• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں پاکستانی سیاست میں ایک سابق کرکٹر نے ہلچل مچا رکھی ہے ،یوں لگ رہا ہے کہ جب تک نومبر کا مقدس مہینہ گزر نہیں جاتا یہ سابق کھلاڑی یوں ہی چھکے چھڑاتا رہے گا۔ ایک صحافی یا کالم نگار کو لکھتے یا بولتے وقت اپنی ترجیحات ہی نہیں عوامی دلچسپی کے موضوعات کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہوتا ہے۔ 24 اکتوبر کو دیوالی کے موقع پر جس طرح ایک انڈین اوریجن کے ہندو خاندان کے سپوت 42 سالہ رشی سونک انگلینڈ کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں، یہ واقعہ ایک ایسا تاریخ ساز لمحہ تھا جس نے دیوالی کی روشنیوں کو دوبالا کر دیا جس پر درویش کا فوری کالم لکھنا بنتا تھا لیکن ہمارے پھنے خان نے ایسا الجھایا ہوا ہےکہ دیگر کچھ سوجھنے ہی نہیں دے رہا۔

ایک ہندو رشی سونک کا وزیراعظم برطانیہ منتخب ہونا تاریخ ساز لمحہ کس طرح ہے؟اس موضوع پر ہم بعد میں آتے ہیں پہلے یہ جانتے ہیں کہ یہ رشی سونک ہے کون؟ اور وہ کیا حالات ہیں جن میں ولایتی کشتی کا پتوار یا پاسبان ایک پنجابی نژاد ہندو کو بنایا گیا ہے۔ اس میں جہاں برطانوی جمہوریت کی عظمت جھلکتی ہے وہیں اکیسویں صدی کے انسانوں کی بلند ہوتی ہوئی شعوری سطح کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ سیاست میں کامیابی کے ساتھ ساتھ ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، شہرت ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی، یہ تو ڈھلتی چھائوں ہے جس میں اصل اہمیت ان مختصر قیمتی لمحات میں آپ کی یاد رہ جانے والی کارکردگی کو حاصل ہو تی ہے جس کا نام ہسٹری یا تاریخ ہے۔12مئی 1980ء کو سائوتھ ایجیٹن میں پیدا ہونے والے ہونہار بروا رشی سونک کا ہندو کھتری خاندان کسی زمانے میں ہمارے لاہور کے قریب گوجرانوالہ شہر کا باسی تھا ۔یہ 1935 کی کہانی ہے جب ان کے دادا رام داس سونک برٹش انڈیا میں ہی گوجرانوالہ سے ہجرت کرکے افریقی ملک کینیا کے شہر نیروبی میں جا بسے ۔ ایک ہندو کھتری کیلئے حساب کتاب کی مہارت کے ساتھ کلرک بننا کوئی برائی یا جگ ہنسائی نہ تھی بلکہ درویش تو رام داس سونک کی سمجھ داری و بصیرت کو سلام عرض کرتا ہے۔ شاید اس معصوم کی چھٹی حس نے محض 12 برس بعد اس خطے میں اٹھنے والی خونی لہر یا مذہب کے نام پر پھیلائی گئی منافرت و جنونیت کا ادراک کرلیا تھا ۔

رشی سونک کے والد محترم یشوہر سونک ایک سمجھ دار انسان تھے جو 1960میں افریقہ سے ہجرت کرکے انگلستان جابسے جس سے چھٹکارا یا آزادی حاصل کرنے کے لئے ان کی قوم نے اتنی بڑی تحریک چلائی تھی۔ رشی کی دادی سہاگ رانی اگرچہ دہلی کی تھیں لیکن ان کی زیادہ زندگی افریقہ میں ہی گزری۔ رشی کی ماں اوشا سونک نے اپنے کنبے کے حالات بہتر بنانے میں فارماسیوٹیکل کا کاروبار شروع کیا اور اپنے ڈاکٹر خاوند اور رشی کے والد یشوہر کا ہاتھ بٹایا اور خود رشی نے بھی محنت کرنے میں کبھی عار محسوس نہیں کی اور آج وہ اپنی بیگم اکشتا مورتی کے ساتھ کنگ چارلس سے زیادہ دولت و جائیداد کا مالک ہے۔

