یہ لندن براستہ قطر جانے والی پرواز تھی جو لاہور ائیر پورٹ سے چند لمحوں میں اڑان بھرنے والی تھی۔اچانک مسافر طیارے میں موجود کسی شناسا آواز نے مجھے پیچھے مڑنے پر مجبور کردیا۔نئی آنے والی مسافر مریم نواز اپنی نشست پر براجمان ہوچکی تھیں۔انہیں دیکھ کر میری یادداشت مجھے ساڑھے چار سال پیچھے لے گئی۔یہ وہی ائیرپورٹ تھا،وہی لندن کی پرواز تھی،وہی مریم نواز تھیں۔ فرق مگریہ تھا کہ آج پرواز لندن سے لاہور پہنچی نہیں تھی بلکہ اس پرواز کو لاہور سے روانہ ہوکر لندن پہنچنا تھا۔مریم نواز آج کی پرواز میں ریاستی جبر و لاقانونیت کے رحم و کرم پر نہیں بلکہ طویل سیاسی جدوجہد کے بعد اپنے والد سے ملنے لندن جارہی تھیں۔مجھے آج بھی یاد ہے جب لاہور ائیر پورٹ پر اترنے والی بین الاقوامی پرواز کے اندر پوری ریاستی طاقت نے دھاوا بول دیا تھا۔یہ لحاظ تک نہ کیا گیا کہ جس مسافر کو گرفتار کرنے کے لئے پھرتیاں دکھائی جارہی تھیں،وہ تین مرتبہ کا سابق وزیراعظم تھامگر افسو س....جولائی 2018کی اس شام قانون مکمل طور پر سورہا تھا۔ملک میں لاقانونیت اپنے عروج پر تھی۔منصوبہ ساز آس لگائے بیٹھے تھے کہ شاید باپ ،بیٹی کو بے رحمانہ طریقے سے گرفتار کرکے مسلم لیگ ن کا نام و نشان مٹادیا جائے گا۔لیکن اللہ رب العزت بہترین منصوبہ سازہے اور حتمی منصوبہ بندی اللہ کی ہی کامیاب ہوتی ہے۔آج وہی مریم نواز اسی لاہور ائیر پورٹ سے لندن جارہی تھیں،وقت اور موسم مکمل طور پر بدل چکا تھا۔مریم نواز اور میاں نواز شریف کی اس ساڑھے پانچ سال کی جدوجہد میں بہت سوں کے لئے نشانیاں ہیں۔میاں نواز شریف میں خامیاں بھی ہوں گی مگر ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ نامساعد حالات میں بھی اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔پہلے اڈیالہ جیل اور پھر کوٹ لکھپت جیل میں قید کے دوران نواز شریف سے ملنے جیل باقاعدگی سے جانا ہوتا تھا۔نوازشریف کو ہمیشہ ہمت اور حوصلے کا پہاڑ پایا۔نواز شریف جیسے مضبوط اعصاب کبھی کسی شخص کے نہیں دیکھے۔دلیل اور محبت سے ان سے جو مرضی منوا لیں مگر دھونس اور دھاندلی سے انہیں ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹا سکتے۔لندن میں حالیہ قیام کے دوران بدلتے سیاسی حالات پر ان کی رائے جاننے کا موقع ملا۔نواز شریف ہمیشہ کی طرح آج بھی سویلین بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے نظریات پر کھڑے ہیں۔تمام جمہوریت پسندوں کی طرح میاں صاحب کا بھی یہی ماننا ہے کہ عدلیہ اور فوج سمیت تمام ادارے پارلیمنٹ کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔پارلیمنٹ کے علاوہ کسی کو بھی آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا حق نہیں ہے۔نہ ہی کوئی ادارہ آئین کو re-writeکرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی آئین کو روندسکتا ہے۔
