فالج، جسے عرفِ عام میں برین اٹیک یا دماغ کا دورہ کہا جاتا ہے، ایک ایسا مرض ہے کہ اگر اس کے اٹیک کے بعد جان بچ بھی جائے،توبھی مستقل معذوری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، جب کہ بعض کیسز میں اس کا حملہ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ تاہم، فالج کے بعد مریض کو جس قدر جلد طبّی نگہداشت مل جائے، بحالی کے امکانات بھی اُتنے بڑھ جاتے ہیں، مگر افسوس کہ دُنیا بَھر میں، بشمول ترقّی یافتہ مُمالک فالج سے متعلق معلومات کا فقدان پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بروقت معیاری علاج دستیاب نہیں ہونے کے سبب فالج سے شرحِ معذوری و اموات میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
یاد رکھیے، فالج کے بعد جان بچانے اور کئی پیچیدگیوں سے محفوظ رکھنےکے لیے ہر گزرتا سیکنڈ نہایت اہم ہوتاہے، لیکن دیکھا گیا ہے کہ عزیز و اقارب کے مختلف مشوروں اور ٹوٹکوں پر عمل کے بعد ہی مریض کو اسپتال لایا جاتا ہے، جس کا خمیازہ پھر مریض کو تاعُمر معذوری کی صُورت بھگتنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ورلڈ اسٹروک آرگنائزیشن کے زیرِ اہتمام ہرسال دُنیا بَھر میں 29 اکتوبر کو ’’عالمی یومِ فالج‘‘ منایاجاتا ہے، تاکہ فالج سے متعلق معلومات عام کرکے کئی قیمتی جانیں ضایع ہونے یازندگی بَھر کی معذور ی سے بچائی جاسکیں۔
اِمسال یہ یوم گزشتہ برس ہی کے تھیم "Minutes Can Save Lives" یعنی’’ لمحات زندگی بچا سکتے ہیں ‘‘کے ساتھ منایا گیا۔بلاشبہ بیماری اور شفا من جانب اللہ ہے اور بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ زندگی اور موت اللہ رب العزّت کے ہاتھ میں ہے، مگر صحت مند زندگی گزارنا اور صحت مند رہنا بھی دینی تعلیمات ہی کا اہم درس ہے۔ سو، لہٰذا بچاؤ، بر وقت تشخیص اور بہتر علاج کے لیے آگہی بنیادی کلید ہے۔
ورلڈ اسٹروک آرگنائزیشن کے مطابق دُنیا بَھر میں ہر سال کم و بیش ایک کروڑ تیس لاکھ افراد فالج کا شکار ہوتے ہیں، جن میں سے تقریباً پچاس لاکھ لقمۂ اجل بن جاتے ہیں،جب کہ زندہ بچ جانے والے فالج کے قلیل یا طویل مدتی اثرات سے متاثر ہوجاتے ہیں، جن میں بولنے میں دقّت پیش آنے اور چلنے پھرنے سے لے کر مختلف طبّی مسائل شامل ہیں۔
یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ درمیانی عُمرکے افراد میں فالج کی شرح برطانیہ یا امریکا کے مقابلے میں پاکستان و دیگر جنوب ایشیائی مُمالک میں5گُنا زائد پائی جاتی ہے، جب کہ عمومی طور پر بھی فالج کی شرح ترقّی پذیرمُمالک میں بُلند ہے ، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فالج سے متاثرہ ہر تین میں سے دو افراد کا تعلق کم اور درمیانی آمدنی والے مُمالک سے ہے۔ اگر پاکستان کا ذکر کریں،تو یہاں نوجوان طبقے، خاص طور پر خواتین میں فالج کی شرح بُلند ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک خاتون کو فالج کا خطرہ لاحق ہے، جب کہ فالج سے انتقال کرجانے والےدس افراد میں نصف سے زائد تعداد(چھے) خواتین کی ہے۔
