مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر
دادا، دادی اور نانا، نانی سے محبت تو عین فطری جذبہ ہے۔ مَیں اپنے دادا اور دادی کو تو نہ دیکھ سکا کہ وہ میری پیدائش سے قبل ہی اللہ میاں کو پیارے ہوگئے تھے۔ مگر قیامِ پاکستان کے بعد میرے نانا اور نانی اپنے بچّوں کے ساتھ ہجرت کرکے کراچی آگئے تھے۔ اور مجھے اپنے نانا، نانی کا سب سے بڑا نواسہ ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ میرے نانا جان انتہائی متقّی، پرہیزگار شخص تھے، مگر میرے سنِ شعور تک پہنچنے سے قبل ہی وہ ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ اُن کے جانے کے بعد میری نانی جان نے مجھ سمیت اپنے تمام نواسے، نواسیوں کو بے پناہ محبّت و چاہت سے نوازا۔
اللہ پاک نے میری نانی کو بڑے اعلیٰ اوصاف سے مالا مال کیا تھا۔ وہ احکامِ شریعت کو ہمیشہ ترجیح دیتی تھیں۔ گھر میں خواہ کوئی بھی آیا ہو، نماز کا وقت ہونے پر فوراً مصلّے پر کھڑی ہوجاتیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ نماز کے لیے بہت بے چین رہا کرتی تھیں۔ ہر دَم تسبیح، تکبیر، تعظیم کا مظاہرہ کرتیں، حمد و ثناء، توبہ استغفارکرتی رہتی تھیں۔ اپنا زیادہ تر وقت قرآن پاک کی تلاوت میں گزارتیں، جب کہ تسبیح ہر وقت اُن کے ہاتھوں کی زینت رہتی۔ ساتھ لبوں سے ہمہ وقت ’’اللہ اللہ‘‘ کی صدائیں نکلتی رہتیں۔
ایک مرتبہ ہم سب بھائی بہن اپنی والدہ کے ساتھ اپنی رہائش شاہ فیصل کالونی سے نانی کے گھر کورنگی گئے۔ مَیں رات کو ایک کمرے میں پلنگ پر سو رہا تھا اوردوسرے کمرے میں ایک تخت پر نانی اور میری والدہ سو رہی تھیں۔ تو رات کو اللہ اللہ کی آواز سے بار بار میری آنکھ کھل جاتی۔ مَیں اِدھر اُدھر دیکھتا، مگر سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ رحمت بَھری، پُرسوز آواز کہاں سے آرہی ہے۔ اسی کش مکش میں تھا کہ رات کے آخری پہر آنکھ لگ گئی۔
سوئے ہوئے ابھی تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ عقیدت بھری پُرسوز آوازیں قریب سے سنائی دیں، تو اچانک اُٹھ کر بیٹھ گیا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ اسی اثناء میری والدہ بھی جاگ گئیں۔ انہوں نے مجھے اس طرح بیٹھے دیکھا، تو پوچھا ’’کیا بات ہے؟‘‘ مَیں نے سارا ماجرا بیان کیا، تو انہوں نے بڑے پیار سے بتایا ’’تمہاری نانی جان تہجّد کے لیے اٹھتی ہیں، ابھی وضو کرنے گئی ہیں۔ میں بھی ساری رات یہ رحمت بھری آواز سنتی رہی ہوں۔‘‘ یہ سنتے ہی میرے منہ سے فوراً ’’سبحان اللہ‘‘ نکلا۔ نانی جان جب وضو کرکے واپس آئیں، تو اُن کے چہرے پر نظر پڑی۔ بخدا، میں نے اس قدر پُرنور چہرہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
نانی جان گھر آئے ہوئے مہمان کی خاطر تواضع میں کبھی کوئی کمی برداشت نہیں کرتی تھیں۔ مہمان کی عزت و اکرام کے لیے ہمہ وقت فکر مند رہتیں۔ مَیں جب بھی اُن کے گھر جاتا تو اُن کی قدم بوسی کے لیے بے چین رہتا۔ پھر جب وہ اپنے مخصوص تخت پر تشریف لے آتیں، تو اپنا سر اُن کی گود میں رکھ کراور اُن کے پیروں کو ہاتھوں میں لے کر نہایت خاموشی سے اُن کی دعائوں کی دولت دامن میں سمیٹنے کی کوشش کرتا۔ پھر اُن کے جھریوں بَھرے، کم زور ہاتھ میرے سر اور چہرے پر ہوتے اور زبان و دل سے نکلتی دُعائیں میرے خزانے میں جمع ہوتی رہتیں۔
جب خُوب سیر ہوکر اُن کی دعائوں کی دولت سمیٹ لیتا، تو پھر اُن کے ہاتھوں کو چومتا ہوا اپنا سر اُن کے قدموں سے اٹھاتا۔ اور وہ اُسی وقت اپنے بٹوے سے 5یا 10 روپے کا نوٹ نکال کر چپکے سے میرے ہاتھ میں رکھ کر میری مٹھی بند کردیتیں۔ مَیں بھی نہایت عقیدت سے نوٹ اپنی جیب میں رکھ لیتا اور پھر اُن پیسوں سے خرید کر کھائی کسی بھی چیز کو نعمتِ خداوندی سے کم نہ سمجھتا۔ ان کا دیا پانچ روپے کا ایک نوٹ تو آج بھی میرے بریف کیس میں بطور برکت رکھا ہوا ہے۔
اللہ ربّ العزت سے دُعا ہے کہ وہ میری نانی جان اور میرے مرحوم والدین کو جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرماکر اُن کے درجات بلند فرمائے۔ (محمد نصرت علی، زمان ٹائون ،کراچی)