• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ہمیشہ ریاستِ مدینہ کی مثال دیتے ہیں۔سوچا آج اپنے قارئین کو ریاستِ مدینہ کی ایک جھلک دکھا دوں۔نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد جب ریاستِ مدینہ میں خلفائے راشدینؓ کا دور شروع ہوا تو اس میں عدل و انصاف،قانون کی حکمرانی اور جواب دہی اقتدار کے لازمی جزو تھے۔

خلفائے راشدینؓ نے ہمیشہ خود کو جواب دہی کے لئے عوام کے سامنے پیش کیا۔خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جب خلافت کا بار اٹھایاتو صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ اگر ان سے کوئی خطا ہوجائے تو انہیں فوراً روک دیا جائے۔

 اسی طرح ریاستِ مدینہ میں جب خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؓ کا دور شروع ہوا تو آپ ہمیشہ بغیر رعایت کے بے لاگ انصاف فرماتے رہے۔فاتح مصر حضرت عمرو بن عاص ؓ کے بیٹے عبداللہ کو(جس نے کسی شخص پر بلاوجہ تشدد کیا تھا)آپ نے اس کے باپ کے سامنے کوڑے لگوائے ۔

فاتح شام حضرت خالد بن ولیدؓکو معزول کیا۔فاتح ایران سعد بن ابی وقاصؓ سے جواب طلبی کی۔اسی طرح حضرت عمرؓ جب کسی صوبے یا شہر کا سربراہ(والی) مقرر کرتے تو پہلے اس کی جائیداد اور اندوختہ کا حساب لیتے تھے اور جب و ہ اپنے منصب سے الگ ہوتا یاا س کے متعلق دورانِ تقرران کو اگر یہ علم ہوجاتا کہ اس کے پاس کوئی غیر معمولی دولت جمع ہوگئی ہے تو وہ اس کا محاسبہ کرتے اور پوچھتے کہ یہ دولت تمہارے پاس کہاں سے آئی ہے؟یہ ریاستِ مدینہ کی حقیقی شکل تھی۔

حضرت عمرؓ سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے جو کرتا پہنا ہوا ہے، یہ ایک کپڑے سے تو نہیں بنتاتو آپؓ نے وضاحت کی کہ یہ میرا اور میرے بیٹے کا حصہ ہے۔عہدے کے دوران جب بھی کوئی تحفہ یا قیمتی چیز کسی نے دی تو اس کو مالِ غنیمت میں جمع کرایا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’’یہ تحفہ مجھے میرے عہدے کی وجہ سے ملا ہے،اس لئے اس تحفے پر میرا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘

ایسا تو ریاستِ مدینہ میں کبھی تصور بھی نہیں تھا کہ چوری چھپے حاکمِ وقت قیمتی تحفے تحائف گھر لے جائے اور پھر انہیں مہنگے داموں فروخت کردے۔لیکن ابھی توشہ خانہ تحائف میں ہونے والی بددیانتی کی گرد نہیں بیٹھی تھی کہ اعجاز الحق صاحب نے قوم کی توجہ سنجیدہ ترین موضوع سے ہٹانے کے لئے ایک ایسا شوشہ چھوڑ دیا،جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

حالانکہ یہ غیر مناسب طرزِ سیاست ہے کہ جب اہم ترین معاملات پر قوم اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے تو آپ ایک نان ایشو کو اہم ترین ایشو بنا کر قوم کی توجہ ہٹانے کی کوشش کریں۔کہاں حاکمِ وقت کی جانب سے بددیانتی کرکے کروڑوں روپے مالیت کے قیمتی تحفے گھر لے جانے پر جواب دہی ہورہی ہے اور کہاںآپ نے غیرمرئی دنیا کی باتیں شروع کردی ہیں۔ہم تو یہی سمجھتے تھے کہ خان صاحب وہی سرخ رنگ کی ڈائری ساتھ لے کر گئے ہیں مگر ڈائری سے پہلے بہت کچھ گھر جاچکا تھا ،جس کا حساب کتاب غالباً اس چھوٹی سی ڈائری میں لکھا ہوا تھا۔

اعجاز الحق جیسے سیاستدان کویہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی بھی پروپیگنڈا کا شکار ہوں اور ایک منتخب وزیراعظم کے متعلق یہ کہیں کہ وہ اپنی پارٹی کے ایک ایم پی اے ملک احمد خان کے ساتھ گاڑی کی ڈگی میں بیٹھ کر آرمی ہاؤس جاتے تھے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ شہباز شریف کار کے بجائے ہمیشہ بڑی گاڑی میں سفر کرتے ہیں اور لاہور سے اسلام آباد کے طویل سفر کے دوران کمر کی تکلیف کے باعث گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لیٹ جاتے ہیں،تاکہ طویل سفر میں زیادہ دیر گاڑی میں بیٹھنے سے کمرپر بوجھ نہ آئے۔شاید اعجاز الحق لاعلم ہیں کہ بلٹ پروف گاڑی کی کوئی ’’ڈگی‘‘نہیں ہوتی ۔پنجاب میں اعجاز الحق کے دوست عمران خان کی حکومت ہے۔

سیف سٹی کا ریکارڈ نکلوا کر چیک کرلیں کہ کبھی شہباز شریف نے بلٹ پروف گاڑی کے علاوہ بھی کسی دوسری گاڑی پر سفر کیا ہو۔شہباز شریف تو دن کی روشنی میں اسٹیبلشمنٹ سے اپنے خوشگوار تعلقات کو تسلیم کرتے ہیں۔ہمیشہ اداروں کی سپورٹ کرتے ہیں ۔انہیں کیا ضرورت ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں بقول اعجاز الحق کے گاڑی کی ڈگی میں چھپ کر آرمی ہاؤس جائیں ؟

آج جب پوری قوم نے ایک فیصلہ کیا،ایک ایسا شخص جو کہ صبح شام اپنے مخالفین کو چور ،ڈاکو کہتا تھا اوربات بات پر ریاستِ مدینہ کی بات کرتا تھا ، ایسے میں اس کی چوری رنگے ہاتھوں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پکڑ لی تو آپ نے انتہائی مضحکہ خیز شوشہ چھوڑ دیا ،جو کہ آپ ایسے سیاست دان کے لیے مناسب نہیں تھا ۔ویسے شہباز شریف کو بھی دائیں بائیں نظر دوڑانی چاہئے کیونکہ اعجاز الحق نے تو ایک منفی شوشہ ضرور چھیڑا ہے مگر آج سے کئی ماہ پہلے جب شہباز صاحب وزیراعظم نہیں بنے تھے تب بھی آپ کی جماعت کے ہر رکن اسمبلی کے منہ پر یہی الفاظ ہوتے تھے کہ فلاں رکن صوبائی اسمبلی بنیادی طور پر شہباز شریف اور جنرل باجوہ(اسٹیبلشمنٹ) کے درمیان پل کا کردار اداکررہے ہیں۔

کوئی دوست اگر آ پ کے لئے کوئی اہم کام سرانجام دے ہی رہا ہے تو اسے خود بھی احتیاط کرنی چاہئےکہ پارٹی کی میٹنگز اور ساتھی اراکین سے ایسی معلومات شیئر نہ کرے،کیونکہ جب معلومات ہاتھ سے نکل جاتی ہیں توپھر اعجاز الحق ہوں یا کوئی اور... اس کا استعمال اپنی مرضی سے من گھڑت باتیں شامل کرکے کرتا ہے کیوں کہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔

تازہ ترین