• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دلی کے نہ تھے کُوچے، اوراقِ مصور تھے ... دہلی نامہ (قسط نمبر 2)

دوپہر کے تین بج رہے تھے اور لوگ اٹاری ،واہگہ پہ ہونے والی پریڈ دیکھنے کے لیے قافلوں کی صُورت بارڈر کی طرف رواں دواں تھے۔ سڑک کی دونوں جانب چھوٹی چھوٹی دُکانیں اور کھوکھے وغیرہ کُھلنے شروع ہو گئے تھے۔ اتنے میں ہمیں ایک لاغر سا شخص نظر آیا، جو بمشکل اپنی سائیکل دھکیلتا ایک بند کھوکھے کے سامنے آکر رُکا اور سائیکل ایک طرف کھڑی کرکے پہلے کھوکھے کا تالا کھولا پھرلکڑی کا پَٹ اُٹھایا۔ اندر جوس، چپس، منرل واٹر اور کولڈ ڈرنک کی بوتلیں رکھی تھیں۔

اُس شخص کی ٹوٹی چپّل اور شدید گرمی میں موٹے کپڑے کی کلیجی رنگ کی پیوند لگی پتلون اس کی مالی حالت کا پتا دے رہی تھی۔پتلون بھی اُس کے ناپ کی نہیں تھی،لمبی پتلون کو پائنچوں کے رُخ سے دو، تین تہیں لگا کر پورا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس نے سفید میلی سی شرٹ پہن رکھی تھی، وہ بھی موسمِ سرماہی کی یاد گار لگ رہی تھی، جسے آستین موڑ کر ہاف سلیوز میں تبدیل کیا گیا تھا، تاکہ شدید گرمی میں شرٹ سے کچھ نباہ کر سکے، سر پہ نیلی پگڑی باندھے، دائیں ہاتھ میں نقرئی کڑا پہنے دونوں ہاتھ باندھے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ رہاتھا۔ کیرتن یا پوجا پاٹ کے بعد وہ آلتی پالتی مار کے کھوکھے میں بڑی نسلی سے بیٹھ گیا۔اس کے کھوکھے کے قریب ہی سڑک پہ فائل بغل میں دبائے اسسٹنٹ کمشنر امرتسر، سندیپ سنگھ رندھاوا شدید دھوپ اور گرمی میں سڑک پہ کھڑے تھے، جن کی ڈیوٹی ہمارے وفد کے پروٹوکول پہ لگی تھی۔

ایک ہندو خاندان امرتسر سے آنے والی بس سے اُترا، آگےبیریئر لگے تھے کہ یہاں سے بارڈر تک پیدل ہی جانا تھا۔ شکل و صُورت اور رنگ رُوپ سے وہ خاندان ساؤتھ انڈین لگ رہا تھا۔ خاندان کے سربراہ نے چھوٹا کرتا پہنا اور دھوتی باندھی ہوئی تھی۔ عورتیں گہرے رنگوں کی ساڑیوں میں ملبوس تھیں، جب کہ بچّے نیکر شرٹ پہنے ان کے آگے آگے بھاگ رہے تھے۔ پورا خاندان اٹاری بارڈر کی طرف تیز تیز قدموں سے رواں دواں تھا۔ اس شدید گرمی میں ہزار ہا میل کا فاصلہ طے کر کے وہ پاکستان کی سیر کو جا رہے تھے۔ ہماری بس بھی آگے بڑھتی چلی گئی۔ آگے سڑک کے دونوں طرف دُور تک پھیلے کھیت، جب کہ کچھ ہی فاصلے پہ اٹاری گاؤں نظر آیا۔ 

