• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اعظم تارڑ صاحب سے عاصمہ جہانگیر کی اد میں منعقدہ جلسے میں قابلِ اعتراض نعرے سننے پہ استعفیٰ لےلیا گیا ۔ سچی بات یہ ہے کہ بہت سی باتیں زندگی کی ہوں ،عدالت کی کہ مذہب کی آپ ذہن میں رکھ کر کبھی کڑھتے اور بڑبڑاتے رہتے ہیں۔ لکھتے ہوئے یہ خوف دامن گیر ہوتا ہے کہ حب الوطنی پہ الزام نہ آجائے، کہیں غداری کا لیبل نہ لگ جائے اور کہیں ہماری پولیس کی طرح کینیا کی پولیس بھی ارشدشریف کی طرح مارے بھی تو سر میں گولی مارے کہ بچنے کی کوئی امید نہ رہے۔

دو دن میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں وہ کچھ سنا جو سرکار کی نظر میں تو بہت حد تک غلط تھا مگر یہ وہ سچ تھا اور ہے جسے ہم 75برس سے قالین کے نیچے چھپا چھپا کے، دنیا میں اتنے خوار ہو چکے ہیں کہ لوگ خیرات، امداد یاخوراک تین کروڑ سیلاب زدگان کو بھی اس لیے نہیں دینا چاہتے کہ وہ بھی سعودی گھڑیوں کو دبئی میں فروخت کر کے اپنے وارے نیارے نہ کرلیں۔ پاکستان کو بالغ نظرسیاست دان چاہئیں۔

یہ دو دن کی کانفرنس ایسی نہیں کہ وعدے وعید ہی ہوئے ہوںبلکہ گریبان میں گردن جھکائی تولمحوں کے لئےمگر 75سالہ عدالت نما تو کبھی مذہب نما وہ دوغلاپن سامنے آگیا، جس نے نہ ہمیں ایک قوم بننے دیا، نہ محبت کا ماحول بنایا، نہ امن کی فضا قائم کی اور نہ علم کی روشنی سے منور کیا جو آنے والے دورسے کی ہلکی سی تصویر دیکھ کر شرمندہ اور محکوم قوموں کی صف میں بھی سب سے اول شمار ہوئے۔

