عالیہ شمیم
بہت دِنوں بعد انیلا ’’خان وِلا‘‘ میں قدم رکھ رہی تھی ،جہاں پھیلےگہرے سنّاٹے اور یادوں کے پنچھیوں نے اس کے قدم شل کر دیئے۔یہ اس کا آبائی گھر تھا، جو اس کے مرحوم باپ نے بڑے ارمانوں سے بنایا تھا، جس کی ایک ایک اینٹ انھوں نے اپنے سامنے چُنوائی تھی۔ والد کے رعب و دبدبے کا یہ عالم تھا کہ گھر اور خاندان والے اُن کی آواز سُن کر ہی کانپ جاتےتھے۔ در اصل خان صاحب (انیلا کے والد) اصول پرست اور وقت کے پابند انسان تھے۔وہ پوری زندگی خود بھی قائد اعظم کے فرمان ’’کام، کام اور کام‘‘ پر عمل پیرا رہے اور سب کو، بالخصوص اپنے بچّوں کو بھی محنتی، اصول پرست اور وقت کا پابند ہی دیکھنا چاہتے تھے۔ انہیں ذرّہ بھر بےقاعدگی پسند نہ تھی۔
گیٹ کا آہنی دروازہ کھولتے ہی انیلا کی نگاہ بائیں جانب بنے چھوٹے سے لان پر اُٹھی ، جو کسی اُجڑے چمن کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ’’ابھی ایک سال پہلے تک یہ لان کس قدر خُوب صُورت، ہرا بَھرا تھا۔ زیادہ پرانی بات تو نہیں، جب دسمبر کے ایک دن، چمکیلی دُھوپ سینکتے ہوئے مَیں نے لان میں بیٹھ کر کالی مرچ کے ساتھ مالٹے کھائے تھے۔ابّا چاہے کتنے ہی سخت تھے، لیکن کِھلانے پلانے میں کبھی کمی یا کنجوسی نہیں کی۔ ‘‘ اس نے ایک آہ بھرتے ہوئے سوچا۔ خان صاحب کا لان گو چھوٹا سا تھا، مگر پھلوں،سبزیوں سے مالا مال، لدا پھندا رہتا۔سفید بینگن، لیموں، ٹماٹر، بھنڈی، توری، ہری مرچوں سمیت انواع و اقسام کے رنگ برنگے پھول خان صاحب کی باغ بانی سے محبّت کی دلیل تھے۔
پھر سُرخ بجری کی روش، سائیڈ پر بنے آہنی پنجروں میں رکھے مکاؤ، گرے اور آسٹریلین توتوں سے لان کی رونق دوچند ہوجاتی۔ لیکن، صرف ایک ہی سال میں برسوں کی محنت سے سینچا لان ویران ہو چُکا تھا۔ حالاں کہ پرندے تو اب بھی وہاں موجود تھے، لیکن ان کی آوازوں میں بھی وہ جوش، چہک باقی نہ رہی تھی، جو خان صاحب کے زمانے میں تھی۔ شاید وہ بھی اپنے مالک کے بنا اُداس اور لان کی حالتِ زار پر افسردہ تھے۔
بے ترتیب گھاس، سوکھی کیاریاں، صفائی نہ ستھرائی ، پرندوں کے پانی کے برتنوں پر جمی کائی گھر والوں کی لان سے عدم توجہی کاثبوت چیخ چیخ کردے رہے تھے۔ ’’ابّا کے سامنے اگر کبھی مالی نے اس غیر ذمّے داری کا مظاہرہ کیا ہوتا، تو مالی کا حشر پورا محلّہ دیکھتا۔‘‘ انیلا نے دل میں سوچا اور لبوں پر پھیکی سی ایک مُسکان پھیل گئی۔ باپ کی یاد سے اُس کے قدم لڑکھڑانے سے لگے، گھر کے اندر جاتے ہوئے اس کا دل بند سا ہورہا تھا۔ اسی لیے وہ جانے کتنی ہی دیر چُپ چاپ سی لان میں کھڑی ماضی میں کھوئی رہی، پھر بالآخر بمشکل ہمّت مجتمع کر کے گھر میں داخل ہوگئی۔
لاؤنج میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے اس کی نگاہ سامنے کی دیوار پر پڑی، جہاں کئی برس سے رکھا بڑا سا آبنوسی تخت اب غائب تھا۔ ابّا کی گرج دار آواز اُس کے کانوں میں گونج اُٹھی ’’میاں! سوچنا بھی نہیں کہ میری زندگی میں یہ تخت یہاں سے ہٹایا جائے گا۔ یہ کوئی عام تخت نہیں، میری دادی کا ہے، اسی پر بیٹھ کر ہم بھائی اپنی دادی سے پڑھتے بھی تھے اور ان کے ہاتھوں سے کھانا بھی کھایا کرتے تھے۔ بلاشبہ، یہ تخت تم لوگوں کے لیے پرانا فرنیچر ہے، لیکن اس سے میری اَن گنت یادیں وابستہ ہیں۔ تم لوگوں کو باپ کے جذبات و احساسات سے کیا مطلب، مگر کان کھول کر سُن لو کہ اس تخت سے مجھے عشق ہے، جسے یہ بُرا لگتا ہے، وہ اسے نہ دیکھا کرے، یہ میرا گھر ہے اور جب تک مَیں زندہ ہوں، تب تک تو اسے کسی کو ہاتھ نہیں لگانے دوں گا۔‘‘
بھابھی کے کہنے پر جب ایک مرتبہ بڑے بھیاّ نے دادی کا تخت بیچنے کی بات کی، تو ابّا نے دو ٹوک انداز میں فیصلہ سُنا دیا تھا۔ انیلا کو وہ دن اور ابّا کے سخت جملے آج بھی حرف بہ حرف یاد تھے۔ ’’سچ ہی تو کہا تھا ابّا نے کہ میری زندگی میں کوئی اس تخت کو ہاتھ نہیں لگا سکتا اور دیکھو، ان کے جاتے ہی تخت ’’بے تخت‘‘ ہو گیا۔‘‘ انیلا منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔ ’’ارے انیلا! تم کب آئیں؟ بتایا بھی نہیں، آنے سے پہلے ایک کال ہی کردیتیں۔ اچھا، آو ناں بیٹھو تو سہی۔‘‘ بڑی بھابھی کچن سے ہاتھ پونچھتی لاؤنج میں داخل ہوئیں۔’’ کب سے ایسے خاموش کھڑی ہو؟
مجھے آواز ہی دے دیتیں۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ وہی انیلا ہے، جس کی ہنسی خان وِلا کی جان ہوا کرتی تھی۔ اچھا یہ تو بتاؤ، اکیلی آئی ہو، اسد کہاں ہیں؟‘‘ بھابھی کی ایک ہی سانس میں سب کچھ پوچھ لینے کی عادت ہنوز موجود تھی۔ ’’ابھی ہی آئی ہوں، زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ اسد آفس کے لیے لیٹ ہو رہے تھے، تو مجھے باہر ہی سے چھوڑ کر چلے گئے۔ واپسی پر لے لیں گے‘‘ انیلا نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ ’’آپ سنائیں، کیسی ہیں، گھر میں اتنی خاموشی کیوں ہے؟ آج تو بچّوں کی چُھٹی ہے، پھر بھی اتنا سنّاٹا…اور، کیا پکا رہی ہیں، چھوٹی بھابھی اور رانیہ کہاں ہے؟‘‘ گھر میں پھیلے گہرے سنّاٹے سے پریشان ہو کر انیلا نے سوال کیا۔ ’’تمہیں نہیں پتا؟‘‘ بھابھی نے کہا۔ ’’کس بات کا؟‘‘ انیلا نے استفہامیہ انداز میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’تمہارے چھوٹے بھیّا دو مہینے پہلے اپنے سُسر کے پاس شفٹ ہوگئے ہیں۔ بھئی، بات یہ ہے کہ ثمینہ (چھوٹی بھابھی) کے بھائی، بھاوج الگ گھر میں منتقل ہوگئے، تو اس کے والدین بالکل اکیلے ہوگئے تھے، تو ہمارے دیور صاحب مع بیوی بچّے، اپنے سُسرال منتقل ہوگئے۔ مجھے لگا، انہوں نے تمہیں بتایا ہوگا۔‘‘
بھابھی نے کچھ طنزیہ سے انداز میں کہا۔ ’’نہیں بھابھی، چھوٹے بھیّا نے تو مجھے کچھ نہیں بتایا، بلکہ مَیں نے کئی مرتبہ انہیں اور بھابھی کو کالز بھی کیں، انہوں نے ریسیو نہیں کیں۔ پھر مَیں بھی اپنے سُسرال میں مصروف رہتی ہوں، تو وقت ہی نہیں ملا رابطہ کرنے کا۔‘‘ انیلا نے قدرے افسردہ لہجے میں جواب دیا۔ ’’اچھا چھوڑو یہ باتیں، یہ بتاؤ سُسرال میں سب ٹھیک ہیں؟ اور ہاں، آپ کی لاڈلی رانیہ اپنی نانی کے گھر گئی ہوئی ہے۔‘‘ بھابھی نے ایک ہی سانس میں سب سوال و جواب کر ڈالے۔ ’’اچھا…‘‘انیلا بس اتنا ہی کہہ پائی۔
’’تم دونوں صرف میرے بیٹے نہیں، میرے دو بازو ہو۔ میرے بچّو! یاد رکھنا، اتحاد میں بہت برکت ہے، مِل جُل کر رہنے مین جو آسانیاں، سہولتیں، برکتیں ہیں، وہ الگ الگ رہنے میں نہیں۔‘‘ ابّا کے الفاظ ایک بار پھر انیلا کے کانوں میں گونجے ۔’’ویسے مَیں سوچ رہی ہوں کہ اگر تم سرپرائز دینے کے چکّر میں بنا بتائے نہ آتیں، تو مَیں رانیہ کو ہرگز نہ جانے دیتی۔‘‘ بھابھی کی آواز نے اسے سوچوں کے بھنور سے نکالا۔ ’’چلیں، کوئی بات نہیں، آپ تو ہیں ناں اور ویسے بھی مَیں سوچ رہی ہوں کہ دوپہر تک واپس چلی جاؤں، کچھ کام بھی نمٹانے ہیں۔ ‘‘انیلا کو اس گھر میں اس قدر وحشت ہو رہی تھی کہ اس کا دل چاہا کہ وہ ابھی بھاگ کر اپنے گھر واپس چلی جائے۔
’’جی نہیں، ایک تو آپ اتنے مہینوں بعد آئی ہیں اور آتے ہی جانے کی باتیں کرنے لگیں۔ چُپ چاپ بیٹھی رہو اور شام میں اسد کے ساتھ ہی واپس جانا۔ اچھا چلو، اب یہ بتاؤ کہ کیا کھاؤ گی؟‘‘ بھابھی نے پوچھا۔ ’’نتھنگ اسپیشل، آپ نے جو پکایا ہے، وہی کھالوں گی۔‘‘ انیلہ بدستور کھوئی کھوئی سی تھی۔ ’’ارے بہن، مَیں نے تو ابھی تک کچھ پکایا ہی نہیں، ابھی تو ناشتے کا پھیلاوا ہی نہیں سمٹا۔‘‘ بھابھی کا جواب سُن کر انیلا کی نظریں دیوار پر لگی بڑی سی گھڑی پر جاپڑیں، ڈیڑھ بج رہا تھا اور یہاں ابھی تک ناشتے کا پھیلاوا ہی نہیں سمٹا تھا۔ ’’میاں! یہ طور طریقے مجھے نہیں پسند۔
دیر سے اُٹھنا، بارہ، بارہ بجے تک ناشتا کرنا اور آئے دن باہر سے کھانا منگوانا۔‘‘ باپ کی بھاری آواز ایک بار پھر اس کے کانوں میں گونجنے لگی۔ اور وہ سوچ میں پڑ گئی کہ کیسے برسوں کی تربیت، روایات مہینوں میں فراموش کردی گئی۔ وہ تو آج تک اپنے باپ کی دی گئی ایک ایک سیکھ پر عمل پیرا تھی۔ اُسی تربیت، سلیقہ مندی کی وجہ سے تو وہ کچھ ہی ماہ میں سُسرال والوں کی چہیتی بن گئی تھی۔ ’’ابّا…!‘‘ اس کے لبوں سے بے اختیار نکلا اور وہ ابّا میاں کے کمرے کی جانب بڑھنے لگی، لیکن بھابھی کی آواز نے اس کے قدم روک دیئے۔ ’’کہاں جا رہی ہو، ابّا کے کمرے کو تو مَیں نے اسٹور بنا دیا ہے۔تمہیں تو پتا ہے، گھر میں کتنا سامان ہے، جگہ ہی نہیں تھی۔‘‘ بھابھی کی بات سُن کر وہ تاسّف سے اُنہیں دیکھنے لگی، مگر کچھ نہ کہہ سکی۔
