• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقتدار کی رسہ کشی سے عوامی محرومیاں بڑھ رہی ہیں

بات چیت: وحید زہیر

صوبۂ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے معروف سیاسی رہنما، سابق سینیٹر، نواب زادہ میر حاجی لشکری خان رئیسانی کا تعلق بلوچستان کے علاقے سراوان سے ہے۔ اُن کے بڑے بھائی چیف آف سراوان، نواب محمد اسلم خان رئیسانی بھی سینئر رکنِ اسمبلی ہیں اور بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ وہ میر غوث بخش بزنجو کی ’’پاکستان نیشنل پارٹی‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ 2012ء میں پاکستان پیپلز پارٹی سے رفاقت ختم کرتے ہی سینیٹ کی رکنیت سے بھی مستعفی ہوگئے۔ اِس وقت ’’بلوچستان پیس فورم‘‘ اور ’’بلوچستان ہاکی فیڈریشن‘‘ کی سرپرستی کررہے ہیں۔ 

صوبے میں لاقانونیت، فرقہ پرستی، تعصب اور گروہ بندیوں کو منفی روایات کا شاخسانہ قرار دینے والے لشکری رئیسانی علم دوست، کتاب دوست اور مثبت روایات کے امین ہیں۔ اُن کے والد، چیف آف سراوان، شہید نواب میر غوث بخش رئیسانی کا شمار بلوچستان کی اہم سیاسی و قبائلی شخصیات میں ہوتا تھا، وہ وفاقی وزیر اور گورنر بلوچستان بھی رہے۔ اُنھوں نے نہ صرف بلوچستان میں زرعی نظام کو فروغ دیا بلکہ بحیثیت وفاقی وزیرِ ملک میں زرعی اصلاحات کے حوالے سے بھی اہم کردار ادا کیا۔ 

گزشتہ دنوں جنگ، سنڈے میگزین کے لیے نواب زادہ حاجی لشکری رئیسانی سے مُلکی سیاسی و سماجی معاملات پر تفصیلی گفتگو ہوئی، جس کا احوال پیشِ خدمت ہے۔

نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی :رابرٹ جیمس)
نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکّاسی :رابرٹ جیمس) 

س: سب سے پہلے اپنے خاندان،ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: مَیں 10جون 1961ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکول مٹھڑی سے حاصل کرنے کے بعد گرامر اسکول کوئٹہ میں داخلہ لیا۔ مَیں عام بچّوں کی طرح پڑھنے، لکھنے اور مستقبل کے خواب دیکھنے میں مصروف تھا کہ میرے والد نواب میر غوث بخش رئیسانی کو گرفتار کرلیا گیا۔ اُن کی گرفتاری کے باعث ہمارے خاندان نے کافی مشکلات جھیلیں، اُن کی ضمانت اوررہائی کے لیے میں اپنے بھائیوں میر اسماعیل اور میر سراج رئیسانی کے ساتھ وکلاء سے رابطے اور عدالتوں کے چکّر لگانے کی وجہ سے میٹرک کے امتحان میں شریک نہ ہوسکا۔ 

تعلیمی سلسلہ متاثر ہونے کی وجہ سے مجبوراً پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے میٹرک اور پھر انٹرمیڈیٹ کے بعد ٹنڈو جام یونی ورسٹی سے گریجویشن کیا۔ والد صاحب کی گرفتاری کے بعد مجھے ریاست اور حکومت کے درمیان فرق کا علم ہوا کہ حکومت کس طرح جانب دارانہ کردار ادا کرتی ہے۔ بہرحال، اسی طرح رفتہ رفتہ سیاسی سوجھ بوجھ آتی گئی اور ہم بھی سیاسی کاروان کا حصّہ بن گئے۔