وہاں سے کچھ دُور جا کے بائیں ہاتھ اجنالہ کی طرف سڑک نکل رہی تھی۔اجنالہ، چاچا ہرنام سنگھ کا گاؤں تھا۔پھر کچھ فاصلے پر داہنے ہاتھ کی طرف ’’خاصہ‘‘ نام کا ایک چھوٹا ساقصبہ گزرا۔ ہماری بس کا، جو اٹاری روڈ پہ امرتسر کی طرف رواں دواں تھی، ائیر کنڈیشنر خراب تھا۔ چاچا ہرنام سنگھ بس کی رفتار تیز کرتا،تو اے سی جواب دے جاتا اور جب ہمارے احتجاج پہ ائیر کنڈیشنر چلاتا تو بس کا انجن بہت زیادہ شور مچاتا اور رفتار کم ہو جاتی،گویا بس پہ آسیب کا سایا تھا۔بالآخر ہم لوگوں نے چاچا ہرنام سنگھ کے سامنے ہاتھ جوڑدیئے کہ ہماری ائیر کنڈیشنر سے گلوخلاصی کرواؤ اور اسے بند کر دو تاکہ ہم جلد از جلد امرتسر پہنچ سکیں، جس کے بعد سب نے گرمی سے نبردآزما ہونے کے لیے کھڑکیاں کھول لیں۔

سڑک کے دونوں جانب کھیت ہی کھیت نظر آرہےتھے، جن میں گندم کی کٹی فصل کے سنہری تنے پھیلے ہوئے تھے۔ لُو کے تھپیڑوں کے ساتھ گندم کے بچے کھچے تنوں سے آتی سوندھی سوندھی خُوش بُو نتھنوں سے ٹکراتی رہی۔ اسی اثناء امرتسر ٹول پلازا جاپہنچے، جو ہمارے موٹر وے کے ٹول پلازا سے ملتا جلتا تھا۔ اس کے بعد امرتسر اٹاری روڈ یا جی ٹی روڈ امرتسر پہ انڈیا گیٹ وار میموریل کا گول چکر آن پہنچا، جہاں غالباً گھوڑے پہ سوار تلوار سونتے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا سنگی مجسّمہ کھڑا تھا، جس کے عقب میں مخروطی شکل کی گلابی رنگ کی ایک یادگار اور چاروں طرف گول دَر تھے۔ سڑک کے بیچوں بیچ ایک چھوٹا سا پارک بھی تھا۔ یہاں سے امرتسر شہر کا آغاز ہو رہاتھا۔ وہی امرتسر، جس کو سکھوں کے چوتھے گُرو، گُرو رام داس نے آباد کیا تھا۔ جس کے بارہ دروازے اور فصیلیں مہاراجا رنجیت سنگھ نے تعمیر کروائیں۔

امرتسر شہر میں داخل ہوتے ہی، موٹر سائیکلوں، رکشوں، گاڑیوں پر سوار آتے جاتےسردار جی نظر آئے۔یہاں سے امرتسر کی جنگلا بس کا آغاز ہو رہا تھا، جسے آپ امرتسر میٹرو بس بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن سفید رنگ کا یہ جنگلہ ہمارے لاہور کی میٹرو بس کے جنگلےکی نسبت بہت ہی منحنی سا تھا۔بائیں ہاتھ کی جانب گُرو نانک دیو یونی وَرسٹی کا کیمپس آیا اور اس کے ساتھ ہی ’’خالصہ کالج آف نرسنگ‘‘ کا کیمپس تھا، جہاں سے سفید یونی فارم پہنے اسٹوڈنٹ نرسز باہر نکل رہی تھیں۔

این سی اے، ایچی سن کالج کی عمارات سے مماثل، خالصہ کالج کی بلڈنگ
 این سی اے، ایچی سن کالج کی عمارات سے مماثل، خالصہ کالج کی بلڈنگ 

یہیں کبھی ہماری اٹاری امیگریشن والی خالہ بھی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آئی ہوں گی، انہیں یاد کر کے ہمارے پریشان حال چہرے پر مسکراہٹ سی آگئی۔پھر خالصہ کالج ،امرتسر کی دو منزلہ برآمدوں اور مُدَوّر گنبدوں والی سُرخ عمارت نظر آئی، جس کے سامنے ایک وسیع و عریض سبزہ زار تھا۔خالصہ کالج کی عمارت بھائی رام سنگھ نے ڈیزائن کی تھی، جو لاہور کا معروف آرکیٹکٹ تھا۔ ’’میو اسکول آف آرٹس، لاہور‘‘ (جسے اب ’’نیشنل کالج آف آرٹس‘‘کہتے ہیں) لاہور میوزیم اور ایچی سن کالج، لاہورکی عمارتیں بھی بھائی رام سنگھ کے جادوگر ہاتھوں کی کرشمہ سازی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایچی سن کالج، لاہور اور خالصہ کالج، امرتسر کی عمارتیں بہت حد تک مماثلت رکھتی ہیں۔ 