اُسے یہاں آنے کے اپنے فیصلے پر ندامت ہو رہی تھی۔ ’’سچ ہی کہتے ہیں لوگ، میکہ، ماں، باپ ہی کے دَم سے ہوتا ہے۔ ماں تو بچپن ہی میں دنیا سے رخصت ہوگئی اور اب ابّا بھی چلے گئے۔‘‘ انیلا اپنے ہی میکے میں اجنبی بنی کھڑی تھی۔ ’’ارے کیا سوچنے لگیں، میرے رُوم میں چلی جاؤ اور کچھ دیر آرام کرلو۔‘‘ بھابھی کے پیار بَھرے انداز نے اُمید کا سِرا پکڑایا کہ ’’مایوس نہ ہو، ابھی میکے کا مان سلامت ہے۔‘‘ انیلا …! کیا ہوگیا ہے تمہیں، ہر دو منٹ بعد کہاں گُم ہو جاتی ہو۔‘‘ بھابھی نے اُسے ہاتھ سے پکڑ کر ہلایا، تو وہ کچھ کہے بغیر اُن کے کمرے میں چلی آئی۔ جہاں ضرورت کی ہر چیز، ہر آسایش موجود تھی،اُس نے ظہر کی نماز پڑھی اور بیڈ پر لیٹتے ہوئے صرف کمر ٹکا کر آنکھیں موندیں، تو کمرے کے نیم اندھیرے نے اُس کے تھکے، بوجھل ذہن کو اس قدر سکون پہنچایا کہ وہ لمحوں میں نیند کی آغوش میں چلی گئی۔
جب آنکھ کُھلی تو عصر کی اذان ہو رہی تھی۔ اُس نے بالکونی سے باہر جھانکا، تو شام کا بے انتہا خُوب صُورت منظر اس کے سامنے تھا۔ وہ نماز پڑھ کر دوبارہ کھڑکی کی طرف آگئی، شام کا سورج اپنے جلو میں عمر کے قیمتی لمحات لے کر ڈوبنے والا تھا، لیکن جاتے جاتے یادوں کی صورت تلخ و شیریں تجربات کی سوغات بھی دے گیا تھا۔ وہ مسلسل ٹکٹکی باندھے ڈوبتے سورج کی کرنیں دیکھ رہی تھی، ماحول پر سکوت طاری تھا۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے کفن میں لپٹے ابّا کا چہرہ گھوم گیا۔ وہ جب تک حیات رہے، خاندان جُڑا رہا۔ روایات، طور طریقے زندہ رہے اور آنکھ بند ہوتے ہی خاندان کا شیرازہ بکھر گیا۔
’’گوکہ یہ گھر، یہاں کے لوگ اور چیزیں پہلے جیسی نہیں رہیں، لیکن تبدیلی تو کائنات کا اصول ہے۔ اب یہ میرے ابّا کا نہیں، بھائی کا گھر ہے، جو ان کے طور طریقوں سے چلے گا۔ کم از کم میری بھابھی نے کُھلے دل سے میرا استقبال تو کیا، مجھے گلے لگایا، میکے کا سکون دیا، تو یہ بھی کیا کم ہے کہ بہت سی لڑکیوں کو تو یہ سکون بھی میسّر نہیں۔ بس، اللہ میرے بھائیوں کو سدا سلامت اور خوش و خرّم رکھے کہ اب انہی کے دَم سے میرا میکہ سلامت ہے۔‘‘ انیلا کی مثبت سوچ نے اس کی ساری تھکن، صبح کے سارے منفی خیالات کا قلع قمع کر دیا تھا اور اب وہ خود کو بہت ہلکا پُھلکا، بہت ترو تازہ محسوس کر رہی تھی۔