س: میدانِ سیاست میں باقاعدہ قدم کب رکھا؟

ج: 1993ء میں پہلی مرتبہ اپنے آبائی علاقے ’’کچھی‘‘ کی صوبائی نشست پر انتخاب لڑا۔ رکنِ اسمبلی منتخب ہونے کے بعد وزارت کے منصب تک جا پہنچا، لیکن کچھ ہی عرصے بعد 58۔ ٹوبی کے ذریعے حکومت ختم کی گئی، تو مجھے پشین ریسٹ ہائوس میں نظر بند کردیا گیا۔ پھر 1997ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی میں آزاد حیثیت سے حصّہ لیا، لیکن دھاندلی کے ذریعے ہرادیا گیا۔ میرے پاس دھاندلی کے ٹھوس شواہد تھے، لہٰذا ٹریبونل سے رجوع کیا، جس نے میرے حق میں فیصلہ دے دیا۔ مَیں پیپلزپارٹی میں شہید بے نظیر بھٹو کے ساتھ چارٹرڈ آف ڈیموکریسی میں بھی شریک رہا۔ بلوچستان کی نمائندگی کی۔ اور 2008ء میں سینیٹر منتخب ہونے کے بعد آٹھویں ترمیم کے نفاذ کا بھی حصّہ رہا۔

س: لیکن پھر آپ نے سینیٹر شپ سے استعفے کے ساتھ پارٹی بھی چھوڑ دی، اس کی کیا وجہ تھی؟

ج: ایک نہیں، کئی وجوہ تھیں، مَیں جو توقعات لے کر گیا تھا، وہ پوری نہیں ہوسکیں۔ مثلاً پارٹی اپنے منشور سے ہٹ کر فیصلے کرنے لگی تھی، عوامی نمائندگی کا حق ادا نہیں ہورہا تھا۔ اورپھر بلوچستان کے حالات بھی دن بہ دن بے حد خراب ہوتے جارہے تھے، ایسے میں فرقہ واریت کو بھی ہوا دی جانے لگی۔ 

ماورائے عدالت قتل کے الزامات کے ساتھ امن و امان کے حالت دگرگوں ہوگئی۔ ریکوڈک اور گوادر کا معاملہ شدید تنقید کی زد میں آگیا اور عوام کے مفادات کے خلاف کام ہونے لگے، تو ایسے میں نے استعفیٰ دینا ہی مناسب سمجھا۔ تاہم، صرف میرے استعفیٰ دینے سے کچھ نہیں بدلا۔ ملکی سیاسی صورت ِ حال اب بھی دگرگوں ہے، صوبوں کو اُس کا جائز حق نہ ملنے اور اقتدار کی رسّہ کشی سے عوامی محرومیاں بڑھ رہی ہیں۔

س: پھر 2018ء میں دوبارہ انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

ج: صوبہ بلوچستان کے بدترین حالات کے پیشِ نظر مَیں نے 2018ء میں بی این پی کے ٹکٹ پر این اے۔ 25،کوئٹہ سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا، لیکن شومئی قسمت، یہاں بھی میرے ساتھ دھاندلی کی گئی، ہمارے نمائندوں کو گنتی کے عمل میں شامل نہیں کیا گیا، نتیجے کا اعِلان بھی دو روز بعد کیا گیا۔

اس دھاندلی کے خلاف میں نے الیکشن ٹریبونل میں درخواست دی، تو مخالف امیدوار پی ٹی آئی کے صوبائی صدر و سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری پر الزامات ثابت ہوگئے اور ٹریبونل نے میرے حق میں فیصلہ دے دیا۔ مگر وہ سپریم کورٹ چلے گئے، جس کے بعد سے اب تک مقدمہ اِسٹے آرڈر پر چل رہا ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سے معاملے کو طول دیا جارہا ہے۔

س: آپ کی نظر میں یہ سیاسی و انتظامی معاملات کیسے درست ہوسکتے ہیں؟

ج: دیکھیں، میری نظر میں تو اس کا واحد حل جمہوریت ہے۔ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے لیے ہمارے بزرگوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں، جمہوریت کے مکمل نفاذ ہی میں ملکی سیاسی مسائل کا حل پنہاں ہے، لیکن افسوس، مقتدر حلقے غیرسیاسی افراد کی پشت پناہی کرتے ہیں، اسمبلیوں میں عوامی فیصلوں کے خلاف مَن پسند افراد کو جگہ دیتے ہیں، جو ملک، عوام اور جمہوریت کے ساتھ زیادتی ہے۔