موجودہ عہد کی برطانوی سیاست یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بریگزٹ کی حمایت یا مخالفت میں چل رہی ہے کیوں کہ دونوں اپروچز بزنس سوسائٹی کے اندر ہی پائی جاتی ہیںجن پر الگ سے کالم لکھنا پڑے گا۔ اس وقت کا مسئلہ یہ ہے کہ لیبر کے بالمقابل کنزرویٹو پارٹی کی مقبولیت 2010میں جو تھی، 2016کے بریگزٹ ریفرنڈم میں کامیابی کے باوجود اس کی مقبولیت کو ایسا دھچکا لگا ہے کہ پھر کوئی بھی وزیر اعظم ٹک کر حکمرانی نہیں کرسکا۔ ڈیوڈ کیمرون کی دوسری ٹرم کو ایک ہی سال ہوا تھا جب اسے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہونا پڑا۔ 2016میں تھریسامے وزیراعظم بنیں تو وہ 2019 کی انتخابی کامیابی کے باوجود بریگزٹ اور ناردرن ایئر لینڈ کی ڈیل کو پارلیمان سے منظور کروانے میں قاصر رہیں ۔ دسمبر 2019میں بورس جانسن وزیر اعظم منتخب ہوئے تو انہیں کورونا نے تکلیف دہ صورتِ حال سے دوچار کیا۔ برٹش کوئین کی موت سے دو روز قبل لزٹرس وزیراعظم بنیں مگر45 روز کی کمترین میعاد میں ارکانِ پارلیمان کا اعتماد کھو دیا، ان کے لئے یوکرین جنگ کی پیدا کردہ مہنگائی،اسٹاک مارکیٹ کا گرنا، بینیفٹس میں کمی، ہیلتھ سروسز کے مسائل اور ہڑتالوں نے مسائل پیدا کئے۔

دیکھا جائے تو رشی سونک اپنی کنزرویٹو پارٹی کا بلامقابلہ اعتماد لیتے ہوئے جن مشکل حالات میں انگلینڈ کے وزیراعظم بنائے گئے ہیں، یہ عہدہ ان کے لئے کئی حوالوں سے بڑا چیلنج ہے۔ درویش ان چیلنجز پر بحث کرنے کی بجائے یہ عرض گزار ہے کہ ایک انڈین نژاد ہندو کا انگلینڈ جیسی جمہوریت کی ماں کے طور پر مشہور ملک کا وزیراعظم بننا ازخود جمہوریت، انسانی مساوات اور آزادیوں پر ایمان و یقین رکھنے والوں کے لئے تاریخی طور پر قابل فخر موڑ ہے۔ کئی لوگ اس نوع کی بحث چھڑ دیتے ہیں کہ رشی اوباما کی طرح عوامی ووٹ سے منتخب نہیں ہوئے ۔ یہ ذہن میں رہے کہ وہ رچمنڈ سے عوامی ووٹ حاصل کرتے ہوئے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں اور کنزرویٹو پارٹی کے منتخب ارکانِ پارلیمان کے اعتماد سے ہی اس پروقار منصب پر فائز ہوئے ہیں۔

عوامی آرا وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں اگر انڈیا میں محض دو ڈھائی فیصد سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والا ایک شخص برسوں وہاں کا وزیراعظم رہ کر اپنی کمیونٹی کا سرفخر سے بلند کرسکتا ہے، ایک ہندو خاتون ایک ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی وائس پریذیڈنٹ اور کل کو پریذیڈنٹ منتخب ہو سکتی ہے تو ہمیں بھی اس نوع کی پھیلائی گئی نفرت انگیز تنگنائوں سے باہر نکل کر اپنے تصورات کو انسانیت کی بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین