• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

انگریزوں نے لاہور میں جتنے بھی تعلیمی ادارے تعمیر کئے وہ شہر سے باہر اور کھلی فضا میں تھے۔ ان کے ساتھ کوئی مکان، عمارت، کمرشل پلازہ وغیرہ نہیں تھا ۔ جن میںکوئین میری کالج، کنیئرڈ کالج، ایف سی کالج اور کئی دیگر تعلیمی ادارے شامل ہیں،مقصد یہ تھا کہ اسٹوڈنٹس صاف ستھرے اور شوروغل سے ہٹ کر پرسکون ماحول میں تعلیم حاصل کریں، ان تعلیمی اداروں کے ساتھ ہوسٹلز بھی بنائے گئےجو آج بھی موجود ہیں۔آج صورتحال یہ ہے کہ کوئین میری کالج و اسکول، کنیئرڈ کالج، گورنمنٹ کالج برائے خواتین سمن آباد، گورنمنٹ کالج ٹیکنالوجی برائے خواتین اور کئی دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ مکانات اور کمرشل پلازے بن چکے ہیں،ان کی کھڑکیاں ان کالجوں کے کلاس رومز اور گرائونڈز میں کھلتی ہیں ۔ابھی حال ہی میں بڑی مشکل سے کوئین میری کالج کے گرلز ہوسٹل کے بالکل ساتھ کمرشل پلازہ جو کوئین میری کالج کی زمین پر قائم کیا گیا تھا خالی کرایا گیا ہے ،جس کے لئے محکمہ تعلیم،عدالت اور کوئین میری کالج کی سابق پرنسپل ڈاکٹر عرفانہ مریم اور موجودہ پرنسپل ڈاکٹر ثمرا عمران لائق تحسین ہیں۔ ہم اپنے پچھلے کالم میں جسٹس شادی لعل اور رانی جنداں کے محل میں قائم گورنمنٹ کالج ٹیکنالوجی برائے خواتین کا ذکر کیا تھا اس کے ارد گرد کئی کئی منزلہ پلازے بن چکے ہیں جبکہ یہاں طالبات کی رہائش بھی ہے اس صورتحال میں خواتین تعلیمی اداروں کا تقدس کہاں گیا؟ان تمام پلازوں کی کھڑکیاں کالج کی طرف کھلتی ہیں اب اس سے زیادہ کچھ کہیں گے تو لوگ برا مان جائیں گے۔ سرشادی لعل جن دنوں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے تو ہمارے دادا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مولوی ابراہیم ناگی مرحوم سے خاصے تعلقات تھے جسٹس سر شادی لعل 1920سے 1934ء تک لاہور ہائیکورٹ کورٹ کے چیف جسٹس رہے ، جسٹس سرشادی لعل لاء کالج پنجاب یونیورسی کے ڈین اور پرنسپل بھی رہے تھے وہ پہلے ہندوستانی تھے جنہیں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا وہ گورنمنٹ کالج کے اولڈ سٹوڈنٹس بھی تھے، وہ رفاہی کاموں میں ہمیشہ بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیتے تھےوہ لاہور ہائیکورٹ سے پہلے چیف کورٹ میں بھی جج رہے تھے ۔جسٹس شادی لعل 1872ء میں پیدا ہوئے، 1945ء میں انتقال کر گئے تھے جسٹس شادی لعل اس محل میں کافی عرصہ رہائش پذیر بھی رہے ،ہم نے پچھلے دنوں کوئی چالیس سال بعد کالج کے وائس پرنسپل خرم مراد کے ہمراہ تین چار مرتبہ اس عمارت کا تفصیلی جائزہ لیا ۔ہم اس محل کے فن تعمیر اور کمروں کی خوبصورت ترتیب سے بہت متاثر ہوے۔آپ یہ ملاحظہ فرمائیں کہ محل کو پانی فراہم کرنے کے لئے زیرزمین بہت بڑا ٹینک اس زمانے میں بنایا گیا تھا جہاں سے الیکٹرک موٹروں کے ذریعے پانی محل میں پہنچایا جاتا تھا۔افسوس کہ اس ٹینک کوتباہ کر دیا گیا البتہ اس واٹر ٹینک کی زیر زمین بنیادیں اور باقیات آج بھی موجود ہیں محل کی مختلف دیواروں میں درختوں اور پودوں نے اپنی جڑیں داخل کر دی ہیں بلکہ عمارت کے بائیں طرف تو ایک بہت بڑا درخت محل کی دیواروں میں پھنس چکا ہے ۔یہ محل فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے اگر حکومت نے اس محل کو محفوظ نہ کیا تویہ اور اس طرز تعمیر کی عمارتیں جو کہ اب لاہور میں صرف تین چار رہ گئی ہیں ختم ہو جائیں گی۔ہونا تو یہ چاہئے کہ جسٹس شادی لعل کی تصویر اور ان کی زندگی کے حالات اور رفاہی کاموں کے بارے میں کالج کے اندر کسی جگہ کچھ نہ کچھ ضرور لگایا جائے ۔اس محل کی چھت پر اوپر کے کمروں پر جانے کے لئے دو بڑے گنبد /مینار کے ذریعے سیڑھیوں سے جایا جا سکتا ہے ایک گنبد پر جانے والی سیڑھیا ں گر چکی ہیں۔محل کے کچھ کمروں میں چالیس کے قریب طالبات رہائش پذیر بھی ہیں کچھ کمروں میں کلاس رومز اور ٹک شاپ ہے اگر اس تاریخی عمارت پر محکمہ آثار قدیمہ اور حکومت تھوڑی سی توجہ دےتو یہ عمارت مزید ایک سو برس تک رہ سکتی ہے اس کو اب 114برس ہو چکے ہیں اس کے دو چھوٹی برجیوں کی مرمت کی فوری ضرورت ہے ۔

یہ عمارت اتنی تاریخی اور اہم ہے کہ غازی علم الدین شہیدؒکا مقدمہ کچھ روز اس عمارت میں جسٹس شادی لعل کی عدالت میں چلا تھا اس محل میں جسٹس شادی لعل کی عدالت اور کچھ دوسرے جج صاحبان کے کمرے بھی تھے ہم نےجسٹس شادی لعل کی عدالت کا وہ تاریخی کمرہ بھی دیکھا جس میں غازی علم الدین شہید ؒ کا مقدمہ کچھ روز چلا پھر لاہور ہائیکورٹ کی عمارت میں یہ مقدمہ چلا تھا کہا جاتا ہے کہ غالباً قائداعظم ؒبھی اس محل میں تشریف لائے تھے۔

پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس آئی آر کے فرش ساٹھ برس گزرنے کے باوجود آج بھی بالکل نئے لگتے ہیں حالانکہ وہ فرش سیمنٹ اور چپس کے ہیں اور درمیان میں لوہے کی تار ڈالی ہوئی ہے۔ جسٹس سر شادی لعل کے محل کو جس زمانے میں ہم نے دیکھا تھا تو اس وقت اس کے سارے کمروں کی چھتیں لکڑی کے بالوں کی تھیں پھر کسی نہایت ہی بیوقوف شخص نے کئی کمروں کی چھتیں تبدیل کرکے سیمنٹ کی بنی بنائی بدصورت چھتیں ڈال دیں ۔محکمہ آثار قدیمہ کو چاہئے کہ اس تاریخی ورثہ کی حفاظت کرے اور اس کی مناسب مرمت کرکے اس خوبصورت محل کو بچائے۔(جاری ہے )

تازہ ترین