س: اقتصادی اور معاشی بحران پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے؟

ج: بدقسمتی سے کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس اقتصادی و معاشی بحران پر قابو پانے کا کوئی جامع پروگرام نہیں، ایک رسّہ کشی کا ماحول ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اُن کے پاس اس دلدل سے عوام کو نکالنے کے لیے معاشی ماہرین کی کوئی بہترین ٹیم نہیں۔ انہوں نے کبھی تھنک ٹینک کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ 

اس وقت ملک صرف اقتصادی اور معاشی بحران ہی نہیں، مختلف قسم کے بحرانوں کا شکار ہے۔ اور میری نظر میں منہگائی، بے روزگاری، منشیات کا استعمال، زرعی زمینوں پر قبضے کی ایک بڑی وجہ کثیر تعداد میں افغان مہاجرین کی ملک میں آمد بھی ہے۔

س: بلوچستان کا مسئلہ کیسے حل ہوسکتا ہے؟

ج: بدقسمتی سے اس صوبے کو ہر دَور میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، جس کے نتیجے میں محرومی، بدامنی، لاقانونیت کو پنپنے کا موقع ملتا رہا۔ صوبے میں لاتعداد مسائل کے حل کے لیے سب سے پہلے تو طاقت کے بے دریغ استعمال سے اجتناب برتنے کے علاوہ پارلیمانی نظام میں مداخلت سے احتراز، عوامی حقوق کا احترام اور انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں، سچ پر جھوٹ کو اہمیت نہ دی جائے، تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔

س: اپنی تحریک ’’کتاب دوست‘‘ کے حوالے سے کچھ بتائیں؟

ج: مَیں کافی سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نوجوانوں کو کتاب سے دُور رکھنے کی ایک منظّم سازش ہورہی ہے، جو کہ مُلکی سطح پر کسی المیے سے کم نہیں۔ کتاب سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں۔ ہر شعبے میں پڑھے لکھے لوگوں کا فقدان ہے۔خصوصاً نوجوان نسل کو تعلیم اور کھیلوں کے ساتھ مطالعے کاعادی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے، لہٰذا اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہم نے ’’کتاب دوست تحریک‘‘ شروع کی اور سب سے پہلے اپنی ذاتی لائبریری سے 20ہزار کتابیں یونی ورسٹیز میں تقسیم کیں۔ 

اس کے بعد ہمارے اس کارواں میں مخیّر افراد، پبلشرز اور اہلِ قلم بھی شامل ہوگئے۔ ہم اب تک 60ہزار کے لگ بھگ کتابیں مختلف کالجز اور اسکولز کی لائبریریز کو فراہم کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض تعلیمی اداروں میں لائبریریز کے قیام کے لیے علم دوست افراد بھی ہم سے بھرپور تعاون کررہےہیں۔ ہم خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کام کررہے ہیں، کیوں کہ مائیں پڑھی لکھی ہوں گی، تو بچّوں کی تربیت بھی بہتر ہوگی۔ پڑھی لکھی خواتین ملازمت پیشہ ہوکر اپنے مسائل خود حل کرنے کے قابل ہوسکیں گی۔

س: قبائلی روایات کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

ج: ہمارے آبائو اجداد ہم سے کہیں زیادہ تہذیب یافتہ تھے، وہ اپنی سرزمین کی آزادی اور غلامی سے نجات کے لیے ہمیشہ اپنا کردار ادا کرتے رہے، تاہم مُلک میں تیکنیکی انداز سے مثبت رویّوں کے حامل قبائلی نظام توڑنے کی وجہ سے احترامِ آدمیت کے مسائل پیش آرہے ہیں۔ موجودہ زمانے میں قبائل کی شکل بدل گئی ہے۔ دنیا بھر میں موجود قبائل جدید علوم اور معاشرتی تبدیلیوں کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں قبائل کو پس ماندہ رکھا جارہا ہے۔ ہمارے یہاں عدالتی نظام میں خامیوں اور تھانہ کلچرکی وجہ سے انہیں انصاف نہیں ملتا۔

س: آپ اسپورٹس سے بھی خصوصی لگاؤ رکھتے ہیں اور بلوچستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بھی ہیں، تو اس حوالے سے کچھ بتائیے؟

ج: صحت مند معاشرے کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں سے نکال کر جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت و تن درستی پر مبنی کھیلوں میں مصروف کیا جائے۔ موجودہ حالات میں ’’کتاب تحریک‘‘ کے ساتھ ساتھ مختلف کھیلوں کا فروغ بھی بہت ضروری ہے۔ 

چوں کہ یہاں ہاکی اسٹیڈیم کافی عرصے سے بند پڑے تھے۔ جس کی وجہ سے قومی کھیل سے وابستہ کھلاڑی کئی قسم کے مسائل کاشکار تھے، تو میں نے اُن کی سرپرستی قبول کی اور بین الاقوامی معیار کے ہاکی اسٹیڈیم کو تباہ ہونے سے بچایا، جس کے بعد کھلاڑیوں کے چہرے پر رونق دیکھ کر فخر محسوس ہوتا ہے۔

س: آپ بہ یک وقت قبائلی و سماجی مسائل کے حل کے علاوہ کتاب تحریک، کھیل اور سیاست سمیت اتنا بہت سا کام کیسے کرلیتے ہیں؟

ج: بے کار رہنے سے آدمی بیمار ہوجاتا ہے۔ مسلسل کام کرنے سے قوّت ملتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب آپ بھلائی کے کام کریں۔ الحمدللہ، مَیں ان تمام امور کی انجام دہی کے لیے وقت کی تقسیم پر قدرت رکھتا ہوں، اور پھر میرے دوست احباب اور ٹیم کے ارکان بھی میرا بھرپور ساتھ دیتے ہیں، جس کی وجہ سے مجھے تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا۔

س: آپ کے والد، میر غوث بخش رئیسانی خاموش طبع اور محنت کی عظمت پر یقین رکھنے والے انسان تھے، کچھ اُن کے بارے میں فرمائیے؟

ج: میرے دادا کے انتقال کے بعد میرے والد، میر غوث بخش رئیسانی نے 1949ء میں قبائلی معاملات اور عوام کی سرپرستی کی ذمّے داری سنبھالنے کے لیے فوج کی ملازمت چھوڑی۔ 1950ء میں اسمبلی کے رکن بنے۔ وہ اور شہید نواب اکبر خان بگٹی، محترمہ فاطمہ جناح کے زبردست حامی تھے۔ وہ 1954ء میں برطانیہ چلے گئے، وہاں اسٹنلے سٹی کے’’فرگوسن اسکول‘‘ سے زرعی آلات اور زراعت کے جدید طریقہ کار کی تربیت کے حصول کے بعد مٹھڑی شہر آئے، تو خود ٹریکٹر چلاتے اور بیج بوتے۔ 

صبح سے شام تک کھیتوں میں کام کرتے۔ وہ نہ صرف اپنے علاقے، بلکہ دُور دراز کے زمین داروں کی بھی اس سلسلے میں مدد کرتے تھے۔ ہم نے گلّہ بانی کے بعد زراعت کو تجارت کا کار آمد و سیلہ جانا۔ میرے والد زراعت کے شعبے میں انقلاب کا عزم رکھتے تھے۔ انہوں نے جنگلی حیات کے تحفّظ کے لیے وفاقی حکومت سے 1960ء میں چلتن پہاڑ میں وائلڈ لائف سینچوری بنانے کا ایک معاہدہ کیا۔ اسی طرح درّہ بولان میں بھی جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفّظ کے لیے اپنی وزارت کے دوران گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ کہتے تھے چلتن، بولان اور مہرگڑھ میرا عشق ہے۔