پارلیمنٹ سپریم اور مقدم ہے۔پارلیمنٹ کا قائد ایوان وزیراعظم ہوتا ہے اوروزیراعظم ریاست کا قانونی و حقیقی چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے،جس کی سپر میسی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔میاں صاحب کی رائے سے اتفاق ہے کہ جو شخص بائیس کروڑ عوام کے ووٹ لے کر وزیراعظم بنتا ہے،یہ اس کا حق ہے کہ کس عہدے پر کس شخص کو لگانا اورکس طرح ریاستی انتظام و انصرام چلانا ہے۔ یہ مناسب نہیں ہے کہ منتخب وزیراعظم ربڑ اسٹیمپ بن جائے اور اس کے ماتحت کام کرنے والے سپر وزیراعظم بن جائیں۔ہمسایہ ملک بھارت میں عدلیہ مکمل آزاد ہے مگر سپریم کورٹ آف انڈیا کا چیف جسٹس بھی انتظامی معاملات میں وزیراعظم کی اجازت کے بغیر مداخلت نہیں کرسکتا۔اسی طرح سے فوج کا سربراہ اپنے ادارے کے حوالے سے مکمل بااختیار ہے مگر سپریم اتھارٹی وزیراعظم ہی کی ہے۔
جس ملک میں عدالتی نظام پر سوالیہ نشان ہو،جب چاہا منتخب وزیراعظم کو نااہل کردیا اور جب زیادہ ناراضی ہوئی تو گرفتار بھی کروادیا،جہاں پر وزیراعظم کے ماتحت ادارے جے آئی ٹی کے نام پر من پسند والیم ٹین بناتے رہیں،واٹس ایپ کالز اور میسجز پر فیصلے تحریر ہو تے رہے ،ایک حاضر سروس افسر احتساب عدالت کے باہر کیمروں کی گرفت میں آجائے،احتساب عدالت کی سزا اسلام آباد ہائیکورٹ تین سال بعد کالعدم قرار دے،ملزم خاتون ہو اور 250سے زائد پیشیاں بے گناہی ثابت کرنے میں لگ جائیں۔ایسے ملک میں کہاں معاشی استحکام آنا ہے؟جب تک ہم اپنی غلطیوںکی اصلاح نہیں کریں گے اور عدالتی نظام پر ازسر نو قانون سازی نہیں کریں گے ،تب تک یہ سسٹم ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ دوسری جنگ عظیم میں جب برطانیہ تباہی کے دہانے پر تھا،جرمن فوجیں کارپٹ بمباری کررہی تھیں تو چرچل نے ایک تاریخی بات کہی تھی کہ جب تک برطانیہ میں عدالتیں انصاف فراہم کررہی ہیں، برطانیہ کو کچھ نہیں ہوگا۔جس ملک میں تین مرتبہ کے سابق وزیراعظم کو جھوٹے اور بے بنیاد مقدمے میں صرف اس لئے پھنسا دیا جائے کہ وہ ہمارا تابعدار نہیں ،اس نظام پر کیا کہا جاسکتا ہے؟ اس وزیراعظم کو تین ماہ میں سزا دلوانے کے لئے مانیٹرنگ جج لگایا گیا اور آج اسے بے گناہی ثابت کرتے کرتے چار سال لگ گئے۔ مریم نواز کی بریت دراصل نواز شریف کی بریت ہے ۔لیکن مریم نواز کی بریت کا فیصلہ سسٹم پر سوالیہ نشان ہے کہ وہ احتساب عدالت جس کی مانیٹرنگ کی جارہی ہوتی ہے،وہ ثبوتوں سے ہٹ کر ملزم کو سزا دیتی ہے ۔پھر ہائیکورٹ چار سال بعد ملزم کو عدم ثبوتوں کی بنیاد پر بری کردیتی ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں کہ غلط سزا کیوں اور کس کے کہنے پر دی گئی؟ ہم نے اگرمضبوط معاشی پاکستان دیکھنا ہے تو اس سسٹم کو بہتر بنانا ہوگا اورعدالتی اصلاحات کرنا ہوں گی۔ ایک ایسا مضبوط نظام کھڑا کرنا ہوگا کہ کوئی بھی فرد ِواحد ترازو کا سہارا لے کر ناانصافی پر مبنی فیصلے صادر نہ کرسکے۔