ہی محدود نہیں رہی۔عمران خان حکومت نے سی پیک کو صرف پاکستان کی کامیابی کے طور پر نہیں دیکھا بلکہ تنگ نظری کا مظاہرہ کیا اور اس کی رفتار کچھوے سے بھی سست کردی حالانکہ یہ سارے پاکستان کا منصوبہ ہے۔ بہرحال سی پیک کی عمران خان دور میں کیا رفتارتھی ، اس کو دیکھنے کے لئے ان کے دور میں جے سی سی کے کتنے اجلاس ہوئے ؟ کتنے نئےپروجیکٹ لگے ان کی تفصیلات کو سامنے رکھیں اور اس منصوبے کے آغاز سے لے کر شاہد خاقان عباسی کے دور تک کیا رفتار تھی سامنے رکھ لیجئے، فرق 180 ڈگری کا سامنے آجائے گا ۔ سی پیک چین کے بی آر آئی پروجیکٹ کابنیادی منصوبہ ہے جب یہ ہی سست رفتاری کا شکار ہو گیا تو باقی منصوبوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے سر پیٹ لینے کو دل چاہتا ہے ۔ بی آر آئی کے ذریعے چین کی کیا ترجیحات ہیں اس کو بیان کرتے ہوئے چینی صدر شی نے کہا تھا کہ ’’چین پر امن ترقی اور باہمی مفاد کی بنیاد پر تعاون کے لئے پر عزم ہے ۔ ہم تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر بی آر آئی کو ایک ایسا منصوبہ بناناچاہتا ہے جو تمام مشترکہ چیلنجوں کا مقابلہ کرے ، ایک ایسا راستہ جو عوام کی صحت کی ضروریات کا تحفظ کرے، ایسا راستہ جو معاشی بحالی اور سماجی ترقی کا ہو‘‘۔سی پیک ایکایسا منصوبہ ہے جس سے یہ تمام مشترک مفادات وطن عزیز کو بھی حاصل ہونا تھے اور ہونے ہیں مگر ان کو صرف اپنی ذاتی اغراض کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ۔ قرضوں کے بوجھ کے پروپیگنڈا سے شروع ہوکر اس کو منجمد کر دینے کی تجاویز دی جانے لگیں اوراسے عملی طور پر کم و بیش منجمد ہی کر دیا گیا ۔ چین کی دوستی پاکستان کے ساتھ ہے اور رہے گی مگر نقصان بہرحال نقصان ہوتا ہے اور نقصان کا احساس ہونا چاہیے۔ حالیہ آڈیو لیکس مگریہ بتا رہی ہیں کہ نقصان کا ازالہ کرنے کا احساس ماضی کی حکومت کو آخری دم تک نہیں تھا ،اسی لئے اس وقت کی ایک خاتون سفارتی معاملات کو کھیل سمجھنے والوں کے اجلاس میں چین سے بھی کھیل جانے کا بتا رہی ہیں ۔ وزیر اعظم شہباز شریف نومبر میں چین کے دورے پر اس نقصان کا ازالہ کرنے کی غرض سے روانہ ہو رہے ہیں اور ان کے اس دورے کے حوالے سے امریکی سفارت کار بھی اکثر استفسار کرتے تھے کہ وہ کب چین کا دورہ کریں گے ۔ اس دورے پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس دورے کے حوالے سے جو اجلاس منعقد ہوا ہے اس پر چینی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے مکمل تیاری نہیں تھی جو اب ہونی چاہئے۔

تازہ ترین