س: کہا جاتا ہے کہ مہر گڑھ کے آثارِ قدیمہ کی دریافت میں بھی آپ کے والد نے ذاتی دل چسپی لی؟

ج: جی ہاں، اس حوالے سے میرے والد نے فرانس کے مشہور محقّق، جیرج فرانسوا اور مسز جیرج کو پہلے مٹھڑی کے قریب پیرک کے سائٹ پر کام کرنے کی دعوت دی۔ اور پھر وہاں سے تین ہزار سال قبلِ مسیح کے آثارِ قدیمہ دریافت ہونے کے بعد انہیں مہرگڑھ میں آثارِ قدیمہ دریافت کرنے کی ذمّے داری سونپی گئی۔ کھدائی کے بعد یہاں سے 9ہزار سال قبلِ مسیح کے آثار دریافت ہوئے۔ جیرج فرانسوا اور مسز جیرج یہاں تین ماہ تک مسلسل کام کرتے رہے۔ 

وہ آثار کی شناخت، پہچان اور یہ جاننے کے لیے کہ وہ کتنے قدیم ہیں، فرانس کی لیبارٹریز اور جدید آلات سے استفادہ کرتے تھے، لیکن بدقسمتی سے 2002ء میں اُس وقت کی حکومت اور اُس کے کارندوں نے مہر گڑھ کو تحفّظ فراہم کرنے اور ملکی سیّاحت کا ذریعہ بنانے کے بجائے اُسے کھنڈرات میں تبدیل کردیا۔

س: مستقبل قریب میں کوئی اپنی سیاسی پارٹی بنانے کا ارادہ ہے؟

ج: سیاسی پارٹی بنانا تو آسان ہے، لیکن اسے چلانا بہت مشکل کام ہے۔ ایک اچھی سیاسی پارٹی کے لیے نہ صرف مخلص، سنجیدہ اور نظریاتی افراد کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ موجودہ سیاسی نظام میں اس حوالے سے کثیر سرمایہ بھی درکار ہوتا ہے، لہٰذا فی الحال تو آثار نہیں۔ تاہم، دوست احباب اس حوالے سے ضرور بات کرتے ہیں۔

س: تو پھر کسی پارٹی میں شمولیت کا ارادہ ہے؟

ج: ابھی تک تو نہیں۔ ہاں، اگر کوئی سیاسی پارٹی اپنے منشور کے مطابق عوامی جذبے سے کام کرنے کی پابند نظر آئی، تو سوچا جا سکتا ہے۔

س: آپ کے بچّوں کی تعداد،کوئی سیاست میں بھی ہے؟

ج: میری تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ بڑے بیٹے نے حال ہی میں گریجویشن کیا ہے۔ ضروری نہیں کہ سیاست دان کے بچّے بھی سیاست میں آئیں۔ فی الحال میرے سب بچّے تعلیم حاصل کررہے ہیں اور تعلیم کے بعد بھی کسی کا سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

س: آپ کھانے میں کیا پسند کرتے ہیں،اور کیا خود بھی کچھ پکالیتے ہیں؟

ج:کھانے میں جو بھی سامنے آئے، کھالیتا ہوں۔ اگر اہتمام ہو تو دیسی کھانوں کی فرمائش کرتا ہوں۔ خود مجھے انڈا فرائی کرنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔

س: کتنی زبانیں بول لیتے ہیں؟

ج: بلوچی اور براہوی میری مادری زبانیں ہیں، اس کے علاوہ اردو، فارسی، پشتو، سندھی، سرائیکی، انگریزی، جرمن اور فرینچ سمجھ اور بول لیتا ہوں۔یعنی کم از کم 10زبانوں پر عبور حاصل ہے۔

س: سیّاحت کا شوق ہے؟

ج: مَیں تاریخی مقامات، آرٹ اور ہینڈی کرافٹ سے خصوصی دل چسپی رکھتا ہوں۔ اس حوالے سے امریکا اور روس کی بعض ریاستوں کا سفر کرتا رہا ہوں۔

سنڈے میگزین سے مزید