ذرا سوچیے، اگر خدانخواستہ کسی صُبح آپ بیدار ہوں یا دِن کے کسی بھی پہر اچانک جسم کا کوئی ایک حصّہ مفلوج ہو جائے یا بات چیت میں دشواری پیش آئے، تویہ ایک لمحہ آپ کی پوری زندگی بدل کر رکھ سکتا ہے، لیکن اگر فالج کے رسک فیکٹرز، ان سے بچاؤ اور علامات سے متعلق بنیادی معلومات حاصل ہوں، تو یہ آگہی آپ کو فالج اور اس سے ہونے والی کئی پیچیدگیوں سے بچا سکتی ہے۔ جیسا کہ فالج کے رسک فیکٹرز میں سرِ فہرست خون کی شریانوں کا تنگ ہونا ہے،جب کہ دیگر اسباب میں عُمر رسیدگی(عُمر میں اضافے کے ساتھ فالج کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں)، تمباکو نوشی، سہل پسندی،غیر متوازن غذا، نشہ آور اشیاء کا استعمال، بُلند فشارِ خون، ذیابطیس، دِل کی دھڑکن میں بے ترتیبی ،کولیسٹرول میں اضافہ، موٹاپا، ذہنی و نفسیاتی امراض، تناؤ اور جینیاتی عوامل وغیرہ شامل ہیں۔
پھر بعض اوقات ماحولیاتی تبدیلیاں بھی وجہ بن جاتی ہیں۔فالج کی علامات کے ضمن میں ایک اصطلاح"FAST" استعمال کی جاتی ہے، جس کا ہر لفظ فالج کی علامات ظاہر کرتا ہے۔ جیسا کہ’’ ایف‘‘ سے مُراد فیس یعنی چہرہ ہے۔اٹیک کی صُورت میں مریض کے چہرے کی ساخت میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے یا پھرچہرہ ایک جانب لٹک جاتا ہے۔ لفظ’’اے ‘‘ سے مُراد آرم ( بازو) ہے، جو بازو کی طاقت میں کمی کی علامت ظاہر کرتا ہے، جب کہ ’’ایس‘‘ سے مُراد اسپیچ ہے۔ فالج کی ایک علامت بولنے میں دقّت پیش آنا، الفاظ اور جملوں کی ادائی میں دشواری ہے۔
سب سے آخری لفظ’’ٹی‘‘ یعنی ٹائم ،اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ ان علامات میں سے کوئی ایک یاتمام ظاہر ہونے پرمریض کو وقت ضایع کیے بغیر فوری طور پر قریبی اسپتال لے جائیں۔دراصل زیادہ تر افراد فالج کے حملے کے بعد مریض کو اندھیرے کمرے میں کئی کمبل یا رضائیاں اوڑھا کر لٹا دیتے ہیں یا پھر کبوتر کے خون سے مالش کرنے لگتے ہیں۔ یوں مختلف گھریلو ٹوٹکے آزمانے کے بعد معالج سے رجوع کیا جاتا ہے اور تب تک خاصی تاخیر ہوچُکی ہوتی ہے، تو یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ بروقت اور درست علاج کی بدولت مریض کو موت اور معذوری سے محفوظ رکھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، مگر یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ ہمارے مُلک کی لگ بھگ22 کروڑ آبادی میں سے 5 فی صد افراد ( کم و بیش ایک کروڑ سے زائد) فالج کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، لہٰذا اگر اب بھی ہم نے فالج کے بروقت علاج اور اس سے متعلقہ دیگر اقدامات پر توجّہ نہ دی، تو آئندہ چند برسوں میں فالج زدہ نوجوانوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوجائے گا۔
سو، مجموعی اور انفرادی سطح پر بھی فالج سے محفوط رہنے کے لیے مثبت طرزِ زندگی اختیار کرنی ہوگی۔ مثلاً :ورزش کو زندگی کا معمول بنالیا جائے، روزمرّہ غذا کا خاص خیال رکھیں۔ فاسٹ فوڈز، بسیار خوری اور چکنائی والی اشیاء کے زائد استعمال سے پرہیز کیا جائے، جب کہ تمباکو اور اس کے دھویں سے اجتناب برتیں۔ صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتالوں میں فالج یونٹس کا قیام عمل میں لائیں، تاکہ معیاری اور سستے علاج کی سہولتیں میسّر آسکیں۔ نیز، مساجد، سرکاری دفاتر، تدریسی اداروں وغیرہ میں بھی آگہی کے ساتھ بروقت علاج کی اہمیت اُجاگر کی جائے۔ یاد رکھیں،انفرادی و اجتماعی کوشش ہی کی بدولت ایک صحت مند معاشرے کا قیام ممکن ہے۔ (مضمون نگار،لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹیسڑی، کراچی میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر آف نیورولوجی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر ہیں)