امرتسر اٹاری روڈ پر، جسے جی ٹی روڈ یا گرینڈ ٹرنک روڈ بھی کہتے ہیں، سفر جاری رہا۔وہی جی ٹی روڈ، جو فرید خان شیر شاہ سوری نے تعمیر کروایا تھا،جو پشاور سے کلکتہ تک جاتا تھا۔ اتنے میں شہر کے بیچوں بیچ قائم امرتسر جنکشن کی عمارت نظر آنے لگی،عمارت کے ستون سُرخ رنگ کے تھے اور چھت پہ چھوٹے چھوٹے سنہری گنبد اور کلس قائم تھے،جیسے گُردواروں کے ہوتے ہیں۔

ہماری بس نے جب جی ٹی روڈ سے یو ٹرن لیا، تو وہاں سے دائیں اور بائیں جانب دو رستے نکل رہے تھے۔دائیں طرف والی سڑک ایک فلائی اوور سے گزر رہی تھی۔جب کہ ہماری بس فلائی اوور سے پہلے ہی داہنے ہاتھ واقع امرتسر ریلوے اسٹیشن کی طرف مڑ گئی۔ امرتسر جنکشن کی سرخ عمارت کے باہر ہم لوگ بسوں سے اُترے، تو خاکی وردیوں میں ملبوس پنجاب پولیس کے اہل کاروں نے پورا جنکشن گھیرے میں لے رکھا تھا۔ وفد کے لوگوں نے پنجاب پولیس کے پگڑپوش سرداروں کے ساتھ بہت ذوق و شوق سے تصویریں بنوائیں۔ ایک ایس پی رینک کے سردار بزرگ پولیس آفیسر نے ہمیں بتایا کہ وہ پاکستانی ڈراموں کے بڑے دل دادہ ہیں۔ 

امرتسر اسٹیشن کے برآمدے سے گزر کر ہم پلیٹ فارم پر آگئے، جہاں درجہ اوّل کی انتظار گاہ ہمارے گروپ کے لیے مختص تھی اور مقامی لوگوں کا وہاں داخلہ ممنوع تھا۔امرتسر ریلوے اسٹیشن اور پلیٹ فارم بہت صاف سُتھرا تھا۔ ایک سب انسپکٹر سے، جو ہمارے وفد کی سیکیوریٹی پہ مامور تھے، استفسار کیا تو پتا چلا کہ کافی عرصے سے حکومت نے ریل کے محکمے کی صفائی سُتھرائی نجی شعبے کے حوالے کردی ہے کہ سرکاری ملازم ویسی ہی صفائی رکھتے تھے، جیسی کسی سرکاری محکمے کے ملازم سے توقع کی جاسکتی ہے۔ اب نج کاری کے بعد کوئی اگر ذرا سی بھی کوتاہی کرتا ہے، تو اسے فوراً کان سے پکڑ کر نکال باہر کرتے ہیں۔ 

امرتسر پولیس کے ایک اہل کار کے ساتھ
 امرتسر پولیس کے ایک اہل کار کے ساتھ 

جس تنخواہ میں ایک سرکاری ملازم کام کرتا تھا، اب اُسی تن خواہ پہ نجی شعبے نے چار چار افراد رکھے ہوئے ہیں اور ان کی تن خواہ بھی ان کے کارکردگی سے مشروط ہے۔گرینائیٹ کا چمچماتا فرش، لوہے کی آرام دہ کرسیاں، کالونیل دَور کے جنکشن کی دو دو فٹ موٹی دیواریں اور بہت اونچی چھت کی وجہ سے انتظار گاہ کا ماحول کافی ٹھنڈا تھا۔ کرسی پہ بیٹھتے ہی آنکھ لگ گئی، اور جب آنکھ کُھلی تو دیکھا کہ آٹھ دس افراد بڑے بڑے دیگچے اُٹھائے انتظار گاہ کی جانب آرہے ہیں۔ دیگچوں میں بریانی، زردہ تھا، تو کسی میں ٹھنڈی ٹھار پانی کی بوتلیں، کولڈ ڈرنکس اور پھل۔

سب سے پہلے انہوں نے ہم میں سے ہر ایک کو پانی کی ٹھنڈی بوتل دی، پھر پلیٹوں میں کھانا نکال کر پکڑاتے گئے۔’’یا الٰہی! یہ کیا ماجرا ہے، یہ اچانک کھانا کہاں سے آگیا۔‘‘تھکن اور بھوک کا ایسا عالم تھا کہ ہم نے پوچھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ پھر بریانی اس قدر لذیذ تھی کہ کیا کہنے۔ کم از کم ہم نے تو اس سے پہلے ایسی بریانی نہیں کھائی تھی، دل میں حسرت نے انگڑائی لی کہ ’’بریانی کے ساتھ رائتہ اور سلاد ہوتا، تو مزہ دوبالا ہوجاتا۔‘‘ابھی دل نے یہ خواہش کی ہی تھی کہ اوپر سے دو، تین افراد رائتہ اور سلاد لیے چلے آئے۔ زردہ کھایا، تو اس میں چاول کم اور میوہ زیادہ تھا۔

جی کررہا تھا کہ بس کھاتے ہی جاؤ،بھوک ختم ہوچُکی تھی، مگر جی نہیں بھر رہا تھا۔شکم سیری کے بعد دل میں ایک خوف نے سر اُٹھایا کہ ’’سفر کے اخراجات اور ہوٹل کا خرچہ تو حکومت کے ذمّے تھا، مگر کھانا پینا اپنی جیب سے تھا۔ اب ہماری جیب میں تو اس وقت امریکی ڈالرز اور پاکستانی روپوں کے سوا کچھ نہیں ، تو کہیں یہ کھانا کینٹین سے تو نہیں آیا کہ اگر ایسا ہوا، تو ہمیں اس کا بِل بھی دینا پڑے گا اور ہمارے پاس انڈین کرنسی ہے نہیں، ایسے میں کیا کریں گے۔‘‘ یہ سوچ کر چہرے پر ہوائیاں سی اُڑنے لگیں، ایسا نہ ہو کہ نئی سرزمین پر پہلے ہی دن برتن مانجھنے پڑ جائیں۔

اتنے میں ایک بھاری بھرکم جسامت، ہلکی داڑھی والا ایک شخص کچھ افراد کے جلو میں اندر داخل ہوا۔ اس نے گیروئے رنگ کی ٹوپی پہن رکھی تھی اور چہرے مُہرے سے کینٹین کا مالک لگ رہا تھا۔ ’’اب بِل کہاں سے بھریں گے؟‘‘ ہم منہ ہی منہ میں بڑبڑائے کہ اتنے میں وہ شخص ایک ایک مسافر کے پاس جاکراستفسار کرنے لگا کہ ’’کچھ اور چاہیے، کچھ اور کھانا ہو تو بتائیں، ابھی حاضر کردوں گا۔‘‘ہمارے ساتھ بیٹھے فیض مصطفیٰ بولے ’’ارے، یہ تو ہریش صابری پٹواری ہے۔‘‘ اُن کی بات سُن کر ہم چوںکے’’ہریش تو ہندوؤں کا نام ہوتا ہے، تو یہ پٹواری اور صابری کیسے؟‘‘ فیض مصطفیٰ، جو پہلے بھی دو بار بھارت جا چُکے تھے، بولے ’’ہریش ویسے تو سکھ ہے، لیکن امرتسر کا پٹواری ہے اور ’’علی احمد صابر پیا‘‘کا، جن کی درگاہ کلیار شریف میں واقع ہے،مرید ہے، تو اس طرح اس کا نام ہریش صابری پٹواری ہے۔‘‘

کلیار شریف،اُتر پردیش کا ایک قصبہ ہے، جو روڑکی اور ہری دوار کے درمیان واقع ہے۔ علاؤالدین علی احمد صابر پیا،جمیلہ خاتون کے صاحب زادے تھے، جو بابا فرید الدّین گنج شکر کی بڑی بہن تھیں، اس طرح صابر پیا بابا فرید کے بھانجے تھے۔مسلمان، ہندو،سکھ سب ہی اُن کے مزار پر جاتے ہیں۔ بادشاہ ابرہیم لودھی بھی (جسے ظہیر الدّین بابر نے شکست دے کر برصغیر میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی تھی) اُن سے بہت عقیدت رکھتا تھا ۔صابر پیا کا دربار ابراہیم لودھی ہی نے تعمیر کروایا تھا۔ جب بھی پاکستان سے کوئی قافلہ بھارت جاتا ہے، تو ہریش الہ دین کا جن بن کر امرتسر جنکشن پہ نمودار ہوجاتاہے اور جب تک قافلہ امرتسر اسٹیشن پہ رُکا رہے،ہریش مسلسل ان کی خدمت میں لگا رہتا ہے۔ 

چہرے پہ دھیمی سی مسکراہٹ لیے ہریش، اُس کا بھائی، بچّے سب ہی مہمانوں کی آؤ بھگت میں مصروف تھے۔ جب ہریش نے سب مہمانوں سے دُعا سلام کرلی، تو گرما گرم چائے کا دیگچا آن پہنچا۔ اب مزےدار الائچی والی ہلکے میٹھے اور تیز پتّی والی خالص دودھ کی چائے کے کپ ہر شخص کے ہاتھ میں پہنچنا شروع ہو گئے۔نیند کی کمی، سفر کی تھکاوٹ اور آگے کے لمبے سفر کی پریشانی میں ہم نے تو اوپر تلے دو،تین کپ چائے پی اور پھر سے تازہ دَم ہوگئے۔ہریش صابری پٹواری کا پورا خاندان سراپا محبت تھا۔ وہ ہر ایک سے جُھک جُھک کر مل رہا تھا۔ بعد میں انہوں نے یہ کہہ کر کہ ’’شاید آپ لوگوں کو راستے میں آنے والے کسی بھی پلیٹ فارم پہ اترنے نہ دیں، تو لمبا سفر ہے یہ کھانا رستے میں کام آئے گا۔‘‘کھانے کے کچھ پیکٹس زادِ سفر کے طور پہ بھی ساتھ دے دیئے۔

پھر اچانک کہیں سے ہریش سنگھ دوبارہ نمودار ہوا، تو ہم حیران پریشان سوچنے لگے کہ یہ اب کیا سوغات لے آیا، تو پتا چلا کہ تین، چار آدمی دودھ روح افزا کا شربت لیے چلے آرہے ہیں، جس میں سوڈا بھی شامل تھا اور تخم بالنگابھی۔ برف کی کثرت نے اس کا ذائقہ دو آتشہ کر دیا تھا۔ہریش صابری نے قافلے کی حفاظت پہ مامور پنجاب پولیس کے عملے کی بھی خُوب آؤ بھگت کی۔ عجز و انکسار، پیار، محبّت، خلوص و چاہت اور فراخ دلی کے اجزا ملا کر اگر کوئی نسخۂ کیمیا تیار کیا جائے، تو ہریش صابری پٹواری ہی کی شخصیت بنتی۔’’آپ اتنے لوگوں کی خدمت کیسے کر لیتے ہیں؟‘‘

ہم نے ہریش صابری سے پوچھا۔’’بس جی، یہ صابر پیا کی نظرِ کرم ہے۔ میرے پتا جی کو جو ملا، اُن کے دَر سے ملا۔ وہ جب تک زندہ رہے، یہ خدمت کرتے رہے اور مرتے وقت ہماری ڈیوٹی لگا گئے کہ جب تک تم لوگ زندہ ہو، یہ سلسلہ اسی طرح چلاتے رہنا۔ اب مَیں اپنے کاکوں (بچّوں) کو سکھا رہا ہوں کہ یہ بھی اسی طرح سے آپ لوگوں کی سیوا کرتے رہیں۔ مہمان بھگوان کا رُوپ ہوتا ہے،ہم تو بس سیوا کررہے ہیں، کھلانے والی ذات تو اوپر والے کی ہے، اس میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں۔‘‘ہریش نے بہت دھیمے لہجے میں جواب دیا۔

ہم لوگ پلیٹ فارم پہ گھومنا چاہتے تھے۔ ہریش نے سیکیوریٹی پہ مامور افسران کی منّت سماجت کی،تو ہمیں امرتسر جنکشن کے پلیٹ فارم پہ گھومنے پھرنے کی اجازت مل گئی۔ باہر نکل کر دیکھا تو دُور تک گرینائیٹ کا فرش لشکارے مار رہا تھا اور مسافروں کی بھیڑ پلیٹ فارم پہ آ، جا رہی تھی۔ (جاری ہے)