تو اب سنئے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خطاب میں جراح کی طرح تاریخ میں مولوی تمیز الدین کے زمانے میں ’’قرارداد مقاصد‘‘ کے نام سے بنیاد ی نظریہ ٔ پاکستان، جوقائد اعظم نے پیش کیا تھا، کی نفی کر دی، پھر ہم نے نہ کھائی دیکھی نہ خندق، شرمساری کے ساتھ اسکندر مرزا کو معزول کرا کے ایوب کا آنا بنیادی جمہوریتوں کے ساتھ، پھر الطاف گوہر کے توسط سے صاحبِ کتاب بننا اور محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن میں ہرا دینے کی وہ بنیاد رکھی جس پر آج تک سیاست کے نام پر پرچیاں، نوٹوں اور گولیوں کے عوض پڑتی رہیں۔ آج فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے پہ فتح کے ڈنکے بجائے جا رہے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ نے ہمارے ذہنوں کے ایک خلجان کو ختم کر دیا۔ ہم نے 1948سے بے قاعدہ مگر 65سےباقاعدہ قائد اعظم کی جگہ فوج کا احسان ماننا شروع کر دیا کہ اس نے ہماری شناخت کو قائم رکھا۔ برا ہوا 1971 میں جب ہم نے قائد اعظم کا آدھا احسان تو اتار دیا ساتھ میں وردی کا خوف حمود الرحمان کمیشن رپورٹ نے اتار دیا۔ آدھے ملک کی سربراہی کے لئے بھٹو صاحب کو لائق تعزیز ٹھہرانے والے منصفین کے عزو احترام کا لبادہ بھی اتر گیا کہ ان میں سے بیشتر نے خود ٹی وی پر آکر مانا کہ ’’ہم پہ دبائو تھا‘‘ مگر جو اپنے پیروں پر کھڑے تھے، وہ اس فیصلے سے کیا خود ساختہ فیصلوں کے عوض کبھی آٹھویں ترمیم کے ذریعہ توکبھی کارگل جیسے Adventure کے ذریعے ہمیں بار بار امریکہ کا دروازہ کھٹکھٹانے اور ڈالروں کےعوض 60ہزار پاکستانی جن میں فوجی بھی شامل تھے، مروا کر مذہب اور منشیات کا فلسفہ ملک ملک بیچنا شروع کر دیا ۔ یہ سب میں دل سے نہیں بتا رہی جسٹس فائز کے کہے کو ایک اور سند کے ساتھ پیش کر رہی ہوں کہ عدالت کا جج ہو کہ سرحد پہ کھڑا سپاہی یا ہم جیسا سرکاری ملازم سب ریاست کے ملازم ہیں۔ کوئی ایک دوسرے پہ تبصرہ تو کر سکتا ہے مگر کوئی کسی پر غداری کا الزام نہیں لگا سکتاتو میری قوم کے جوانوں تگڑے ہو جائو۔ صاف اور حق گوئی کے سامنے یہ ’’صادق و امین‘‘ کے نعرہ باز سیاست دانوں سے ملک کی جان چھڑوائو۔ ویسے ایک بات یاد رکھو پولیس چاہے کینیا کی ہو کہ پاکستان کی، اسی طرح پاکستان کے متعدد جوانوں کو نامعلوم افراد کہہ کر مروا بھی چکی ہے اور لاپتہ بھی کر چکی ہے۔ قاضی فائز ایسا بھی ایک بیان اور دیجیے کہ اس ملک کیا ساری دنیا سے پہلے تو کمپنی کی حکومت ختم کروائی تھی اور اب ایجنسیوں کی حکومتیں جو حکومتیں بناتی اور بگاڑتی ہیں، ان کی بیخ کنی کی جائے تاکہ روس، چین اور امریکہ کی حاوی حکومتیں، ہم غریب ملکوں میں کٹھ پتلیاں نہ ہلاتی رہیں آج اگریہ مضبوط آسیب ختم ہو جائے تو نہ بلوچ نوجوان لڑنے کے لئے کھڑے ہوں گے اور نہ پشتون بلکہ طالبان سے مل کر یہ لوگ جو آشوب ملکوں ملکوں خاص کر مذہب کے نام پرفرقہ پرستی کو فروغ دیتے ہیں، وہ بھی ختم ہو جائیں گے۔

کانفرنس میں سارے بلوچ، سارے پشتون، گوادر کے سارے مچھیرے، اقلیتوں کے سارے نمائندے اور صحافی ایجنسیوں کے ہاتھوں مرنے اور اذیت میںمبتلا، عورتیں ہوں کہ سیلاب زدہ کہ کشمیر میں گولیاں کھاتے جوان، یہ سب اور ہم سب پولیس اور ایجنسیوں سے نالاں ہیں۔ جو بھی حکومت ہو چاہے فوجیوں کی ہو، ان کے آگے ہاتھ باندھ کے کھڑے رہنے پہ مجبور ہوتی ہے۔ سارے معاشرے اور تہذیب کو برباد کرنے والوں نے ، ملک میں کسی ذہنی مباحثے کا ماحول یا سوچ کے راستے نہیں چھوڑے ،میرے کسانوں سے لے کر کانوں میں کام کرنے والے مزدورتک اس دن کی تمنا رکھتے ہیں۔ جب جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس فائز کے علاوہ کبھی کبھار اطہر من اللہ جیسے حق گو ،وہ نصاب ہمارے بچوں کو پڑھانے کا اہتمام کروائیں گے جس میں انسانیت، کراچی میں سڑک کے کنارے نومولود لاشوں کی طرح نہ ہو، بلکہ یہ علم اور فخر ہو کہ ہزاروں سال کی تہذیب کے مالک ہم وہ ہیں کہ گھونسلے سےگرے ہوئے نومولود بچےکو واپس اس کے آشیانے میں رکھ دیں۔ بچے اسکولوں میں اساتذہ اورمولوی کے ہاتھوں مار کھا کر دم نہ توڑیں بلکہ بہار کی طرح ہر طرف خوش اور آسودہ اچھلتے کودتے ہمارے بڑھاپے کو روشنی دکھائیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین